حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ میلبرن آسٹریلیا و صدر شیعہ علماء کونسل حجۃ الاسلام و المسلمين مولانا سيد ابو القاسم رضوی نے موجودہ حالات کے پیش نظر کہا: آج کا زمانہ بڑا ہی عجیب زمانہ ہے، اس زمانے میں خطیب کو لوگ اپنے مطابق چلانا چاہتے ہیں، پہلے ممبر پہ بیٹھے ہوئے خطیب کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ "کلم الناس علی قدر عقولھم" یعنی لوگوں کی عقلوں کے اعتبار سے بات ہو، لیکن ان کو وہیں پر نہ چھوڑ دے بلکہ ان کی اپنی کی تربیت کرے اور انہیں اس مقام تک پہنچائے جہاں پر وہ خود ہے، خداوندمتعال خطیب اعظم کے درجات بلند فرمائے ، مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہمیں خطیب عالم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عالم خطیب کی ضرورت ہے۔لہذا وقت کے اعتبار سے چلنا بہت ہی ضروری ہے جو وقت کے ساتھ چلتے ہیں وہ وقت پر حکومت کرتے ہیں اور جو وقت کے ساتھ نہیں چلتے وہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور انہیں شرمندگی کے علاوہ کچھ نصیب نہیں ہوتا۔
حجۃ الاسلام سید ابوالقاسم رضوی نے سویڈن اور دنیا میں چل رہے اسلام کے خلاف پروپگنڈے اور ہمدوستان میں حجاب کے خلاف چلنے والی سازشوں کے حوالے سے مبلغین کے رد عمل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: سب سے پہلے باخبر کرنے کے لیے ہمارا خود کا باخبر ہونا ضروری ہے، اور دوسری چیز یہ کہ تشخیص مرض کے لیے طبیب ہونا ضروری ہے جو شخص خود مریض ہے وہ کسی کا علاج نہیں کر سکتا، اگر ہندوستان کے تعلق سے بات کی جائے تو انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال تک حکومت کی، لہذا ہمارا دماغ غلامی کا شکار ہے، اب غلام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ آقا کا منظور نظر بن جائے، اور شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلائے، اس لیے ہندوستان میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کو اسلام کی شبیہ کو بتائیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتائیں کہ ہندوستان میں اسلام ہندوستانی تہذیب کا حصہ ہے، اسلام نے ہندوستان میں مقبولیت حاصل کی ہے ، ہمیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مشرقی تہذیب کیا ہے کیونکہ ہمارے یہاں جو اسلام ہے وہ درحقیقت مشرقی تہذیب ہے، تو بجائے اس کے کہ ہم حجاب کے لئے کھڑے ہوں، ہمیں اس بات کے لئے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے کہ حجاب حیا کا نام ہے، ہم اس حیا کے لیے کھڑے ہوں کیونکہ حیا صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہندوؤں اور سکھوں کا بھی مسئلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ جب مائیکل جیکسن کو ہندوستان آنا تھا تو لوگوں نے احتجاج کیا اور کہا کہ یہ ہماری تہذیب کے خلاف ہے، لیکن سازش کے تحت اسی سال ہندوستان کو مس یونیورس اور مس ورلڈ کا خطاب دیا گیا۔ لہذا ہمیں حجاب کو مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ حیا کا مسئلہ بنا کر پیش کرنا ہے۔
امام جمعہ ملبرن نے کہا: جہاں تک قرآن مجید کی بے حرمتی کا سوال ہے تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم کسی بھی کتاب کا احترام کریں، پہلے اس معاشرے کو علم کا احترام بتانا چاہیے، یہ ساری بے حرمتی آزادی بیان کے نام پر ہو رہی ہے، تو اگر بے حجابی آزادی ہے تو ہے حجاب کرنا بھی تو آزادی ہے، وہ سویڈن جو آزادی کی بات کرتا ہے وہاں پر جب ہم جنس پرستوں کے ایک کلب کا آغاز کیا گیا تو کہا گیا کہ کوئی بھی ان کے خلاف کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ ان کی آزادی کا مسئلہ ہے، جب بے حیا عورت اور بےعزت افراد کو عزت ملنی چاہیے تو شریف اور عزت دار افراد کو بھی عزت ملنی چاہیے، اگر ایک اخبار کو کچھ لکھنے کی آزادی ہے تو دینی مذہبی کتابوں کے احترام کے لیے بھی تو ایک قانون ہونا چاہیے۔