ہفتہ 8 فروری 2025 - 10:32
شہزادہ علی اکبر(ع) کی حق اور شہادت طلبی سے جوانوں کو درس لینا چاہیے

حوزہ/ امام جمعہ تاراگڑھ ہندوستان نے کہا کہ ایک جوان سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتا ہے، اگر ریڑھ کی ہڈی میں مشکل ہو جائے تو انسان جوان ہوتے ہوئے بھی کھڑا نج ہوسکتا، اگر معاشرے کے جوان فاسد ہو جائیں تو معاشرہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، لہٰذا ضروری ہے کہ جوانوں کے اوپر توجہ دی جائے، آج ہمارے معاشرے میں جوانوں کا آئیڈیل کون ہے ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ہمارے جوانوں کو جناب علی اکبر علیہ السّلام کی حق طلبی اور حق کی راہ میں موت کے اشتیاق سے سبق لینا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ تاراگڑھ ہندوستان مولانا سید نقی مہدی زیدی نے خطبۂ جمعہ میں نمازیوں کو تقوائے الٰہی کی نصیحت کی اور شعبان المعظم کی مناسبتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ١١ شعبان المعظم روز ولادتِ باسعادت جناب علی اکبر علیہ السّلام جس دن کو بعض ممالک میں یومِ جوان کا نام دیا گیا ہے، ایک جوان سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتا ہے، اگر ریڑھ کی ہڈی میں مشکل ہو جائے تو انسان جوان ہوتے ہوئے بھی کھڑا نج ہوسکتا، اگر معاشرے کے جوان فاسد ہو جائیں تو معاشرہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، لہٰذا ضروری ہے کہ جوانوں کے اوپر توجہ دی جائے، آج ہمارے معاشرے میں جوانوں کا آئیڈیل کون ہے ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ہمارے جوانوں کو جناب علی اکبر علیہ السّلام کی حق طلبی اور حق کی راہ میں موت کے اشتیاق سے سبق لینا چاہیے۔

حجۃالاسلام مولانا سید نقی مہدی زیدی نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے ماں کے حقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے رسالہ حقوق میں فرماتے ہیں: فحقّ أُمِّك أن تعلم أنَّها حملتك حيث لا يحمل أحدٌ أحداً، وأطعمتك من ثمرة قلبها ما لا يُطْعِم أحدٌ أحداً، وأنَّها وقتك بسمعها وبصرها ويدها ورجلها وشعرها وبشرها وجميع جوارحها مستبشرةً بذلك فرحةً موبلة (أي كثيرةٌ عطاياها)، محتملةً لما فيه مكروهها وألمها وثقلها وغمّها، حتى دفعتها عنك يدُ القدرة وأخرجتك إلى الأرض فَرَضِيَتْ أن تشبع وتجوع –هي-، وتكسوك وتعرى، وترويك وتظمأ، وتظلّلك وتضحى، وتنعمك ببؤسها، وتلذّذك بالنوم بأَرِقهَا، وكان بطنها لك وعاءً، وَحِجْرها لك حواءً، وثديها لك سقاءً، ونفسها لك وقاءً، تباشر حرّ الدنيا وبردها لك دونك، فتشكرها على قدرِ ذلك ولا تقدر عليه إلّا بعون الله وتوفيقه. ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺗﻢ ﭘﺮیہ ﺣﻖ ﮨﮯ کہ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺟﺲ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭاس نے ﺗﻤﮩﯿﮟ اپنے دل کے ثمرسے کھلایا جبکہ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ کو اپنا دل کھانے کے لیے پیش نہیں کرتا، ﺍﻭﺭ اس نے مکمل خوشی کے ساتھ اپنے کانوں، آنکھوں، ہاتھوں، قدموں، بالوں، جلد اورﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻋﻀﺎﺀ ﻭ ﺟﻮﺍﺭﺡ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﯽ، اور اس عمل میں پیش آنے والی کراہت، تکلیف، وزن و دشواری اور غم و الم کو برداشت کیا یہاں تک کہ قدرت کے ہاتھ نے اسے تم سے جدا کیا اور تمہیں زمین پہ بھیج دیا، پھر یہی ماں برضا و خوشی ﺧﻮﺩ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻼﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، ﺧﻮﺩ ﭘﯿﺎﺳﯽ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﻼﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، ﺧﻮﺩﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﻟﺒﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، ﺧﻮﺩ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺎﯾﮧ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ، اپنی غربت و ضرورت مندی میں بھی تمہیں نعمتیں دیتی رہی، تمہیں سلا کر خود ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ جاگتی ﺭﮨﯽ، اس کا پیٹ تمہارے لیے برتن بن جاتا، اس کی گود تمہارے لیے آغوش بن جاتی،اس کے پستان تمہارے لیے مشکیزہ بن جاتے اور وہ خود تمہاری محافظ تھیﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺮﺩﯼ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺗﯽ ﺭﮨﯽ ، لہٰذا تم انہی امور کی مقدار کے برابر اس کا شکریہ ادا کرو اور خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر تم اس کی حقیقی قدر و منزلت کے مطابق اس کا حق ادا نہیں کر سکتے۔

مولانا نقی مہدی زیدی نے کہا کہ اللہ تعالی، والدین کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ہے: «وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ، وَ إِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔علامہ طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا؛ یہاں پر چونکہ خدا تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے شکر کے بجا لانے کا امر فرمایا ہے، اس لیے اشارہ کے ساتھ اس بات کا تذکر دیتا ہے کہ ہر منعم کا شکر واجب اور لازم ہے، اسی وجہ سے ماں باپ( اپنے فرزند پر احسان کرتے ہيں) والدین کا ذکر کیا ہے اور ہمارے پر واجب کیا ہے کہ والدین کی اطاعت کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ سلوک کریں۔ اللہ تعالٰی نے اپنی شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم، انسان کا خالق ہے اور والدین اس انسان کی خلقت اور حفاظت کا وسیلہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماں باپ کے حقوق کسی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سوال کیا کہ باپ کا کیا حق ہے؟ فرمایا: جب تک وہ زندہ ہے اس کی اطاعت کرنا، پھر پوچھا کہ ماں کا کیا حق ہے؟ فرمایا: اگر صحراؤں میں ریت کے ذرات کے برابر اور بارش کے قطرات کی مقدار میں بھی اگر ماں کی خدمت سر انجام دی جائے تو پھر بھی شکم مادر میں ایک دن بھی رہنے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ ابراہیم کا بیٹا زکریا نصرانی تھا، جو بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی زیارت سے مشرف ہوا تو اس نے عرض کیا کہ میری ماں نصرانی و نابینا ہے، وہ بڑھاپے کی حالت میں ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ماں کی خدمت کرو اور اچھے طریقے سے پیش آؤ، مرنے پر اس کا جنازہ دوسروں کے حوالے نہ کرنا، بذاتِ خود تجہیز و تکفین کا کام انجام دینا، زکریا جب واپس کوفہ پہنچا تو والدہ کے ساتھ بہت ہی ہمدردی و مہر بانی سے پیش آنے لگا، یہاں تک کہ نوالے اس کے منہ میں رکھتا، کپڑے تبدیل کرتا، نہلاتا و دھلاتا تھا، مختصر یہ کہ ہر ممکن خدمات انجام دیتا رہا، ماں نے پوچھا: بیٹا، جس وقت تم نصرانی تھے اس قدر میری خدمت نہیں کرتے تھے، اب کیا وجہ ہے کہ دن رات میری خدمت کرتے ہو؟ زکریا نے جواب دیا : اے میری ماں، میرا ایک مولا ہے، وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرزند ہے، اس نے مجھے اس طرح تیری خدمت انجام دینے کی نصیحت کی ہے۔ ماں نے پوچھا: کیا وہ پیغمبر ہے؟ زکریا نے کہا: نہیں، بلکہ وہ فرزند پیغمبر ہے۔ ماں نے کہا: اے بیٹا، ایسا شخص پیغمبر ہونا چاہیے، کیونکہ ایسی نصیحتیں اور احکامات انبیاء کرام (علیہم السلام) ہی دیتے ہیں۔ زکریا نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد بن عبد اللہ پر سلسلہٴ نبوت ختم ہو چکا ہے، وہ خاتم الانبیاء ہیں، لیکن مجھے نصیحت کرنے والے فرزند رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں؛ اس کی ماں بے ساختہ کہہ اٹھی کہ اے بیٹا، یہ دین اسلام تمام ادیان سے بہتر ہے، جسے تم نے اپنایا ہے، وہ مجھے بھی تعلیم دے، تاکہ میں بھی مسلمان ہو جاؤں؛ پس زکریا نے ماں کو شہادتین اور تمام عقائد حقہ کی تعلیم دی، اس کے بعد اس خاتون نے نمازِ ظہرین و مغربین ادا کی، اسی شب اس پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگے تو اپنے بیٹے سے کہنے لگی: بیٹا، جو کچھ تم نے مجھے تعلیمات دی تھیں، ان کی دوبارہ تکرار کرو۔ زکریا نے تکرار شروع کی، وہ سنتی رہی اور اسی حالت میں رحلت کر گئی۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں ہمارے سامنے دو مناسبتیں ہیں ایک ١١ شعبان المعظم روز ولادتِ باسعادت جناب علی اکبر علیہ السلام جس دن کو بعض ممالک میں یومِ جوان کا نام دیا گیا ہے، ایک جوان سماج میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتا ہے، اگر ریڑھ کی ہڈی میں مشکل ہو جائے تو انسان جوان ہوتے ہوئے بھی کھڑا نج ہوسکتا، اگر معاشرے کے جوان فاسد ہو جائیں تو معاشرہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکتا، لہٰذا ضروری ہے کہ جوانوں کے اوپر توجہ دی جائے، آج ہمارے معاشرے میں جوانوں کا آئیڈیل کون ہے ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ہمارے جوانوں کو جناب علی اکبر علیہ السّلام کی حق طلبی اور حق کی راہ میں موت کے اشتیاق سے سبق لینا چاہیئے۔ دوسری مناسبت ١٥ شعبان المعظم منجی عالم بشریت حضرت حجت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادتِ باسعادت کا دن ہے، ١٥ شعبان سے پہلی رات شب نیمہ شعبان یا جس کو شب برأت بھی کہتے ہیں، یہ بہت عظیم رات ہے، یہ بڑی با برکت رات ہے، شب برأت یعنی گناہوں سے بری ہونے کی رات اس سال شب برأت اور شب جمعہ ایک ساتھ ہیں ہمیں اس رات سے غافل نہیں ہونا چاہیے، ﺍﻣﺎﻡ ﺟﻌﻔﺮ ﺻﺎﺩﻕ علیہ السلام ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﺎﻗﺮ علیہ السلام ﺳﮯ ﻧﯿﻤﮧ ﺷﻌﺒﺎﻥ ﮐﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﻮچھا ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﯾﮧ ﺭﺍﺕ ﺷﺐ ﻗﺪﺭ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ، ﭘﺲ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﺗﻘﺮﺏ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ، ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﺧﺪﺍ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﭘﺮ ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﻖ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﺍﺕِ ﻣﻘﺪﺱ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ کھاﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮧ ﻟﻮﭨﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮ ﻣﻌﺼﯿﺖ ﻭ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﮮ۔

حجۃالاسلام مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ بہت سے ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮨﯿﮟ جن میں ،١- ﻏﺴﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿں، ٣- شب بیداری ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺯﯾﻦ ﺍﻟﻌﺎﺑﺪﯾﻦ علیہ السلام ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ، ﮐﮧ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﻮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﺲ ﺩﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﻠﻮﺏ ﻣﺮﺩﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، ٣- ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻋﻤﻞ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ علیہ السلام ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺳﮯ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﻌﺎﻑ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮞ - جو ﺷﺨﺺ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﭼﻮﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﻭﮞ کی ﺍﺭﻭﺍﺡ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ کبھی ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﯾﮧ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﺗﺮﮎ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ۔ ﺣﻀﺮﺕ امام حسین علیہ السلام ﮐﯽ چھوﭨﯽ ﺳﮯ چھوﭨﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ بھی ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔھر ﮐﯽ چھت ﭘﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﮐﺮﮮ، پھر ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﺮﮐﮯ ﯾﮧ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﮩﮯ:ﺍَﻟﺴَّﻠَﺎﻡُ ﻋَﻠَﯿْﮏَ ﯾَﺎ ﺍَﺑَﺎ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﷲِ ﺍَﻟﺴَّﻠَﺎﻡُ ﻋَﻠَﯿْﮏَ ﻭَ ﺭَﺣْﻤَۃُ ﺍﷲِ ﻭَ ﺑَﺮَﮐَﺎﺗُﮧُﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺟﮩﺎﮞ بھی ﺍﻭﺭ ﺟﺐ بھی ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ علیہ السلام ﮐﯽ ﯾﮧ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﭘﮍھے ﺗﻮ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺣﺞ ﻭ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha