حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید آقا حیدر زیدی گگسونوی سن 1326ہجری بمطابق 1908عیسوی گگسونہ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ موصوف کے والد جناب وہّاج الحسن زیدی نہایت دیندار اور متقی انسان تھے۔ مولاناآقا حیدر اپنے زمانہ کے مشہور علماء میں شمار کئے جاتے ہیں۔
موصوف تین سال کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے ، آپ کا تعلیمی سلسلہ 14 سال کی عمر میں مدرسہ منصبیہ سے شروع ہوا، مدرسہ منصبیہ میں آیت اللہ سید یوسف حسین امروہوی کی زیرپرستی تعلیم حاصل کی؛ جب آیت اللہ یوسف الملت نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ دینیات کی مدیریت سنبھالی تو مدرسہ باب العلم کے بانی "آیت اللہ سید سبط نبی" مولانا آقا حیدر کو اپنے ساتھ اپنے مدرسہ "باب العلم" میں لے گئے۔
موصوف نے اپنی تعلیم کو مدرسہ باب العلم میں رہ کر آگے بڑھایا اس کے بعد عازم لکھنؤ ہوئےاور جامعہ ناظمیہ میں داخل ہوکر جید علماء سے کسب فیض کیا، آپ نے طالب علمی کے زمانہ ہی سے تدریس کا آغاز کردیا تھا اور اپنے جونیئر طلاب کو درس دیتے تھے۔یوسف الملت، نجم الملت، علامہ سبط نبی اور علامہ ابوالحسن آپ کے مشہور اساتذہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔
آیت اللہ سید سبط نبی کی رحلت کے بعد مومنین اور طلاب مدرسہ باب العلم، مولانا آقا حیدر کی خدمت میں آئے، آیت اللہ سبط نبی کی وصیت اور مدرسہ کی مدیریت کا قضیہ سامنے آیا تو موصوف مدرسہ کی مدیریت کو قبول کرتے ہوئے عازم نوگاواں ہوئے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے۔ انہوں نے مدرسہ کو نئی زندگی عطا کی، مدرسہ اور طلاب کی ترقی کے لئے حتی الامکان کوشش کی؛ اس کوشش میں اپنی اہلیہ کے زیورات بھی گروی رکھ دیئے جو بعد میں واپس نہ لے سکے۔
مولانا آقا حیدر نےمدرسہ باب العلم نوگانواں سادات کی مدیریت کو سنبھالتے ہوئے وہاں کے امام جمعہ و جماعت کی ذمہ داری کو بھی بنحو احسن نبھایا۔ ہر قبیلہ اور قوم کے لوگ موصوف سے محبت کرتے تھے اور ان کی بابت خاص احترام کے قائل تھے۔
مولانا نے کچھ خیّر حضرات کی مدد سے مدرسہ باب العلم کے لئے سو ہیکٹر زمین خریدی۔ آپ مدرسہ کی فلاح وبہبود کے لئے پہلی مرتبہ سن1957عیسوی میں عازم افریقہ ہوئے تاکہ وہاں سے رقوم شرعیہ لاکر مدرسہ کو ترقی کے مراحل طے کرائیں۔ سن 1960ء میں ایک روز خوجہ اثناعشری جماعت کے سربراہ "جناب ابراہیم صاحب" موصوف کی غیرموجودگی میں مدرسہ باب العلم میں نوگانواں آگئے، جب انہوں نے مولانا کی سرگرمیوں کو ملاحظہ کیا تو بہت زیادہ خوش ہوئے ، انہوں نے مولانا کو اسی طرح کا مدرسہ افریقہ میں جاری کرنے کی دعوت دی اور تمام وسائل و اسباب کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھانے کا وعدہ کیا۔
مولانا موصوف ، علامہ سبط نبی صاحب کے خانوادہ میں ایک بزرگ مربی کی حیثیت رکھتے تھے؛ ہمیشہ فتنہ و فساد کا سر کچلتے رہتے تھے، کبھی بھی فتنہ کو پنپنے نہیں دیا؛ ہمیشہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دیتے تھے۔
مولانانے ہمیشہ طلاب علوم دینیہ سے اظہار محبت کیا، طلاب کی بابت اس قدر حسّاس تھے کہ اگر کوئی طالب علم بیمار ہوجاتا تھا تو خود مولانا کی طبیعت خراب ہونے لگتی تھی۔
ان کے ایک شاگرد "مولانا مقبول احمد نوگانوی ساکن سوڈان" ان کے بارے میں لکھتے ہیں: "مولانا آقا حیدر طلاب کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے، اگر کوئی طالب علم بیمار ہوجاتا تھا تو پوری پوری رات اس کی صحت یابی کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے، کبھی بھی ان کی نماز شب قضا نہیں ہوئی، ماہ رمضان المبارک کے آخری ہفتہ میں اعتکاف کرتے تھے، کبھی مستحب کو بھی قضا نہیں کرتے تھے؛ مولانا نے چھبیس سال تک مدرسہ باب العلم کی مدیریت و تدریس سنبھالی اور کافی مقدار میں شاگردوں کی تربیت انجام دی جن میں سے آیت اللہ سید محمد باسٹوی، مولانا حکیم مقبول حسین سنبھلی، خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری، مولانا محمد حیدر ، مولانا سید علی سجاد، مولانا سید علی باسٹوی، مولانا سید محمد شاکر امروہوی، مولانا سید شبیہ الحسن عابدی، مولانا علی عابد کراروی¬ اور الحاج ملا اصغر وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
مدرسہ باب العلم کی مدیریت سے فراغت کے بعدبھاؤنگر گجرات کے لئے تبلیغی سفرپر نکل پڑے"۔
آپ نے چار سال تک بھاؤنگر (گجرات) میں امامت جمعہ و جماعت کے فرائض انجام بنحواحسن دیئے اس کے بعد عازم افریقہ ہوئے، وہاں پہنچ کر دارالسلام تنزانیہ، ممباسہ اور کینیا میں مقیم رہ کر تبلیغی فرائض انجام دیئے۔
علامہ کے علم و عمل اور طہارت و تقویٰ کے پیش نظر تمام مومنین ان کا خصوصی احترام کرتے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ نے سن 1957ء میں خوجہ اثناعشری جماعت کی سرپرستی سے استعفیٰ دے دیا تھا، مومنین نے انہیں افریقہ سے نہیں نکلنے دیابلکہ ان کے لئے گھر اور ضروری سامان فراہم کئے۔
موصوف کو خداوند عالم نے دو نعمتوں اور چار رحمتوں سے نوازا، ان کے بیٹے "سید مظہر حیدر" اور "سید منظور حسنین" کے ناموں سے معروف ہوئے۔
آخر کار یہ علم و فضل کا آفتاب 91 سال کی عمر میں بتاریخ 9 ربیع الثانی سن 1417ھ بمطابق سن 1996ء ممباسہ میں غروب ہوگیا، مومنین کی کثیرتعدادمیں مولانا سید علی عابد رضوی کراروی الہ آبادی (مقیم نیروبی - کینیا) کی قیادت میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور نماز کے بعد کینیا (افریقہ) میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج8، ص 11دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2021
ویڈیو دیکھیں: