حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی گڑھ/ بیت الصلوات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ نظامت (شیعہ دنیات) کی جانب سے عشرۂ اربعین کا انعقاد کیا گیا۔اس اربعین کا سلسلہ نصف صدی قبل شروع ہوا اور یہ سلسلہ اپنے آب و تاب سے جاری ہے۔
تم بھی مثال مولا
تم لازوال مولا
ہر دل سے آرہی ہے مولا یہ سدا
ہوگا جب بیدار یہ زمانہ یا حسینؑ
سارے جہاں پہ سب پر ہوگا یا حسینؑ
مجلس کا آغاز آلٍ حسنین صاحب کی تلاوت کلام سے ہوا۔ معروف سوز خواں، انجینیر عظیم حسین شمس آبادی نے اپنی دل سوز صدا، لہجہ، انداز اور دل شگاف کرنے والے مصرعوں سے عزادار سید الشہدا کی آنکھوں کو اشکبار کیا:
یہ کربلا ہے اُجالا یہیں سے نکلے گا
حسینیت کا ستارہ یہیں سے نکلے گا
یہیں پہ طالب بیت کو موت آئے گی
یزیدیت کا جنازہ یہیں سے نکلے گا
نہرٍ عطش وفا کی ترائ ہے کربلا
کیا خوب ایک بھائی کو وفا کی بھائی ہے کربلا
سرورؑ نے گھر لٹا کے بسائ ہے کربلا
مجلس کو خطاب کرتے ہوئے چیئرمین، شعبۂ دنیات (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) علی گڑھ، مولانا پروفیسر سید طیب رضا نقوی صاحب نے سورۃ توبہ کی آیت مبارکہ نمبر 112 کو سرنامۂ کلام کا انتخاب و موضوعٍ گفتگو قرار دیا "یہ لوگ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد پروردگار کرنے والے، راہٍ خدا میں سفر کرنے والے، برائیوں سے روکنے والے اور حدود الٰہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انھیں جنت کی بشارت دیدیں۔"
پروفیسر طیب رضا نے محیط گفتگو کو 'عبدیت' کے معانی پر تاکیدی زور، تشریح و وضاحت پر روشنی ڈالی۔ اول عبادت خدا، نماز میں بغیر اقرار عبدیت کے نماز قابل قبول نہیں۔ اگر رحمت العالمین ﷺ کو رسالت ملی تب بھی عبدیت کے نام پر۔ اور کسی بھی منصب و عہدے پر فائز ہونے کے لیے عبدیت اول اور اہم ہے۔ اپنی گفتگو کو مربوط کرنے کے لیے سورۃ دہر کی مکمل ۳۱ آیتوں کا ترجمہ بیان کیا کہ ایک ایسا وقت تھا جب وہ کوئی قابل ذکر نہ تھا۔ ہم نے سننے اور دیکھنے کی قوت عطا کی اور راستہ بھی دکھا دیا اب وہ چاہے شکر کرے یا کافر بن جائے۔
پروفیسر طیب رضا نے ثانیٔ زہرا، شریکت الحسین، شیرٍ خدا کی دختر اور حضرت عباس کی بہن جناب زینب سلام اللہ علیہا کی بے بسی، اسیری، پہلے پامال سر تن سے جدا لاشہ دیکھنا، کوفہ کی طرف جاتے بھائی کے لاشہ کو پلٹ پلٹ کر دیکھنا۔ یہ مرثیہ پڑھنا کہ اگر اشقیا مجھکو کربلا میں چھوڑ دیا ہوتا تو میں زندگی بھر آپ کی قبر کی مجاوری کرتی۔ اُس منظر کو یاد دلایا جب مدینہ سے چلیں تھیں تب عباسؑ جیسا بھائی نے سوار کیا تھا لیکن حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہوئ کہ جناب زینبؑ کبھی شمال کی طرف دیکھتی ہیں اور کبھی جنوب کی طرف دیکھتی ہیں اور جناب زینبؑ اپنے آپ کو پاتی ہیں نہ عباسٍ، نہ اکبرٍ، اور نہ قاسمٍ۔ جناب زینبؑ کی یہ یک و تنہائی اور بے بسی سُن کر عزادارانٍ کرب و بلا زار و قطار روتے بلکتے آنکھوں میں اشکوں کا سمندر لیے شبیہ تابوت، علمٍ مبارک اور ذوالجناح یونیورسٹی کے روایتی راہوں سے ہوتا ہوا بیت الصلوات میں جلوس کا اختتام ہوا۔
اربعین کے جلوس میں کثیر تعداد میں شرکاء تھے جن میں پروفیسر سید لطیف حسین شاہ کاظمی، پروفیسر محسن، پروفیسر سید علی کاظم، اسلم مہدی، ضیاء امام، پروفیسر اختر حسن، ڈاکٹر سید حسن رضوی، ڈاکٹر اصغر عباس اور ڈاکٹر شجاعت حسین جلوس کے ہمراہ رہے۔
اے کربلائے سرورٍ دلگیر الوداع
اے قتل گاہٍ حضرت شبیرؑ الوداع
قبر ابن صاحب تطہیر الوداع
اے بھائی جان جاتی ہے ہمشیر الوداع
کیا بے نصیب ہے یہ نواسی رسولؐ کی
تم نے مجبوری نہ ہماری قبول کی