حوزہ نیوز ایجنسی | مرزا محمد اطہر صاحب قبلہ ،ہندوستان کے شہرۂآفاق دانشور اور خطیب اکبر تھے ،آیئے خطیب اکبر کی کہانی خود انہی کی زبانی ملاحظہ کرتے ہیں۔
میں لکھنؤ کے مشہور و معروف خاندان میں جولائی 1936 ء میں پیدا ہوا میرےوالد اپنے زمانے کےبڑے مشہور خطیب تھے۔ جنہوں نےمدرسۃالواعظین کے ابتدائی بیجوں میں دینی تعلیم حاصل کی اور اسکے بعد خطابت شروع کی اور تمام ہندوستان میں انکی خطابت مشہور ہوئی۔
خاندان و تعلیم: میری والدہ کاتعلق بھی میرےہی خاندان سے تھا اور میرےدادا اپنے زمانے کے مشہور ڈاکٹر بھی تھے اور ماہر امراض قلب بھی تھے ۔اپنے سماج میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے چونکہ میرے والد مولانا بھی تھے لہذا گھریلو دینی تعلیم کے بعد میرا داخلہ لکھنؤ کے مشہور مدرسہ مدرسہ ناظمیہ میں کرا دیا گیا جو میرے گھر سے قریب تھا کچھ دنوں وہاں تعلیم حاصل کرکے دوسرے مدرسہ مدرسہ سلطانیہ میں منتقل ہو گیا اور وہاں سے دینی تعلیم مکمل ہونے کے بعد صدر الافاضل کی سند حاصل کی ۔اس درمیان میں نے مدرسہ بورڈ کے امتحانات دئے جن میں میں نے درجہ اول سے کامیابی حاصل کی۔
میں نے 1958ء میں دینی تعلیم مکمل کی اور صدرالافاضل کی سند اسطرح حاصل کی کہ پورے مدرسےکےممتازین میں سرفہرست تھا ، اسی درمیان مجھے انگریزی پڑھنے کا شوق پیدا ہو لہذا میں نے 1954 ءمیں یو پی بورڈ سے ہائی ا سکول کا امتحان دیا۔ اور اسمیں کامیابی حاصل کی اسکے بعد 1956ء میں میں نےعلی گڑھ یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ کیا اور صدرالافاضل کرنے کے بعد میں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں سے بی اے، ایم اے اونر س کیا اور اسمیں بھی درجہ اول سے کامیابی حاصل کی۔ اور ایم اے میں میں ممتازین میں سر فہرست تھا 1962ءمیں ایم اے مکمل کیا اس طرح میری تعلیم مکمل ہوئی ۔
خطابت: کیونکہ میرے گھر میں ذاکری اور خطابت کا ماحول تھا لہٰذا مجھے بچپن سے ہی ذاکری اور خطابت کا شوق تھا ۔میں اپنے والد کے ساتھ بہت کم عمر سے ہی مجلس میں شرکت کرتا تھا اسکے نتیجے میں نے خود بھی مجلسیں پڑھنا شروع کر دیں ،میں لکھنؤ میں مجلسیں پڑھتا تھا پہلی مرتبہ لکھنؤ سے باہر کراچی مجلسیں پڑھنے نکلا 1958 ءمیں میں نے وہاں پر رضویہ کالج میں عشرہ پڑھا اسکے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں عشرے خطاب کئے 1959 میں وہاں مارشل لاء لگ گیاتھا لہذا باہر کے لوگوں کیلئے ویزےپر پابندی لگ گئی اسلئے مجھے اس سال وہاں کا ویزا نہں ملا وہ سال لکھنؤ میں گزارا اور 1960ءسے میں ممبئی آنے لگا۔میرے والد کے ایک دوست تھے مولانا عاشق عباس صاحب ممبئی کے خوجہ مسجد میں پیش امام تھے ،اور لکھنؤ کے رہنے والے تھے لکھنؤ جاتے تھے ایک دن والد صاحب سے ملنے کیلئے تشریف لائے اور مجھ سے پوچھا محرم میں کہاں جاتے ہو تو میں نے کہا کہ میں پاکستان جاتا تھا لیکن اس سال ویزا نہیں ملا اور نہیں جا سکا انہوں نے اس بات کو سنا اور جب وہ ممبئی واپس آئے تو وہاں کی چئر پرسن مسز پروین ایم کے نمازی انکے شوہر کاظم نمازی سے مولانا عاشق عباس صاحب کی ملاقات ہوئی محرم قریب تھا انہوں نے ان سے کہا کہ محرم میں کسی ذاکر کا انتظام کر دیجئے یہاں محرم میں ذاکر کی ضرورت ہےچنانچہ انہوں نے میرا نام پیش کیا کاظم صاحب نے ان کی درخواست قبول کی ، انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں نے تمہاری طرف سے وعدہ کر لیا ہے ،تم ممبئی مغل مسجد میں عشرہ پڑھنے کیلئے چلےآؤلہٰذا 1960ء بمطابق 1380ھ میں پہلاعشرہ خطاب کیا اور آخری عمر تک وہیں پر ہی عشرہ خطاب کرتا رہا۔
1960ء سے 1964ء تک کاظم نمازی صاحب حیات رہے وہ بہت پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے میں محرم رمضان المبارک یا جناب فاطمہ زہرا کی شہادت پر مجلسیں پڑھنے جاتا تھا تو مجھے وہ کچھ موضوع دے دیا کرتے تھے میں اس موضوع پر تیاری کرنے کے بعد مجلسیں پڑھتا تھا 1964 ء میں کاظم نمازی صاحب کا انتقال ہو گیا وہ موضوع دینے والا سلسلہ بند ہو گیا لیکن میں عشرہ کا موضوع خود ہی انتخاب کرکے عشرے خطاب کرتا رہا اور وہ لوگ مسلسل مجھے دعوت دیتے رہے ،1964ءیا 1965ء سے خوجہ شیعہ اثنا عشری مسجد میں عشرہ پرھنا شروع کیا اس طریقے سے ممبئی کے مختلف علاقوں میں بھی مجلسیں پڑھتا رہا اسی کے ساتھ ساتھ میری مجلسوں میں مجمع بڑھتا گیا اور میری شہرت بھی بڑھتی گئی چنانچہ ممبئی سے میرے تعلقات پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔
جب میں نے 1962ء میں ایم اےکیا تو میں شیعہ ڈگری کالج شعبہ اردو ،وفارسی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہو گیا تین سال کے بعد وہاں کا ہیڈ ہو گیا اور دس برس کے بعد وہاں کا انچارج پرنسپل ہو گیا اسطرح میں نےاپنی پوری زندگی میں ایک ہی جگہ یعنی شیعہ ڈگری کالج میں ہی ملازمت کی۔
1963ء میں شادی کی میری شادی میرےسگے چچا کی بیٹی کے ساتھ ہوئی خاندان میں ہی شادی ہوئی اور ماشاء اللہ میرے پانچ بچے ہوئے ،کیونکہ میرے گھر میں ذاکری کا ماحول تھا میرے بھائی مولانا مرزا اشفاق حسین بھی مجلسیں پڑھتے ہیں، اس کا اثر میرے بچوں پر بھی پڑا لہٰذا میرے دو بیٹے بھی مجلسیں پڑھنے لگے ایک میرے سب سے بڑے بیٹے مولانا اعجاز عباس اور تیسرے نمبر کے بیٹے مولانا یعسوب عباس میرے پانچوں بچوں کے پاس ماسٹر ڈگری ہے اور میرے دو بیٹے اعجاز عباس اور محمد طیب یہ دونوں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں بڑے بیٹے نے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ہے اور چھوٹے بیٹے محمد طیب نے سماجیات میں پی ایچ ڈی کی ،جب میں ملازمت سے رٹائر ہو گیا تو وہاں کے مینجمنٹ کے ممبران میں شامل ہو گیا میں نے تقریباً ہندوستان کے تمام صوبوں میں مجلسیں پڑھی ہیں جیسے بنگال ، بہار ، یوپی، گجرات ،مدھیہ پردیش ،جھارکھنڈ،کرناٹک ، آندھرا پردیش ،تمل ناڈو، جموں کشمیر ، ہریانہ ، پنجاب، غیر ملکی سفر جو میں نے مجلسوں کے سلسے سے کئے پاکستان، مسقط ، دبئی،اور دبئی کے تمام شہروں میں شارجہ ابو ظہبی،قطر ،کویت ، ایران اور عراق زیارت کے سلسلے سے سفر کیا اور وہاں مجلسیں پڑھنے کا موقع حاصل ہوا ۔جب میں نے حج کی غرض سے سعودی عرب کا سفر کیا تو وہاں بھی منیٰ ،عرفات ،مکہ، مدینہ میں مجلسیں خطاب کیں، اسی طرح مجلسیں پڑھنے کے سلسلے سے ےیوروپ کا بھی سفر کیا ۔جیسے انگلینڈ ،فرانس،جرمنی ، ہالینڈ، بلیلجیم،ڈنمارک،سوئزرلینڈ ،اسپین ، اٹلی امریکہ ، اوراسکے مختلف شہروں شکاگو ،ویسٹ ٹاؤن ، لاس انجلس، ایڈمنٹن میں نیویارک ،نیو جرسی میں مجلسیں پڑھیں۔اسی طرح کنیڈا ٹورانٹو ۔افریقہ میں ممباسہ،نیروبی ،موشی اروشا ،مکوبا،دارالسلام ۔آسٹریلیا میں مجلسیں پڑھیں سڈنی میں عشرہ پڑھا میں نے مجلسوں کے سلسلے سےپوری دنیا کا سفر کیا عشرہ اولیٰ کیلئے پوری دنیا سے دعوت نامے آئے لیکن میں ممبئی چھوڑ کر کہیں نہیں گیا۔
آخر کار یہ بلبل ہزار داستان کچھ عرصے مرض الموت میں مبتلا رہنے کے بعد سن 1437ھ میں گردے فیل ہونے کےسبب دہلی کےمیکس ہاسپٹل میں خاموش ہوگیا ،جنازے کو شاہ گنج لکھنؤ لایا گیا اورغسل کے بعد امیرالعلماء مولانا حمید الحسن کی قیادت میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور لکھنؤ کی امداد حسین نامی کربلا میں سپرد لحد کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص 205دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2021
ویڈیو دیکھیں: