۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
آیۃ اللہ سید ابو القاسم رضوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیۃ اللہ سید ابو القاسم رضوی سنہ 1249 ہجری میں شہر فرخ آباد صوبہ یوپی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد “سید حسین رضوی“ ایک دیندار تاجر تھے ۔ علامہ ابو القاسم کو بچپن سے ہی علم دین کی تعلیم کا شوق تھا۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم کے مراحل فرخ آباد ہی میں طے کئے اس کے بعد اصول فقہ، اصول عقائد، علم تفسیر، علم حدیث اور دیگرعلوم کے حصول کی خاطر لکھنؤ کا سفر کیا اور فخرالمجتہدین آیت الله فی العالمین سلطان العلماء سید محمدکے پاس علم دین حاصل کرکے"فاضل ابو القاسم" کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ سلطان العلماء اور سید العلماء سید تقی صاحب نے آپ کو امامت کے اجازے بھی عطا فرمائے۔

لکھنؤ سے تحصیل علوم کے بعد حج بیت اللہ ، ایران اورعراق کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوئے اور اپنے ہمراہ اپنے بھائی سید احمد ،سید محمد، اہل خانہ، والدین اور دیگر قریبی رشتہ داروں کولیکر نکل گئے۔ جب لاہور پہنچے تو نواب لاہور "علی رضا قزلباش" نےلاہورکے باشندوں کی ہدایت کیلئے سکونت کی درخواست کی۔ آپ نے درخواست قبول کرتے ہوئے وہیں سکونت اختیار کرلی اور شہرلاہور جو مدت سے جہالت کا گڑھ تھا وہ علامہ صاحب اور نواب صاحب کی کوششوں سے دارالشریعہ و العلم شمار ہونے لگا۔

اسی دوران نجف اشرف گئے اور وہاں شیخ مرتضیٰ انصاری کے درس میں شریک ہوئے۔ موصوف کی صلاحیت علمی کو دیکھ کر شیخ مرتضیٰ انصاری اور آیت اللہ اردکانی نے اجازات اجتہاد مرحمت فرمائے۔ عراق کی زیارات کے بعد امام علی رضا ؑ کی زیارت کیلئے ایران تشریف لائے، بزرگ علماء سے ملاقاتیں کیں اور ایران کے مشہور مراجع عظام نے آپ کے لئے اجازات اجتہاد تحریر فرمائے۔ اس کے بعد آپ نوابین لاہور کے ہمراہ واپس لاہورتشریف لے آئے۔

علامہ ابوالقاسم نے لاہور میں ایک مدرسہ بنام "مدرسہ امامیہ" قائم کیا جس کے طلاب، اساتذہ، کتب اور دیگر تمام اخراجات کی فراہمی نواب صاحب نے اپنے ذمے لی ۔

موصوف نے نواب صاحب کے ذریعہ لاہور میں ایک جامع مسجد بھی تعمیر کرائی جس میں آپ کی اقتدا میں نماز یومیہ ، نماز جمعہ اور نماز عیدین منعقد ہوتی اور مؤمنین کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی تھی۔

علامہ صاحب کے حکم پر نواب صاحب نے شہرلاہور میں بہت سے امام بارگاہ بھی تعمیر کرائے جن میں تمام معصومین علیہم السلام کی ولادت اور شہادت کی مناسبت سے مجالس اور محافل منعقد ہوتیں اور آیۃ اللہ ابوالقاسم ہمیشہ تین چار گھنٹے تک حلال و حرام کے احکام اور فضائل معصومین (علیہم السلام) بیان فرماتے تھے۔ ان کی تقاریر کو سننے کے لئے لوگ بلاتفریق مذہب و ملت شریک ہوتے تھے کیونکہ ان کا بیان قرآنی حقائق اور فریقین کی احادیث پر مشتمل ہوتا تھا ۔

موصوف نے تمام مصروفیات کے باوجود تالیف اور تصنیف سے ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ مختلف موضوعات پر عربی، فارسی اور اردو زبان میں بہت زیادہ آثار چھوڑے ہیں جن میں: برہان کتاب البشری، شرح مودة القربی ہمدانی ( دو جلد)، حقائق لدنی(شرح خصائص امام نسائی) ، اثبات تعزیہ داری، شق القمر (عربی)،برہان البیان (اردو) زبدة العقاید(فارسی)، صیانۃ الانسان،رسالہ خمس سادات، خلاصۃ الاصول (عربی)،تعلیقہ بر شرح تجرید علامہ (عربی)، الاصابہ اور الایقان وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

آپ کو اللہ نے دو فرزند عطا کئے جنہیں آپ نے زیور علم و عمل سے آراستہ کیا اور ان کے اسمائے گرامی اسطرح ہیں(1) آیۃ اللہ سید علی حائری (2) مولانا سید ابوالفضل۔

وفات سے ایک مہینہ پہلے آپ نے تصنیف و تالیف کا کام چھوڑ دیا اور اکثر فرماتے کہ موت کے آثار نمودار ہوگئے ہیں آخرت کے سفر کا انتظام کرنا چاہئے۔ چنانچہ سنہ 1322 ھ کے ماہ ذی الحجہ کے آخری ایام میں اپنے فرزند سید علی حائری کو زہد و تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتے ہوئے اپنے لئے کربلا کے کفن اور ردائے یمانی کی وصیت فرمائی جو روضوں سے مس کرکے لائے تھے۔

سن1323 ہجری کی سات محرم میں آپ کی ظاہری صحت بالکل ٹھیک تھی لیکن اس کے باوجود مؤمنین کی ایک جماعت کی موجودگی میں اپنے چھوٹے فرزند سے کہا: آج کل میری طبیعت سے باخبر رہنا!۔ پوچھا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا : مجھے نہیں لگتا کہ میں ایک ہفتہ سے زیادہ زندہ رہوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، چودہ محرم تک طبیعت بالکل صحیح تھی لیکن اسی شب میں یک بیک طبیعت بگڑنے لگی اور 14 محرم کی رات میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

آیۃ اللہ ابوالقاسم کے سوگ میں سیاہ پرچم لگائے گئے، لوگوں نے سیاہ لباس پہنے۔نماز ظہر کے بعد آپ کے جنازہ کو اٹھایا گیا کثیر تعداد میں مؤمنین، طلاب، علماء و فضلاء نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی اور آپ کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ کے بعد لاہور میں بیرون بھاٹی دروازہ امام بارگاہ گامے شاہ کے شرقی حصے میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص44، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔




لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • حسینی IN 17:10 - 2022/10/20
    0 0
    جزاک اللہ خیرا الجزا حوزہ کی خدمات بہت عالی ہیں