۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
آیۃ اللہ سید محمد تقوی باسٹوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسیآیۃ اللہ سید محمد تقوی باسٹوی (جناب)سنہ 1349ھ میں باسٹہ ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم مولانا سید صغیر حسن تقوی تھے۔

غُرّۃُ العلماء، جناب، سرتاج العلماء اور ابوذر زمان آپ کے مشہور القاب ہیں۔ جناب کی زندگی میں فضول خرچی نامی چیز دکھائی نہیں دیتی بلکہ آپ انتہائی درجہ پرہیز فرماتے تھے۔

سیدمحمد صاحب عالم باعمل، متقی۔پرہیزگار اور ایک اچھے شاعر تھے۔ آپ کا خاندان علم و فضل میں معروف تھا۔ جناب کے والد بھی ایک عالم باعمل تھے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ سے ہی حاصل کی اور اپنے والدمحترم کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے نیز سات سال کی عمر میں قرآن مجید کی تعلیم مکمل کی۔(تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: نجوم الہدایۃ، ج3، ص182)

ابتدائی تعلیم کے بعدسنہ 1362ھ میں مدرسہ باب العلم نوگانواں کا رخ کیا وہاں رہ کر چار سال تک سلطان الواعظین علامہ آقا حیدراور آیۃ اللہ سبط نبی کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے۔ پھرمدرسہ ناظمیہ لکھنؤکے لئے عازم سفر ہوئے، وہاں رہ کر بزرگ اور جیّد علماء اعلام کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے مثلاًمولانا ایوب حسین، تاج العلماء سید محمد زکی، مفتی سیداحمدعلی شوشتری اور مولانا رسول احمدگوپالپوری وغیرہ۔

سنہ1951ء میں نجف اشرف(عراق) کے حوزہ کی جانب گامزن ہوئے اور زمانہ کے مشہور ومعروف فقہاء کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کیا جن میں سے آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم، آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الموسوی الخوئی، آیۃ اللہ العظمیٰ اسداللہ مدنی تبریزی، استاد مدرس افغانی، آیۃ اللہ حیدرعباس الہ آبادی اور استاد اشکوری وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

سید محمدصاحب نجف اشرف میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مدرسہ ایروانی میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے کیونکہ آپ کو فقہ و اصول میں بہت مہارت حاصل تھی، طلاب کی کثیر تعداد آپ کے درس میں شرکت کرتی تھی۔ اس دوران جناب ہر شب جمعہ نجف اشرف سے پیدل چل کر کربلا کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔

چونتیس سال کی عمر میں جناب کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کے چار اساتذہ نے اجتہاد کے اجازے مرحمت فرمائے: (1)آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم (2)آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی (3)آیۃ اللہ العظمیٰ سید باقر الصدر (4)آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الموسوی الخوئی۔آپ سولہا سال تک نجف اشرف میں بحرِ بیکراں سے منسلک رہے اورر سنہ 1967ء میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہوکرنجف سے ہندوستان واپس آئے۔

موصوف نے بمبئی، دہلی اور گجرات وغیرہ جیسے بڑے بڑے شہروں میں دینی خدمات انجام دیں۔ مدرسہ باب العلم نوگانواں سادات میں مدیریت و تدریس کے فرائض کو بنحو احسن انجام دیا، اس کے بعد مدرسہ منصبیہ میرٹھ کی مدیریت وتدریس کو سنبھالااور وہاں بھی اپنی لیاقت کا پرچم لہرادیا۔ اپنی زندگی کے آخر میں شہررامپور میں امام جمعہ و جماعت کے عنوان سے منتخب کئے گئے۔ آپ کا شمارعربی، فارسی اور اردو کے بہترین شعراء میں ہوتا تھا۔

ابوذرزمان نے بہت سے شاگردوں کی تربیت فرمائی جن میں سے : مولانا محمدعلی محسن تقوی، مولانا افضال حسین جالپوری، مولانا عابد رضا تقوی، مولاناسیدناصرعباس پھندیڑوی، مولانا شایان چھولسی، مولانا عبداللہ زیدی پھندیڑوی، مولانا حسن اختر نوگانوی، مولانا سید محمد اصغرپھندیڑوی، مولانا طالب حسین پھندیڑوی، مولانا شاہنواز حسین میمن،مولانا ڈاکٹر سید عباس رضا رضوی چھولسی، مولانا صادق خوئی، مولانا علقمی، مولانا غمخوار حسین وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

آیۃ اللہ سیدمحمدصاحب نے متعدد کتابیں تالیف کیں اور مختلف تحقیقیں انجام دیں، آپ نےنہج البلاغہ کا منظوم ترجمہ بھی کیاجس کا قلمی نسخہ آپ کے فرزندارجمند "مولانا سید علی رضا تقوی" کے پاس محفوظ ہے۔ مولائے کائناتؑ کے ایک جملہ کا منظوم ترجمہ نمونہ کے طور پر اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے:
دور فتنہ میں رہو اے نونہال! - اونٹ کے دوسالہ بچہ کی مثال
کوئی اس کی پشت پر بیٹھے تو چل سکتا نہیں - اس کے خالی تھن سے کچھ بھی دودھ مل سکتا نہیں

امروہہ کے لقمان رضا نامی شخص نے امامت کا دعویٰ کیا تو آیۃ اللہ سیدمحمدباسٹوی نے اس سے مناظرہ کیا اور اس کی کتاب "آفتابِ عالم" کے جواب میں "انقلابِ عالم" نامی سات جلدوں پر مشتمل کتاب تحریر فرمائی جو قلمی صورت میں ان کے بیٹوں کے پاس موجود ہے۔ اسی طرح مولانا انصار حسین زیدی پھندیڑوی(فاضل مشرقیات) کے ساتھ بھی ایک مناظرہ ہوا جو تین دن تک جاری رہا، یہ مناظرہ وحدانیت خدا کے عنوان سے تھا۔ آخرکارابوذر زمان نے انصارصاحب کو قانع کردیا، اس موضوع پر مولانا انصار صاحب نے "تدبّر فی القرآن" نامی کتاب بھی لکھی، جب اس کا علم سیدمحمد صاحب کو ہوا تو بازار میں آنے سے پہلے اپنی ساری جمع پونجی کے عوض ساری کتابوں کو خرید لیا۔

نحو و صرف، فصاحت وبلاغت، فقہ و اصول، حدیث و تفسیر اور کلام و عقائد میں جناب کی نظیر نہیں ملتی۔ دین و دیانت، اورتقویٰ و پرہیز گاری جیسے اوصاف آپ کی ذات سے ظاہرتھے۔ دولتِ دنیاکی طرف کبھی بھی نظر نہیں کی بلکہ ہر وقت دولتِ علم کی فکر میں محو رہتے تھے۔ جناب کی زندگی میں علم اورکتاب کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔

اگر اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو آپ کی شخصیت ایسی تھی کہ بلاتفریق مذہب وملت لوگ آپ کی خدمت میں آتے اور اپنے لئے دعا کی گزارش کرتے تھے تو جناب ان کواہلبیت اطہارعلیہم السلام سے منقول دعاؤں کی تعلیم فرماتے اور اس کے ہمراہ اسپند، کلونجی اور سونٹ کے استعمال کی تاکید فرمایاکرتے تھے۔

جناب باسٹوی صاحب، دینی و اجتماعی پروگراموں میں حاضری دے کر اس کی معنوی صورت کو برقرار رکھتے تھے۔ پھندیڑی سادات میں انہدام جنت البقیع کے سلسلہ سے سہ روزہ اصلاحی و احتجاجی مجالس کے اجتماع میں امام جماعت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اور پروگرام کی صدارت بھی آپ ہی کیاکرتے تھے۔ مؤمنین موصوف سے بہت محبت کرتے اور وقتاً فوقتاً آپ کی زیارت سے مشرف ہوتے رہتے تھے۔

موصوف کے سارے بیٹے اہلِ علم و کمال ہیں اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں تحریر، تقریر اور تدریس کے ذیعہ اشاعت علوم محمدؐ و آل محمدؐمیں مشغول ہیں جن کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح سے ہیں: مولاناسید حسین اصغر، مولانا سید عابد رضا، مولانا سید جعفر رضا، مولانا سید موسیٰ رضا، مولانا سید علی رضا، مولانا ڈاکٹرسید تقی رضا برقعی و مولاناڈاکٹر سید ہادی رضا(پروفیسر اے ایم یو علیگڑھ)۔

یہ علم و عمل کا آفتاب25/ربیع الاوّل سنہ 1428ھ میں سرزمین رامپور پرغروب ہوگیا اور چاہنے والوں کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ نوابین رامپورکے مقبرہ عالیہ میں سپردِ لحد کیا گیا۔(تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: انوار فلک، ج1، ص93)

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص179، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • مرسل علی IN 16:01 - 2022/03/11
    0 0
    جزاک اللّہ بہت اچھی معلومات ہے