۱۸ شهریور ۱۴۰۳ |۴ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 8, 2024
ممتاز العلماء محمد تقی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | فخرالمدرسین، ممتازالعلماء آیت¬اللہ سید محمدتقی نقوی سن 1234ہجری میں شہر لکھنؤ کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ آپ آیت¬اللہ سید حسین علیین مکان کے بیٹے اور غفرانمآب آیت¬اللہ سید دلدار علی طاب ثراہ کے پوتےتھے۔

آیت اللہ محمد تقی خاندان اجتہاد کے چشم و چراغ تھے۔ بہت ذہین، ذکی، فقیہ،اصولی اور بہت زیادہ اوصاف حمیدہ کے مالک تھے۔ جب موصوف کے والد کی رحلت ہوئی تو آپ ہی ان کے جانشین قرار پائے، اودھ کے بادشاہ امجدعلی نے "ممتازالعلماء" کےخطاب سے نوازا۔ آپ مدرسۂ شاہی لکھنؤمیں منتظم و معلّم کے عنوان سے منتخب کئے گئے اور "فخرالمدرسین" کا لقب حاصل ہوا۔

علامہ محمد تقی نے ابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ کے علماء سے حاصل کی پھر سید العلما ءسید حسین، سلطان¬العلماء سید محمد، مفتی سید احمد علی ، مفتی محمد عباس ،مولوی سید علی بھیکپوری و مولوی سید اجمل¬ علی¬ محمدآبادی وغیرہ سے کسب فیض کیا۔ سن 1262ہجری میں سلطان العلماء سید محمد، سید العلماء سید حسین اور صاحب جواہر علامہ محمد حسن نے اجازات اجتہاد مرحمت فرمائے۔آپ کے دفتر استفتائات سے لوگوں کے مسائل کے جوابات دیے جاتے تھے۔

ممتاز العلماء اپنے چچا "سلطان العلماء سیدمحمد" کی زندگی میں ہی مسجد شاہی میں نماز جمعہ کی امامت کرتے تھے۔ موصوف کی تعریف میں متعدد مؤرخین ثنا خواں نظر آتے ہیں۔ تذکرۃ العلماء میں ہے کہ آپ کمسنی کے باجود اپنے معاصرین کے درمیان افضل و اکمل تھے، فقہ و اصول کے اعتبار سے علمائے عراق کے مساوی تھے۔ علمی اعتبار سے اعلم، تقوے کے اعتبار سے اتقیٰ تھے، آپ بچپن کے عالم میں بھی لہوو لعب سے دور تھے۔

علامہ پابندیِ وقت کے معاملہ میں بہت شدید تھے۔ آپ نے مسجد اور امامباڑہ کی تعمیرکرائی اور عاشقان علوم کے لئے کتاب خانہ بھی بنایا جو وقف بہ اولاد ہےیہ کتاب خانہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کی عظمت اور جلالت کا یہ عالم تھا کہ آپ عدالت سے مستثنیٰ تھے یعنی اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ کو عدالت میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بلکہ دربار میں ہی آپ کے لئے خصوصی کرسی رہتی تھی۔آپ اہل علم اور طلاب کاخیال رکھتے تھےموصوف نے چند گھر تیار کئے اور وہ طلاب دینی کے لئے وقف کردیئے۔

ممتازالعلماء چوک میں تحسین علیخاں کی مسجدمیں نماز جماعت پڑھاتے تھے، مسجد ،مسجدکا حجرۂ اور دیگر جائداد جو مسجد سے متعلق تھی، سب کے متولّی آپ ہی تھے۔

ممتاز العلماء نے بے شمار شاگردوں کی تربیت فرمائی جن میں سے عمادالعلماء آیت¬اللہ سیدمحمدمصطفیٰ معروف بہ میر آغا، آیت¬اللہ سید محمد ابراہیم، آیت¬اللہ ابو الحسن ابّو، مولوی عابد حسین سہارنپوری، مولوی سید غلام محمد، مولوی ابراہیم حسین پانی پتی، مولوی سید عمار علی سونی پتی، علامہ غلام حسنین کنتوری، مولوی علی میاں کاؔمل، نواب عالی جاہ لکھنوی، نواب والا جاہ لکھنوی، مولوی منیب خان رامپوری، مولوی سید کرامت حسین کنتوری اور علی¬اکبر بن سلطان ¬العلماء وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔آپ کے بہت سے شاگرد، درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے اور ہندوستان کی سرزمین پر تبلیغ دین میں مصروف رہے۔

آپ کے اجتہاد کا عالم یہ تھا کہ سن 1873عیسوی کی بات ہے ایک شخص ایران سے ہندوستان آیا جس کا دعویٰ تھا کہ میں شمس العلماء ہوں؛ اس نے ہندوستان کے متعدد اضلاع کا سفر کیا اور اپنے زعم ناقص میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہندوستان میں کوئی عالم نہیں ہے لیکن جب لکھنؤ پہنچا اور ناظمیہ میں قیام کیا تو وہاں آیت اللہ محمد تقی(ممتاز العلماء) سے ملاقات ہوئی، اس نے فقہی مسئلہ چھیڑا تو علامہ نے اس کا منھ توڑ جواب دیا جس سے وہ انگشت بدنداں رہ گیا۔

موصوف نے بہت زیادہ کتابیں تالیف فرمائیں جن میں سے ارشاد المؤمنین، ارشاد المبتدئین، شرح مقدمات الحدائق، رسالہ امامت، نخبۃ الدعوات، حدیقۃ الواعظین، نزھۃ الواعظین، ینابیع الانوار، ہدایۃ المسترشدین، الارشاد ،المواریث، الفرائد البھیۃ، منہج-الطاعات، منتخب الآثاراور مرشد المؤمنین وغیرہ کے نام سرِ فہرست ہیں۔

موصوف کو خداوند عالم نے متعدد رحمتوں اور نعمتوں سے نوازا؛ پہلی زوجہ سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں عالم وجود کی زینت قرار پائے، آپ کے فرزندوں کو زمانہ نے سید العلماء آیت اللہ محمد ابراہیم، سید حسن اور سید علی کے ناموں سے پہچانا۔ دوسری زوجات سے دوسری نعمتوں کے اسماء بھی نظر آتے ہیں جیسے سید ابوذر، حاجی سید یونس اور سید جابر، ان کے علاوہ چند بیٹیوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو علماء کے خاندانوں میں بیاہی گئیں۔

آخرکار سن 1289ہجری میں وبائے ہیضہ پوری فضائے لکھنؤ پر مسلّط ہوگئی، موصوف کی ضعیفی اس وبا کی تاب نہ لاسکی جس کے نتیجہ میں بلبل ہزار داستان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہانِ خموشاں کا راہی بن گیا، بے شمار مجمع کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور امامبارگاہ غفرانمآب میں آغوش قبر کی زینت بن گیا۔علامہ نے اپنی رحلت کے بعد "جنت مآب" جیسا گرانقدر خطاب پایا، بڑے بڑے علماء و شعراء نے آپ کی تاریخ وفات نظم کی جو ان کی جانب سے موصوف کی عظیم شخصیت کے فراق میں بے تابی کا شاہکار ہے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص399، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .