تحریر: مولانا سید رضی پھندیڑوی مقیم دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی | تین شعبان المعظم سنہ 4 ہجری عرب کی سرزمین پر مدینہ منورہ کے بنی ہاشم خاندان کے افق پر زہراء سلام اللہ علیہا کا چاند نمودار ہوا، جس کو زمانہ نے ابو عبداللہ کنیت اور سید شباب اهل الجنة، سبط النبی، مبارک اور سید الشہداء جیسے القابات سے یاد کیا۔
امام عالی مقام انسانیت کی حیات کے عنوان ہیں آپ نے عزیمت واستقامت کی راہ پر گامزن ہوکر بے مثال قربانیاں پیش کیں،اپنے خون سے اَقدارِ حق کے اِحیاء کا ایک نیا چمنستان آباد کر کے قیامت تک ظلم و استبداد کی راہوں کو مسدود کردیا۔ آپ نے کمزور موجودات کو رمق حیات بخشی گویا موجودات کی حیات میں آپ کی خوشبو بسی ہے چنانچہ معاشرے میں کہیں انسانیت، حیاء، پاکدامنی، مظلوم کی حمایت، امنیت، انصاف، فقراء کی مدد، غلامی اور ظلم سے آزادی، عزت اور انسانیت وغیرہ دکھائی دے تو سمجھ لیجیے اس معاشرے سے حسینیت کی خوشبوہ آرہی ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام نے کائنات کے لوگوں کو تمام خصائل جمیلہ اور عز و شرف عطا فرمایا۔ عرب کے اس پر آشوب ماحول میں جب ظالم و جابر برسر اقتدار تھا انسانیت اپنی حیات کی بھیک مانگتی پھر رہی تھی اور کوئی اس کو سہارا دینے والا نہ تھا سوائے فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کے۔
امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا مقصد انسانی معاشروں کے درپیش خطروں کو دور کرنا، لوگوں کو انصاف دلانا اور سماج میں امن اور شانتی کو وجود میں لانا وغیرہ ۔ روح کی بالیدگی اور معنویت کی طرف رجحان امام عالی مقام کی ذات وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اسی لئے ہماری تہذیب میں ان کی یاد کی بہت قیمت ہے اور ہماری ثقافت ميں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و انصار کی یاد منانا عبادت ہے کیونکہ ان کے تذکرے معنویت میں فروغ کاباعث اور انسان کو انسانیت کے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں اسی لئےامام علیہ السلام کی شہادت پر گریہ و زاری اور حزن واندوہ، باطنی تغیر کےوجود ميں آنے کا سبب اور اس کے ساتھ ہی عقیدے کی راہ میں موت کو سعادت اور ستمگر کے سامنے تسلیم ہو جانے کو باعث ننگ و عار قرار دیتے ہیں چنانچہ نواسہ رسول کی یاد ان انسانی بنیادوں پر قائم ہے کہ جہاں مذہبی، نسلی اور لسانی تنگ نظری کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا بلکہ ہرفرد کے دل کی آوا ز ہے اسی لئے دنیا کی اہم انقلابی تحریکوں میں اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے ۔
امام حسین علیہ اسلام اس عظیم ذات اور مرکز و محور کا نام ہے جس پر تمام مذاہب کے لوگ آکر کے جمع ہوتے ہیں اور سب ہی کا امام عالی مقام سے کسی نہ کسی جہت سے رشتہ ہے چاہے رشتہ امنیت، حیا، عفت، پاکدامنی، عزت اور انسانیت اور آزادی ہو جس وقت ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا تومہاتما گاندھی نے کہا تھا : ” حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے"۔ پنڈت نہرو کہتے ہیں” امام حسین (ع) کی شہادت میں ایک عالمگیر پیغام ہے" ۔ ” ہیروز ورشپ ” کے مصنف کارلائل نے کہاتھا کہ ” شہادت حسینؑ کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کی جائے گی اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے"۔بھارت کے سب سے پہلےصدر ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی(۱۸۸۴-۱۹۶۳ء) نے کہا کہ امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے"۔ بنگال کے معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگور(۱۸۶۱ءتا۱۹۴۱ء)نے کہا: "سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے امام حسین ؑنے کربلا میں قربانی دی؛ بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں"۔
امام عالی مقام نے اپنی جانثاری سے انسانیت کو تا قیام قیامت حیات بخشی لہذا آپ کی کا تذکرہ ہمیشہ انسانی معاشروں میں ہوتا رہے گا۔ اس مبارک موقع پر میں تمام عالم انسانیت خصوصا امام علیہ السلام کے چاہنے والوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گوں ہوں کہ پالنے والے زہراء کے چاند کے صدقہ میں دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ کر دے اور آخری حجت کا ظہور فرما دے۔ آمین والحمدللہ رب العالمین۔