۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
News ID: 396725
18 فروری 2024 - 23:15
قاسم بن الحسن

حوزہ/ سات شعبان کی صبح منیر تھی، چودہویں کا چاند آغوش ام فروہ میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما تھا۔ حسن (ع) سبز قبا کا ہو بہو آئینہ دار تھا نیابت حسنی کا پیکر شباہت مجتبی کی شکل میں چمنستان آل عمران میں مہک رہا تھا جس کے ہونٹوں کا تبسم شہزادہ صلح کے دل کو فرح و سرور سے بھر رہا تھا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | سات شعبان کی صبح منیر تھی، چودہویں کا چاند آغوش ام فروہ میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ نما تھا۔ حسن (ع) سبز قبا کا ہو بہو آئینہ دار تھا نیابت حسنی کا پیکر شباہت مجتبی کی شکل میں چمنستان آل عمران میں مہک رہا تھا جس کے ہونٹوں کا تبسم شہزادہ صلح کے دل کو فرح و سرور سے بھر رہا تھا۔ چشم تصور سے دیکھا جائے تو تہذیب آل محمد ص کے مطالعہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہےکہ جیسے ہی ام فروہ نے حضرت قاسم نوشاہ کو امام حسن کی آغوش شفقت میں دیا ہوگا آپ نے فورا ہی اذان و اقامت کے لیے حکیم کربلا کی آغوش حکمت میں دے دیا ہوگا بزرگوں پر سبقت نہ کرنے والی تہذیب عقیدت نے یقینا انکار کیا ہوگا مگر حکم امام یا خواہش برادر کا پاس رکھتے ہویے جب تمنائے حسن کو اپنی گودی میں لیا ہوگا تو مملکت صبر کے شہنشاہ نے مجاہد کربلا کی آنکھوں میں بلا کی چمک دیکھی ہوگی اور اذن وادعیہ میں اذان کی تکبیرات سنائی ہوگی ادھر بچہ کے کورے کاغذ پر پہلی آواز نے وحدانیت کے جلوے بکھیر دیے ہوں گے کتاب کربلا کا یہ سنہرا ورق اپنے آغاز خلقت سے ہی توحید کی لاج رکھنے کا وعدہ دست امامت پر ہمک ہمک کر دے رہا تھا لب و رخسار کی سرخی چہرہ اسلام کی سرخی کی علامت تھی ہونٹوں کی مسکراہٹ اسلام کی چمک کا عنوان تھی الغرض اذان کا اذن زندگی گزار نے کے لیے اذن واعیہ میں حاکم وقت امام زمان کی جانب سے دے دیا گیا اور اقامت حیات کی استقامت کا مژدہ ہے اسلیے سنائی گئی حسنی گھرانے میں خوشی و شادمانی کی ایک لہر ہے چہرہ کے صفات ثبوتیہ سے صحیفہ حیات کے صفحات حقیقت کا ادراک کیا جا سکتا ہے آل محمد کے قبیلہ کا چشم و چراغِ اپنی پوری تابانی کے ساتھ زندگی کی دھوپ چھاؤں سے گزرتا ہوا شہادت کی دہلیز پر جب کہ بوسہ زن ہوا امتحان علم و حکمت سے گزرنا پڑا امام عصر والزمان نے پیشانی کی شکنوں میں شہادت کی تحریر کو پڑھا رخساروں کے انگاروں سے شعلہ شہادت کو بھانپ لیا تو رہبر انقلاب کربلا نے مجاہد ارض نینوا سے پوچھا:[یا بنی کیف الموت عندک(1)]

یہ سوال اسوقت فرمایا جبکہ حضرت قاسم بظاھر موت کے بازار میں کھڑے ہیں اصحاب و انصار جام شہادت نوش کر چکے ہیں لاشوں کے پشتے لگ چکے ہیں میدان میں لہو کی بارش ہو رہی ہے سروں کو اڑتے ہویے دیکھا جا رہا ہے مکمل طور پر خوف و ہراس کے آہنی پنجہ سینۂ انسانی پر گاڑے جا رہے ہیں اجل اپنے شکنجہ کو بڑی سرعت کے ساتھ کثرت کا لباس پہنا رہی ہے غازیان اسلام کی تلواریں آگ اگل رہی ہیں گویا یہ بات پردہ راز میں نہیں ہے کہ موت کیا ہے گفت و شنید نظریات کا تصادم نہیں ہے بلکہ مصداقیت کا میدان ، حقیقت کا طوفان ، سمندر کی بے باک امواج کی طرح سیلاب موت کو سامنے لا کر کھڑا کررہا ہے مگر سلام فطرت و قدرت قاسم نوشاہ۔ پر قلب جب محکم ہو شجاعت رگوں میں لہو بن کے دوڑ رہی ہو خانوادہ کی عزت کا پاس و لحاظ ملحوظ خاطر ہو بنی ہاشم کی غیرت کا پسینہ جب جبین شجاعت سے ٹپک رہا ہو تو تکلم کی دہلیز پر کھڑے ہوکر جو فرزند نہج البلاغہ نے جواب دیا ہے اس بھری دنیا میں اس سے بہتر جواب کسی مفکر و مدبر ،ادیب و طبیب و خطیب ، بصیر و خبیر کے بس کی بات نہیں ہے موقع کی نزاکت پر بہادری سے لبریز جواب دیا لبوں کی جنبش نے گردش لیل و نہار کو سکتہ میں ڈالدیا بندش آب شیریں کے پرستاروں کے لیے یہ جواب موت سے کم نہ تھا تبسم بھرا تکلم بھر پور بیان علم لدنی کے سامنے لبوں کی حرکت نے تحریک کربلا میں لفظوں کا اجالا پھیلا کر ابدی حیات کی شیرنی کو شہد سے زیادہ مٹھاس عطا کردی فرمایا: ( الموت عندی احلی من العسل) (2)

میرے نزدیک موت شہد سے زیادہ شیریں ہے۔

جس مقام پر فکرو فن ، تدبیر و تدبر اور انسانی نظریات موت کو تلخ حقیقت سمجھ رہے تھے جہاں ہر خاص و عام کے زباں زد فقط موت کی کڑواہٹ تھی اس جواب نے ازل سے چلی آرہی شرح و بسط کی تشنگی کو لمحوں میں دور کردیا فہم و فراست ، شعور و ادراک ، ضمیر و خمیر ، افہام و تفہیم ، ارسال و ترسیل ، عقل و بصیرت ، فکر و فن ،خیال و تخیل ، خرد و دانائی سب حیران تھے کہ موت شیریں کیسے ہے آیات ربانی نے حقیقت موت اور لذت موت سے آشنا کیا ہے ذایقہ ہے یہ بتایا ہے۔

[کل نفس ذایقة الموت( 3)]

کہہ کر مگر وہ ذایقہ کیسا ہے یہ کسی مفسر و ادیب و طبیب نے نہیں بتایا ہاں خطیب نہج البلاغہ نے اک اشارہ ضرور دیا۔

[واللہ علی ابن أبی طالب آنس بالموت کما یانس طفل الصغیر من ثدی امہ]

"خدا کی قسم ابو طالب کا بیٹا موت سے اس طرح مانوس ہے جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے سینۂ سے آشنا ہوتا ہے۔(3)

مگر یہ اجمال تفصیل طلب تھی دادا کے اس قول کی وضاحت بھی ضروری تھی اور موت کی کڑواہٹ کا مرثیہ خوانی کرنے والوں کو متوجہ بھی کرنا تھا لہذا جناب قاسم نوشاہ نے فرمایا میرے نزدیک موت شہد سے زیادہ شیریں ہے گرچہ بیان میں عندی کا عندیہ اشارہ ہیکہ نظریہ شخصی ہے مگر جب شخصیت شہرہ آفاق ہو تو نظریہ ذاتی نہیں رہتا اور وقت و حالات نظریہ میں وسعت پیدا کر دیتے ہیں حضرت علی ع کے علمی سرمایہ کے دو وارث ہیں لفظیات کے اجمال کی تفصیل حسنین شریفین ع کے علمی کاندھوں پر آتی ہے جبکہ شاہ نجف کی حیات کے دونوں رخ یعنی قلم و شمشیر ،صلح و جنگ کو بیٹوں نے اپنی حیات میں ڈھال کر پیش کیا تو اس قول کی وضاحت کی زمہ داری بھی دونوں کی نسلوں پر آنی تھی اس لیے کہ امیدوں کے پھول ہمیشہ لایق شجروں ہی کی شاخوں پر کھلتے ہیں لہذا انسیت موت کی تشبیہ کو شیر مادر سے تعبیر کیا ابن حسن حضرت قاسم نے مگر تیرہ برس کا بچہ شیر خواری کی تعبیر کو شہد سے تشبیہ دیکر فکر کو قریب تو کر گیا مگر بات اب بھی حقیقت سے قریب کی مثال طلب تھی تو یہ کاینات ادب میں پہلا مرحلہ ہے جہاں تکلم کی وضاحت میں تبسم فرمایا گیا ہے ورنہ ہمیشہ تبسم کی وضاحتوں میں تکلم کے دفتر کھلے ہیں لب و رخسار کی ہنسی پر غزلیات و ادبیات اور دیوانوں کے انگنت دیوان ہیں۔

بلکہ اس سلسلہ میں نظیر باقری کے مرثیہ ہنسی کی ایک بیت ہے۔

کسی کے یوں مسکرا کے جانے میں

ہوئی ہیں کتنی غلط فہمیاں زمانے میں

الغرض جناب قاسم نے تکلم سے جو بات کہی حضرت علی اصغر نے گلے پر تیر کھا کر لبوں پر تبسم بکھیر دیا شیر خوار کی مسکراہٹ شہادت کے وقت موت کے شیریں ہو نے کی واضح دلیل ہے اس سے جلی برہان شاید کسی عمیق نظریہ پر اس عمر کے عالم نے نہ دی ہو تجربہ کریں کسی شیر خوار کے لبوں پر کوئی کڑوی شی رکھیں وہ رویے کا منھ بنایے کا مگر اس کے ہونٹوں پر شہد کا قطرہ رکھیں لبوں پر ایک خوبصورت سی مسکان بکھر جائیگی جو علامت ہیکہ بچہ جس طرح شیر مادر پر تبسم کرتا ہے ویسے ہی حضرت علی اصغرع تیر سہ شعبہ کی ہر تاریکی پر تبسم کی لکیریں پھیر کر ہر شعبہ میں علم کے اجالے بکھیر دیے تاکہ آنے والی نسلیں نہج البلاغہ کے اوراق کے اجمال کو صحیفہ کربلا کے دامن میں موجود وضاحتوں سے حاصل کرلیں بس رہوار شعور کو مہمیز کرنے کا ہنر طالب علم کو آجایے فکری سرمایہ کے لیے فلسفہ کی موٹی موٹی بھاری بھر کم طویل و عریض کتابوں کی ورق گردانی کی ضرورت نہیں ہے بس معرفت کے گہرے سمندر میں ایک چھلانگ کافی ہے طایر تخیل فضا عشق و شغف میں مودت آل عمران میں ایک مخلصانہ پرواز بھی عقل کی گرہیں کھولنے کے لیے کافی ہے بس انکی نگاہ کرم کا ایک ذرہ چشم محبت میں سرمہ گیں کے لیے مل جایے تو بصارت میں بصیرت مل جائے۔

دعا ہے بارگاہ رب لوح قلم میں کہ ہمیں آل عمران کے علم کا صدقہ عطا ہو کلک قلم کا تحرک انکے در کی ہوا کے اک جھونکے کا‌ مرہون منت ہے۔

تمام اہل ولا کو حسن سبز قبا کے لخت جگر ام فروہ کی آنکھوں کے تارے کی آسمان عظمت پر ولادت با سعادت مبارک ہو!

حوالہ جات:

(1) مدينة المعاجز ج 4ص 228

(2) حماسه حسيني ج 1ص 380

(3) قرآن مجید سورہ آل عمران آیت 185

(4) نہج البلاغہ خطبہ نمبر 5

تبصرہ ارسال

You are replying to: .