۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
مولانا صغیر حسن باسٹوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید صغیر حسن تقوی باسٹوی سنہ 1287 ہجری میں سرزمین باسٹہ ضلع بجنور پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ارشاد حسین تقوی نہایت متدیّن، علم دوست انسان اور اہل مطالعہ تھے۔

موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن باسٹہ میں حاصل کی اس کےبعد علوم دین کےحصول کی غرض سے عازم امروہہ ہوئے اور مدرسہ نورالمدارس میں داخل ہونے کے بعد مولانا سید مرتضی حسین کی سرپرستی میں رہ کر مختلف علوم حاصل کیے مثلا ادبیات عرب، ادبیات زبان فارسی ، منطق ، فلسفہ ،فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ نورالمدارس میں آپ کے ہمدرس افراد میں آیت اللہ سیدیوسف حسین امروہوی اور آیت اللہ سید سبط نبی نوگانوی کے اسماء سرفہرست ہیں۔

مولانا صغیر حسن نے نور المدارس سے فراغت کے بعد لکھنؤ کا رخ کیا اور ہندوستان کی مشہور ومعروف درسگاہ مدرسہ ناظمیہ میں داخلہ لیا موصوف کو وہاں آیت اللہ نجم الحسن کی سرپرستی اور شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں اپنی تعلیم مکمل کرکے ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ لکھنو میں قیام کے دوران سرکار ناصر الملت سے بھی کسب فیض کیا اور آپ اپنے استاد کے پر جوش حامیوںمیں شمار کئے جاتے تھے -

مولانا مدرسہ ناظمیہ سے فارغ ہونے کے بعد تبلیغ دین کی خاطر عازم ککرولی ضلع مظفر نگر ہوئے اور ایک سال دینی فرائض انجام دئیے اس کے بعد شکار پور ضلع بلند شہر کے مؤمنین کی دعوت پر شکارپور کا رخ کیا اور ایک سال وہاں بھی دینی فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ پھر اس کے بعد تبلیغ دین کی خاطر بھاؤنگرگجرات تشریف لے گئے وہاں رہ کر مؤمنین کو احکام، اخلاق اور عقائد کی تعلیم سے مالا مال کیا۔ آپ کے فرزند حجۃ الاسلام سید محمد باسٹوی بیان فرماتے تھے کہ مولانا موصوف جب بھاؤنگر پہنچے تھے تو جماعت کی روش سے ناخوش ہو کر دو مہینے بعد ہی واپس آنا چاہتے تھے لیکن گجرات کےمشہور مبلغ دین مولانا غلام علی حاجی ناجی نے آپ کو روکا اور جماعت کو تاکید کی کہ موصوف کے رہتے ہوئے مسجد کی پیش نمازی کے سلسلہ میں جماعت مداخلت نہ کرے، اس طرح مولانا تقریباً چودہ سال بھاؤ نگر میں مصروف تبلیغ رہے اور گہرے علمی اور اخلاقی اثرات آپ نے وہاں چھوڑے ۔

مولانا صغیر حسن نے دینی فرائض کی انجام دہی کے لیے بھاؤ نگر کے بعد دہلی کا رخ کیا اور شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ دہلی میں امام جمعہ کی حیثیت سے پندرہ سال تک خدمات انجام دیتے رہے۔ موصوف نے ان تمام تر مصروفیات کے باوجود دامن تحقیق و تالیف کو نہیں چھوڑا اور مختلف آثار کتابوں کی شکل میں لوگوں تک پہنچائے جن میں کتاب نورالسموات اور عقد جناب قاسم کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ مولانا عقد جناب قاسم کے مخالف تھے اور مہندی کی رسم ادا کرنے والوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ اس نیت کے ساتھ مہندی نہ نکالو کہ جناب قاسم کی شادی ہوئی تھی بلکہ مہندی کی رسم ادا کرنی ہی ہے تو اس نیت کے ساتھ نکالو کہ کاش قاسم جوان ہوتے اور ان کی شادی ہوتی۔

مولانا نے اپنے بیٹوں آیت اللہ سید محمد باسٹوی اور حجت الاسلام مولانا سید علی تقوی کو بھی زیور علم و ادب سے آراستہ کیا تاکہ آپکی رحلت کے بعد ان کی نسل میں سلسلہ تبلیغ باقی رہے جیسا کہ شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ میں یہ سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے، موصوف کے بعدان کے بیٹے مولانا سید علی امام جمعہ رہے اور اب ان کے پوتےمولانا سید محسن تقوی امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

آخر کار یہ علم و ادب کا ماہتاب 18/ ذیقعدہ 1378ہجری میں دہلی کی سرزمین پر غروب ہوگیا ۔ چاہنے والوں کا مجمع شریعت کدہ پر امنڈ پڑا جنازہ کو وصیت کے مطابق دہلی سے آگرہ لے جایا گیا اورمؤمنین کی ہزار آہ و بکاہ کے ہمراہ شہید ثالث قاضی نوراللہ شوشتری کے مزار میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 247دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/lecgRuqj66g?si=9N

Rt_UtgA7kpIUbC

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .