منگل 28 جنوری 2025 - 09:50
معراج کی شب بعثت کا روز

حوزہ/ اس رات اور آنے والے دن کا مقابلہ کسی دن و رات سے نہیں کیا جا سکتا اسلیے کہ بعثت میں فلک نشین کا خاک نشین ہونے کا اعلان ہے اور شب معراج میں زمین پر عزت مآب ذات کو فلک عظمت پر بلایا گیا ہے اوپر سے نیچے آنے کا نام بعثت ہے اور نیچے سے اوپر جانے کانام معراج ہے تاریخیں گرچہ مختلف ہیں مگر عنوان عصر رواں میں ایک ہی دن کا ہے اگر میزان عقیدت میں مضراب حقیقت کے سازوں کو چھیڑ کر اس شب و روز کا ہم پلہ کوئی بن سکتا ہے تو شاید وہ شب عاشور اور روز عاشورہ ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو لیلائے شب کے گیسو سنوارنے کی غزلیں ، داستانیں ادب کی کائینات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں ہجر و وصال کے قصوں سے ادب کا دامن دراز لبریز ہے مگر ہوس اور محبت کے ملے جھلے سنگم کا نام یہی وادی عشق ہے۔

مگر اک پاکیزہ شغف ،معصوم عشق ،اور سدرہ المنتہی تک بھی منتہی نہ ہونے والی ایک محبت کی ایسی داستان ہے جسمیں ایک ذات لاریب ہے تو دوسری ذات بے عیب ہے رب لا زوال نے رسول باکمال کو ظاہری دہلیز در پر برائے ضیافت مدعو فرمایا ہے اب کائنات کا خالق اگر کسی کا میزبان ہو تو مہمانی کے عناوین کو کوتاہ قلم سے قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔

شاعروں کے جولانی شعور کی بات کروں تو اس سے خوبصورت تعبیر شب معراج کی کیا ہوگی؛

ایک شب عرش پہ محبوب کو بلوا ہی لیا

ہجر وہ غم ہے خدا سے بھی اٹھایا نا گیا

میرے شعور کا حد ادب مانع ہےکہ ہم اس شعر کی وضاحت کریں عقیدے کے قدموں میں تہذیب کی بیڑیاں ہیں قلم فکر میں ارتعاش ہے۔

مگر بس کسی کا ایک خیال جو دنیا کے افسانہ میں ایک حقیقت ہے ادب کے مجاز میں اور مزاج میں کیا ہے وہ کوئی ادیب ہی بتا سکتا ہے۔

مگر ایک خطیب سے پوچھا گیا کی شب معراج پر مختصر الفاظ میں روشنی ڈالیں۔

بس انھوں نے تو دو لفظوں میں پورا سورج پلٹا دیا مراجعت شمس کی ساری روشنیاں اس ایک جملہ میں سمٹ کر آگئی کہ؛

معراج کیا ہے بس میم اور عین کا راج ہے

لسان اللہ کا لہجہ سدرہ المنتہی پر میناء شب میں سنا جہاں شب کی حدوں کا گزر نہیں ہے اس شب میں سرکار قاب قوسین او ادنی کی منزلیں طے کر کے آگئے۔

زندگی بھر جس بندگی میں قربتا الی اللہ کہا تھا ایک شب کے ایک لمحہ نے صدیوں کی انگلیاں تھام کر قرب کی ساری حدیں پار کرادیں جہاں قریب جانے میں حبیب نے جھجک محسوس کی وہاں ادن منی کے نغمہ نے وادی ایمن میں نور بھردیا معبود نے عبد سے راز و نیاز کی باتیں کی وہاں جہاں ہو کا سناٹا تھا بس ھو کی ضمیر عبدیت کا وجود ھو کی ضمیر کا لہجہ جانا پہچانا تھا سماعت سے مانوس اور محسوس سا تھا شان کبریا یہی ہیکہ محبوب کی پسند کی ہر شئ ضیافت کے سفرہ پر ہونا چاہیے تو جب خلاق عالم باعث خلقت عالم کو بلا رہا تھا تو انتظام و انصرام بھی اسی پایہ کا ہونا چاہیے تھا۔

وقت کی طنابوں کو کھینچا گیا شمس و قمر کی روشنیوں پر حجاب مودت چڑھا دیا گیا کہکشاں کو سنوارا گیا سیاروں کو سجایا گیا ستاروں کے جھرمٹ لگائے گئے کشش ارضی کو سمیٹا گیا عطر زدہ فضاؤں کو مہمیز کیا گیا شمع انتظار کو شب میں فروزاں کیا گیا چشم زدن میں لاکھوں میل کا سفر براق پر جبریل امیں کی معیت میں کیا گیا عرش اعظم کی بلندیوں کو محمد ص عربی کی نعلین پاک سے روندا گیا۔

فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى (1) کی منزل وادی قدس تھی جہاں کلیم کو ڈانٹ لگائی گئی اسلیے ادب کا تقاضا تھا کہ قدموں کی جانب نگاہ جائے مگر محبوب کی انتہائے محبت کا تقاضا تھا کہ اسی قالین عرش پر فلک نشین ذات کو مع نعلین مبارک براجمان کیا جائے تاکہ دنیا کو حبیب و کلیم ، سدرہ و طور ، لہجہ و شجرہ ، آسمان و زمین ، اعلی و ادنی ، محمد ص و موسی ع میں فرق نظر آجائے اور با قول علامہ طالب جوہری مرحوم اچھا ہوا ذکر معراج میں روایات نے سرکار کی نعلین بھی تھام لیں اور مورخ نے تاریخ کے شوکیس میں عبدیت کی نعلین سجادیں تاکہ عقل کے اندھے مسلمان کو نطفہ نا تحقیق کو یہ تو سمجھ آجائے کہ روح جوتیاں نہیں پہنتا جسم جوتیاں پہنتا ہے مگر جوتا خور مؤرخ کو عظمت نعلین سرکار ختمی مرتبت کیا معلوم۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے معراج پر کیا خوبصورت معنی خیز شعر کہا ہے

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے ہمیں

کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

چونکہ آیات میں معراج کا مخاطب ذات محمد ص یا صفات محمد ص یا القاب محمد ص نہیں رکھے گئے بلکہ سند عبدیت سے نواز کر ہر عہدے سے بلند درجہ قرار دے دیا جسکی دلیل یہ ہیکہ تشہد میں عبدیت کی گواہی رسالت سے پہلے دی جاتی ہے۔

وہ چاہتا تو "طہ" کا تاج پہنا کر ، مزمل کی کملی لگا ،کر مدثر کی چادر اوڑھا کر، شاہد و نذیر کے پیرہن سجا کر،خاتمیت کا تمغہ لگا کر سلطان عصر رواں قرار دیکر ،شہنشاہ زماں کہکر، سردار رسولاں کا لقب دیکر ،مکی و مدنی عظمتوں کو نچھاور کر کے جس لقب سے چاہتا ملقب کرتا جس عہدے کو چاہتا خطاب کرتا مگر رب لا زوال نے سارے کمال و جمال کو چھوڑ کر صرف اور صرف اسری بعدہ کا انتخاب کیا خالق بلاغت و فصاحت مالک نے رخ انور پیغمبر پر جو غازہ سب سے مناسب سمجھا وہی نقاب محبت چہرہ رسالت پر لگائی اور بندگی کا تمغہ یا تاج کرامت عبدیت کو سجا کر خاک سے فلک کی سیر کو بلوایا تاکہ کچھ نشانیاں دکھائی جا سکیں دیدار نشاں تو بہانا تھا اصل تو نور ازل نے نور اول کو بلایا تھا عقل کل نے عقل اول کو بلایا تھا حبیب نے محبوب کو بلایا تھا معبود نے عبد کو بلا کر وہی وحی کرنا تھی جسکو فرشتوں سے راز خفی میں رکھا تھا۔

فَأَوْحَىٰٓ إِلَىٰ عَبْدِهِۦ مَآ أَوْحَىٰ(2)

پس ہم نے اپنے بندے کو وہ وحی کردی جو ہم کرنا چاہتے تھے

معراج کا پورا راز ما "اوحی" کے غلاف میں چھپا کر دیا گیا

اور يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ..(3) کہ کر غدیر میں پہونچانے کا حکم دیا گیا أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ جس رات میں ہوا اسے شب معراج کہتے ہیں۔لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا(4)

اس کا ہدف قرار پایا اور فأوحی الی عبدہ ما اوحی اس شب کا راز تھا جسکا ساز غدیر کے چوراہے پر با بانگ دہل بجایا گیا اور ما انزل کے پیغام ولایت کو قیامت تک کی بشریت کی ہدایت کے لیے دیا گیا شاید عبدیت کی ہدایت ہی تھی جسکے لیے عبدیت کو بلا کر ذمہ داری سونپی گئی اور جسکے ماتھے پہ دستار من کنت سجائی گئی اس نے بھی اس بات پر فخر و مباہات کیا۔

إِلَهِي كَفَى لِي عِزّاً أَنْ أَكُونَ لَكَ عَبْداً وَ كَفَى بِي فَخْراً أَنْ تَكُونَ لِي رَبّاً( 5)

میرے مالک علی کی عزت کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ تیرا بندہ ہے اور میرے فخر کے لیے یہ کافی ہیکہ تو میرا رب ہے معراج کے معمہ میں میم اور عین کے راج کا راز شاید یہ بھی ہو۔ واللہ اعلم بالصواب

اس رات اور آنے والے دن کا مقابلہ کسی دن و رات سے نہیں کیا جا سکتا اسلیے کہ بعثت میں فلک نشین کا خاک نشین ہونے کا اعلان ہے اور شب معراج میں زمین پر عزت مآب ذات کو فلک عظمت پر بلایا گیا ہے اوپر سے نیچے آنے کا نام بعثت ہے اور نیچے سے اوپر جانے کانام معراج ہے تاریخیں گرچہ مختلف ہیں مگر عنوان عصر رواں میں ایک ہی دن کا ہے اگر میزان عقیدت میں مضراب حقیقت کے سازوں کو چھیڑ کر اس شب و روز کا ہم پلہ کوئی بن سکتا ہے تو شاید وہ شب عاشور اور روز عاشورہ ہے۔

اس لیے کہ شب عاشور میں حکیم نینوا نے خاک کربلا سے سدرہ المنتہی کی نشانیوں کو حجاب آسمانی کی نقاب کشائی کرکے شوق شہادت کے متمنی اصحاب کو عبدیت کے صلے کے طور پر دیکھایا اور روز عاشورہ شہادت حسین ابن علی ع نے آبرو بعثت و رسالت کی لاج رکھ لی ورنہ سفیانیت نے عمرانیت کے گلے پر خنجر نہیں رکھا تھا بلکہ دین و شریعت کی شہ رگ حیات کو کاٹ دیا تھا وہ تو کہیے کہ نواسہ رسول نے اپنی گردن پیش کرکے اسلام کی جان بچا لی بلکہ جسم شریعت میں روح حسینیت کو پھونک دیا اسلیے معراج و بعثت کا تسلسل غدیر سے کربلا تک پہونچتا ہے بس ذرا زاویہ نظر حسینی ہو جائے۔

اہل ولا کو شب معراج اور روز مبعث بہت بہت مبارک ہو

حوالہ جات:

(۱)سورہ طہ آیت ۱۲

(۲)سورہ نجم :آیت ۱۰

(۳)سورہ المائدہ :آیت ۶۷

(۴)الاسراء آیت :۱

(۵) الخصال ج ۲، ص ۴۲۰

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha