۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
ابو القاسم رضوی

حوزہ/ صد سالہ تقاریب میں دنیا بھر سے مہمان مدعو کئے گئے، ان میں حجت الاسلام والمسلمین رمضاني نمائندہ ولی فقیہ و آقای دہقانی نمائندہ جامعة المصطفي، جناب صفدر جعفر صدر ورلڈ فیڈریشن و مولانا سید ابوالقاسم رضوی دونوں مہمان خصوصی تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کمپالہ یوگانڈا بر اعظم افریقہ میں مومنین کی معروف ترین بستی ہے ، جہاں بیسویں صدی کے اوائل میں مرحوم کھیم جی بھیم جی گجرات ہندوستان سے اپنے بیٹے کے ساتھ بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت کرکے آئے تھے مگر یہاں شیعیت کا بہترین مستقبل بھی لکھا گیا۔

آج سے سو سال قبل کمپالہ میں مومنین کی جماعت و مرکز کی بنیاد رکھی گئی دینی و مذہبی فعالیت کا سلسلہ شروع ہوا ہندوستان سے عالم دین بھی خدمت دین کے لئے بلائے گئے رفتہ رفتہ مومنین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا یوگانڈا کی دس مختلف بستیوں میں مراکز دینی قائم کئے گئے کمپالہ ، جینجا، برارہ،مبالے ،مسنڈی ، ہوئ ما و پورٹ وغیرہ مگر کمپالہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اسی شہر کمپالہ میں مولانا صادق حسن کے والد مولانا کاظمینی نے پیش نمازی کے فرائض انجام دئیے اور یہیں مولانا صادق حسن کی ولادت ہوئی، اسی شہر میں ستر کے ابتدائی دنوں مولانا سید حسن نقوی خاندان اجتہاد لکھنؤ امام جماعت تھے ۔

۱۹۶۰ میں کمپالہ کے مومنین نے ایک بہت بڑی جگہ پر مرکز قائم کیا پرانی جگہ چھوٹی پڑ رہی تھی اس کیمپس میں مسجد و امام بارگاہ و مدرسہ و اسکول ، غسل خانہ ، کانفرنس ہال ، کھیل کے لئے گراونڈ اور مقیم عالم دین کی رہائش تعمیر کی گئی ۶۳ سال قبل دور اندیشی کا یہ عالم تھا ۱۹۷۲ یوگانڈا کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے عیدی امین نے فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار حاصل کیا ایشیائی نسل کے لوگ جو وہاں بر سہا برس سے مقیم تھے ان کو نکلنے پر مجبور کیا گیا لوگوں کے پاس املاک تھیں کاروبار تھا سب چھوڑنا پڑا سوال یہ تھا کہا جائیں کچھ لوگ برطانیہ گئے کچھ خاندان امریکہ و کینیڈا و یورپی ممالک گئے کچھ خاندانوں نے ہند و پاک کا رخ کیا سب کچھ لٹ چکا تھا مگر مغرب میں ان خاندانوں نے جد و جہد ضرور کی جو بظاہر نقل مکانی تھی مگر ہجرت کا درجہ اختیار کر گئی اور ترویج تشیع کا سبب بن گئی مغربی ممالک میں امام بارگاہوں اور مسجدوں کی بنیاد یوگانڈا کے مومنین نے رکھی بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی شیعیت ایک ملک تک محدود نہیں رہی بلکہ اس ہجرت نے عالم تشیع کو مغربی ممالک میں تشکیل دیا

عدو شود سبب خیر اگر خدا خواهد

ادھر یوگانڈا میں دینی مراکز اور مومنین کی پراپرٹیز پر مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا اس بیچ کمپالہ میں صرف چار فیمیلیز رہ رہی تھیں پیار علی کھیم جی ، پروفیسر عابدی و محمد منجی و والجی کی فیملی ان لوگوں نے سخت ترین دور میں قبرستان کی مسجد کو آباد رکھا جہاں شب جمعہ دعاء کمیل و مجلس ہوتی ولادت و شہادت کا پروگرام ہوتا تھا ۱۹۷۹ میں عیدی امین کو زوال آیا ادھر ممباسہ کینیا کے رہنے والے ڈاکٹر علی اصغر مولیدنیہ جنھوں نے ممبئی و علی گڑھ سے طب میں گریجوایشن کیا تھا آپ نے کاروبار کے لئے کمپالہ کا رخ کیا ۔

۱۹۹۴ میں موجودہ صدر مسوینی نے اقتدار پانے کے بعد ملک کی ترقی کے لئے بیرون ملک کے لوگوں کے لئے دروازے کھول دیئے پرانے لوگوں کو واپس بلایا گیا جو بائیس سال پہلے ملک چھوڑ کر چلے گئے اس سلسلے میں معروف برطانوی خوجہ شیعہ اثنا عشری وکیل ممتاز قاسم نے قانونی گتھیاں سلجھائیں لوگوں کو املاک واپس ملیں بعض نے قبضہ حاصل کیا اور فروخت کردیا بعض نے کرائے پر اپنی املاک دے دیں جس کی نگرانی خوجہ جماعت کرتی رہی اس بیچ ۱۹۹۴ سے ۱۹۹۶ تک چھ علماء ریسیڈینٹ عالم کے عنوان سے آئے مگر کوئی بھی اپنی دو سال کی مدت پوری نہیں کر سکا اسی دوران آقای رفسنجانی نے ۱۹۹۶میں یوگانڈا کا تاریخی دورہ کیا مومنین کو دیکھ کر بہت خوشی کااظہار کیا

کچھ عرصے بعد قم سے مولانا سید ابوالقاسم رضوی کو مصطفی کانجی نے مرحوم محب ناصر کی وساطت بحیثیت ریسڈینٹ عالم مدعو کیا آپ کو ساز مان تبلیغات سے ہندوستان کے علاوہ دو مرتبہ ہانگ کانگ بھی تبلیغ کے لئے مامور کیا گیا تھا تمام دورے بہت کامیاب رہے تھے بقول صفدر رحمانی ( مسئول دینی امور کمپالہ جماعت ) نوجوان عالم دین نے جماعت میں روح پھونک دی اور قوم کو جوڑ دیا مقامی و غیر مقامی کا جھگڑا ختم کردیا مقامی افریقی لوگوں میں انگریزی و عربی زبان میں دروس دئیے مبلغ تیار کئے۔

خانہ فرہنگ کے تعاون سے مقامی افریقی جن کی تعداد اس زمانے میں ۳۴ تھی ایران اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے اب وہ تمام تبلیغ دین میں مشغول ہیں، اہل سنت کی مساجد و مراکز سے اچھے مراسم قائم کئے شیعوں کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہوئیں، مولانا سید ابوالقاسم رضوی دس سال تک کمپالہ میں رہے عید کے موقع پر رمضان کے موقع پر عید میلاد النبی کے موقع پر سنی حضرات ، مفتی یوگانڈا بلایا کرتے تھے، کمپالہ کی ایک مسجد جہاں شیعوں کے خلاف زہر اگلا جاتا تھا اس مسجد میں ایک موقع پر جیسے ہی وہاں کے عالم خطیب نے شیعوں کی برائی کی ایک مقامی افریقی جوان کھڑا ہوگیا آپ غلط کہہ رہے ہیں میں ان کے مولانا سید ابوالقاسم رضوی کو جانتا ہوں بہت اچھے ہیں، میں نماز جمعہ ان کے پیچھے پڑھتا ہوں کچھ اور لوگوں نے تائید کی اس دن کے بعد اس مسجد میں شیعوں کے خلاف تقاریر کا سلسلہ رکا۔

مولانا نے پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ مدرسہ کو فعال کیا اسپورٹس میں بچوں اور جوانوں کے ساتھ شامل ہوکر انھیں دین سے جوڑا جمعہ کو رات میں youth classes رکھیں شبہات و سوالات کے جوابات مولانا دیتے تھے روز آنہ شب میں پندرہ منٹ کے لئے بعد نماز مغربین فقہ ، تاریخ ، سیرت و تفسیر ہر مولانا گفتگو فرماتے تھے مولانا کے قیام کے دوران ایک ماہنامہ انگریزی میں مولانا سید ابوالقاسم رضوی کی سرپرستی و جناب شیخ رفعت کی ادارت میں نکلتا تھا جس کا نام منزل تھا نوجوانو ں کو ترغیب دی جاتی تھی مضامین لکھیں کامیاب سلسلہ تھا مقصد نوجوانوں میں مطالعہ و تحقیق و تبلیغ کا جذبہ پیدا ہو پابندی سے لکھنے والوں میں محمد عباس کانجی ، سیدہ گلزار فاطمہ عنب رضوی ، صدیقہ منجی ، کنیز زہرا ، افشین ، مہر داد ، اسماء زیدی ، علی عباس کریم اور جمیل علی بھائی یہ سب بچے تھے اور ان جیسے اور بھی بہت سے جن کی عمریں پانچ سال سے اٹھارہ سال تھیں گویا مولانا نے لکھنے والوں کی ایک فوج تیار کردی تھیں خوشی کی بات یہ ہے ان میں سے اکثر آج بھی مضامین تحریر کر رہے ہیں یا کم ازکم آج جب کہ کتب بینی کا رواج ختم ہوگیا ہے، کل کے بچے آج کے جوان بری عادتوں کے شکار نہیں ہوئے کتابیں پڑھ رہے ہیں مطالعہ کرتے ہیں رمضان المبارک میں اعتکاف کا سلسلہ شروع کیا جو صرف عبادت کا عنوان ہی نہیں تربیتی ہوتا تھا آخر میں کوئز و انعامات کا سلسلہ ہوتا تھا ۔

قبرستان میں جمعرات کو شام میں سورہ یس و مختصر مجلس ہوتی تھی پھر شب جمعہ کا پروگرام مرکزی مسجد و امام بارگاہ میں ہوتا تھا روزانہ نماز فجر میں بھی شرکت لوگوں کی آنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی تھی ہر اتوار کو ظہرین کی نماز کو قبرستان میں قائم کیا اس طرح ہفتہ میں دو دن لوگ قبرستان جاتے مرحومین کو ایصال ثواب بھی کرتے اور یہ امر آخرت سازی کا سبب بنتا ایک اور سلسلہ شروع کیا بعد نما ز ظہرین ایک اتوار کو زیارت عاشورہ اور دوسرے اتوار کو زیارت جامعہ پڑھی جاتی تھی۔

مولانا ابوالقاسم رضوی کے قیام کے دوران ایرانی ، لبنانی ، عراقی حضرات بھی پروگرام میں پابندی سے شریک ہوتے تھے اس دوران ایران کے سفراء و وزراء بھی شریک مجلس ہوتے تھے آقای معیر، آقای شیخ الاسلام ، آقای محمود فرازندہ ، آقای آریہ نژاد ۔

مولانا کے علاوہ ان کی اہلیہ مرحومہ سیدہ عندلیب فاطمہ رضوی نے مدرسہ کو بہت مضبوط کیا خواتین و بچیوں کی بہت اچھی تربیت کی بقول مومنین کمپالہ کے وہ دس سال کمپالہ کی تاریخ کا سنہرا باب تھے اس بات ان صد سالہ تقاریب کی تقاریر میں بھی کہا گیا مولانا سید ابوالقاسم رضوی جب آسٹریلیا جانے لگے اور الوداعیہ رکھا گیا، سبھی نے خدمات کو سراہا سفیر ایران آقای محمود فرازندہ نے ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔

مولانا ابوالقاسم سے پہلے آنے والے علماء کے لئے کام آسان تھا مولانا ابوالقاسم رضوی نے بعد والوں کے لئے کام مشکل کر دیا لوگوں کی توقعات کو آسمان پر پہنچا دیا مولانا سید ابوالقاسم رضوی کے بعد جن علماء نے خدمات انجام دیں اللہ جزائے خیر دے مولانا مجتبیٰ قاسم مولانا سید علی اکبر رضوی مقیم حال افریقہ ، مولانا سید حسن ، مولانا سید محمد علی عون نقوی و مولانا سید ضیغم عباس اس وقت بعنوان امام جماعت مولانا سید علی عباس رضوی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔

صد سالہ تقاریب میں دنیا بھر سے مہمان مدعو کئے گئے ان میں حجت الاسلام والمسلمین رمضاني نمائندہ ولی فقیہ و آقای دہقانی نمائندہ جامعة المصطفي ، جناب صفدر جعفر صدر ورلڈ فیڈریشن و مولانا سید ابوالقاسم رضوی دونوں مہمان خصوصی تھے ساتھ آئے ساتھ واپسی ہوئی ائرپورٹ پر خصوصی استقبال کیا گیا جناب امین ناصر صدر افریقہ فیڈریشن ، ڈاکٹر اصغر علی مولیدینا سابق صدر ورلڈ فیڈریشن ، دیکر جماعتوں کے صدور و کونسلرز ، حجة الاسلام شيخ حسين عوالي اور دنیا بھر سے ۲۴۰ سابق یوگانڈا کے رہنے والے مومنین و مومنات ، ان میں اکثریت ۵۱ سال بعد آئی تھی۱۹۷۲ کے سانحے کے بعد اس تاریخی تقریب کا حصہ بننے کے لئے آئے تھے بعض ۱۹۷۲ میں چار سال کے تھے بعض دس سال کے بعض بیس سال کے مگر سب اپنے وطن آکر خوش تھے۔

حجة الاسلام و المسلمين مولانا سيد ابو القاسم رضوي کو اپنے درمیان پاکر سب بے حد خوش تھے مگر مختصر قیام نے لوگوں کو مضمحل کردیا عالم کو معلمہ ، مجسمہ خلق و صفا مرحومہ عندلیب فاطمہ رضوی کو سورہ فاتحہ سے یاد کیا گیا اکثر آنکھیں نمناک تھیں خدا درجات بلند کرے جوار اہل بیت (ع) میں جگہ دے، بقول مومنین و مومنات کے اس جماعت shape دینے میں جتنا حصہ مولانا ابوالقاسم رضوی کا ہے برابر کا اتنا حصہ ان کی اہلیہ عندلیب آئنٹی کا ہے، ایک بزرگ بے ساختہ بول اٹھے بہترین کفو تھیں۔

الحمد للہ صد سالہ تقاریب دعا پر تمام ہوئیں لوگ ایک دوسرے سے مل کر بےحد خوش تھے اب خدا حافظ کہنا آسان نہیں تھا خدا تمام مومنین و مومنات کی حفاظت فر مائے ہم سب کو دین پر قائم رکھے مومنین کی صفوں میں اتحاد قائم رہے اور خدا آخری حجت ع کے ظہور میں تعجیل فر مائے ہمارا شمار مولا کے اصحاب و اعوان میں کرے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .