۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا وصی محمد فیض آبادی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | ضیاءالعلماء مولانا سید وصی محمد سنہ 1910 ء بمطابق 1328ھ سرزمین فیض آباد پر پیدا ہوۓ، آپ کے والد ماجد مولوی سید علی تھے۔مولانا وصی محمد نے ابتدائی تعلیم وثیقہ عربی کالج فیض آباد میں حاصل کی پھر اپنے بڑے بھائی "مولوی سید نجم الحسن" کے پاس بدایوں تشریف لے گۓ۔آپ کے بھائی نے آپ کو" سید المدارس امروہہ" میں داخلہ دلا دیا اس وقت وہاں "مولانا سید محمد امروہوی" مدرس اعلیٰ تھے مولانا امروہہ سے واپس آکر دوبارہ" وثیقہ عربی کالج " میں آ گۓ وہاں رہ کر الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات پاس کرنے کے بعد عازم لکھنؤ ہوۓ اور سلطان المدارس میں داخلہ لے لیا ، صدر الافاضل کی سند دریافت کرنے کے بعدعراق تشریف لے گۓ اور وہاں رہ کر آیت اللہ ضیاء الدین عراقی، آیت اللہ عبد الحسین رشتی، آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی اور آیت اللہ عبد اللہ شیرازی سے کسب فیض کیا اور اجازات لیکر وطن واپس آگۓ۔

ایک عرصہ تک بدایوں میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مقیم رہے ، اسکے بعد غازی پور میں چند سال امام جماعت کے فرائض انجام دۓ ،مولانا ظفر الحسن نے انکو جوادیہ عربی کالج بنارس میں بحیثیت استاد بلا لیا ، اور کچھ ماہ کیلۓ مولانا ظفر الحسن ناصریہ عربی کالج جونپور کے مدیر ہو گۓ ، جب ظفر الملت بنارس واپس آگۓ تو مولانا وصی محمد ناصریہ جونپورکے پرنسپل مقرر ہو گۓ ، مولانا سعادت حسین خان سالہا سال تک وثیقہ اسکول فیض آباد کے پرنسپل رہے جب وہ فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہو گۓ تو مولانا وصی محمد سنہ 1955ء میں انکی جگہ پر وثیقہ عربی کالج کے پرنسپل مقرر ہوۓ، ضیاء العلماء وطن میں رہ کر درس و تدریس اور مختلف قسم کی دینی خدمات اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں مصروف ہو گۓ ، اپنے قیام کے دوران ایک قدیم اور نہایت ہی مقبول " کمرخ کی درگاہ" از سر نو تعمیر کرائی اور حضرت عباسؑ کا نہایت ہی خوبصورت روضہ بنوایا ، سنہ 1977 ء میں وثیقہ عربی کالج سے ریٹائر ہوۓ تو مولانا ابن حسن نونہروی نے آپ کو مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے بلوا لیا اور علامہ نونہروی کے انتقال کے بعد سنہ 1980 ء میں اس مدرسہ کے پرنسپل مقرر کر دۓ گۓ اور اس عہدے پر تا حیات رہے مولانا نے اپنی پوری عمر مدارس دینیہ کی خدمت میں گذاری اور ہزاروں شاگردوں کی تربیت فرمائی۔

ان تما م مصروفیات کے با وجود موصوف نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا آپ کے آثار میں سے :

الرضیع الظّامی اور ضیاء الغدیر قابل ذکر ہیں ان کتابوں کے بارے میں اتنا لکھنا کافی ہوگا کہ علماء ان سے استفادہ کرتے ہیں، آپ کے بے شمار غیر مطبوعہ مسودات بھی ہیں جو طبع نہ ہو سکے، اسکے علاوہ مولاۓ کائنات کا خطبہ غیر منقوطہ کا بے نقطہ ترجمہ کرکے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا، رسالہ الجواد میں علامہ فلکی ، عاصی فیض آبادی ، ضیاء الملت، ضیاء العلماء اور ضیاء حسینی کے ناموں سے آپ کے مقالے چھپتے رہے ہیں، تصنیف و تالیف کے علاوہ شعرو شاعری کا اعلیٰ ذوق تھا لیکن یہ ذوق صرف مداحی اہلبیت میں صرف ہوتا تھا۔

علم کے ساتھ حلم ، سخاوت، ایثار ، خطابت میں بے مثل، بیانات بے نہایت علمی و دقیق، سادگی ، تقویٰ ، صلہ رحم ، حکمت ، تدبر، شاعری، حاضر جوابی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ صفات آپ ہی کیلۓ وضع کۓ گۓ ہیں۔

انکسار اور تواضع کی تصویر اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہیکہ ایک جگہ سالانہ مجلس تھی بانیان مجلس میں سے ایک بھائی نے آپ سے مجلس کا وعدہ لے لیا اور دوسرے بھائی نے دوسرے خطیب سے وعدہ لے لیا، موصوف مجلس پڑھ رہے تھے کہ دوسرے صاحب بھی تشریف لے آے اور بھرے مجمع میں کھڑے ہوکر کہا کہ اس مجلس کا وعدہ مجھ سے ہو ا ہے ، مولانا وصی محمد نے جیسے ہی سنا فوراً منبر سے اتر آے اور خود ہی فرمایا بسم اللہ وہ صاحب منبر پر تشریف لے گۓ اور پوری مجلس پڑھی ، موصوف پوری مجلس زیر منبر بیٹھے رہے اور کسی سے کوئی شکایت نہیں کی حالانکہ دوسرا ذاکر صرف ذاکر تھا۔

ایثار وقربانی کا یہ عالم تھا کہ طلاب کے قیام و طعام کے اخراجات اپنی جیب خاص سے ادا فرماتے تھے، چونکہ وثیقہ عربی کالج کا عمومی چندہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وقف بہو بیگم سے بتوسط حکومت کچھ رقم ملتی تھی جو مصارف دار الاقامہ کیلۓ نا کافی تھی، چنانچہ ایک مرتبہ دوکاندار کا قرض کافی ہو گیا تھا دوکاندار نے سختی سے تقاضہ کیا اور صاف کہہ دیا کہ پہلے مکمل قرض ادا کر دیجۓ تب نیا قرض دیا جائیگا موصوف نے اس مشکل مرحلہ میں گھر کے زیورات فروخت کرکے قرض ادا کیا۔

نادار طلاب اور مومنین سے ہمددردی کایہ عالم تھا طلاب کی خبر گیری اس طرح فرماتے کہ دوسروں کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی، بہت سے ایسے طلاب کو اس وعدہ کے ساتھ لاتے کہ انکے تمام اخراجات کی ذمہ داری میری ہے دوسروں کی ہمدردی انکے خمیر میں تھی نہ معلوم کتنے ایسے افراد تھے کہ جنکی امداد فرماتے رہتے تھے جبکہ خود کا یہ عالم تھا کہ معمولی غذا کھاتے اور سادہ کپڑے پہنتے تھے۔

مولانا سیدمحمد جابر جوراسی رسالہ الجواد ضیاء العلماء نمبر میں لکھتے ہیں کہ موصوف کی ہمدردی و سخاوت کے بعض واقعات کا میں عینی شاہد ہوں ، اکثر دوسری جگہ کے نادارطلاب کے خطوط آتے، انہوں نے میرے ذریعہ کئی کئی سو کے منی آرڈر کرواۓ، ایک مومن کا مکان رہن رکھا ہوا تھا جو بہت پریشان تھے ، مجھے شب میں انہوں نے ساڑھے چار ہزار روپے دۓ اور فرمایا کہ جاؤ خاموشی سے یہ رقم انہیں دے آؤ اور کہہ دو کہ مکان چھڑا لیں ، ایک مرتبہ شب میں انکے ہمراہ جا رہا تھا فرمانے لگے خدا کا شکر ہے کہ اس برس سال بھر کی ذاتی دیگر آمدنیوں کے علاوہ جو بسلسلہ ذاکری ہوتی تھی مجھے ایک ایک لاکھ کی رقم دو مرتبہ یہ کہہ کر دی گئی کہ یہ آپ کی رقم ہے جس طرح چاہیں خرچ کریں ،لیکن معبود گواہ ہیکہ میں نے کسی غریب لڑکی کی شادی کرا دی، کسی کا مکان بنوا دیا اور دیگر امور خیر پر صرف کیا مگر اپنی ذات پر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا ۔

6 جولائی سنہ 1984ء میں جب ایران سے اپنے وطن واپس پلٹ رہے تھے تو آپ کی طبیعت بہت خراب تھی ، ہوائی جہاز میں طبیعت اور زیادہ بگڑ گئی مولانا روشن علی (سابق پرنسپل منصبیہ عربی کالج میرٹھ) آپ کے ہمراہ تھے انہوں نے ہوائی جہاز کے عملے کی مدد سے مولانا کو ہوائی جہاز سے اتارا اسلۓ کہ انکے پیروں میں چلنے کی قوت نہیں تھی اور داہنی جانب فالج کا اثر ہو گیا تھا مولانا روشن علی اپنے کسی عزیز یا دوست کے گھر لے گۓ اور دوسرے دن مولانا سید شمیم عالم امام جماعت امامیہ مسجد ممبئی کو خبر دی انہوں نے مولانا کو حبیب اسپتال میں داخل کرا دیا ، تقریباً 2 سال تک مولانا ممبئی ، فیض آباد اور بنارس کے ڈاکٹروں اور میڈیکل کالجوں میں زیر علاج رہے ، مئی سنہ 1985 میں مولانا گر پڑے اور انکی بصارت بھی جاتی رہی۔

آخرکار یہ علم وعمل کا آفتاب 14 جون سنہ986 اء بروز شنبہ سرزمین بنارس پر غروب ہو گیا ،میت بنارس سے فیض آباد لائی گئی مولانا شمیم الحسن کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ " مولوی باغ نامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا-

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص 307دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/QjlPpzEohKM?si=mcUCG-DYJ85RCUIt

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .