۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
تاریخ کتاب وثیقہ عربی کالج

حوزہ/ مولانا سید محمد جابر جواراسی واعظ: مولانا ابن حسن املوی کی اب تک مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ، جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، جوادیہ عربی کالج وارانسی، باب العلم مبارک پور اعظم گڑھ، کی تاریخ کو مرتب فرما چکے ہیں ۔ تمام کتابیں انٹر نیشنل نور مائیکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس ، نئی دہلی ہند نے شائع کی ہیں ، اسی سلسلے کی سنہری کڑی یہ وثیقہ عربی کالج فیض آباد کی تاریخ ہے‘‘۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی، صدرالافاضل،واعظ

تاثرات: از قلم حقیقت رقم :خطیب قادر الحاج مولا نا سید محمد جابر جواراسی واعظ، مدیر ادارہ اصلاح لکھنؤ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لاھلہ والصلوٰۃ علیٰ اھلھا

برادرِ محترم مولانا ابن حسن املوی صدر الافاضل واعظ، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں مجھ سے ایک سال سینئر تھے اور مجھ سے پہلے وہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے ترجمان ماہنامہ الواعظ کے ایڈیٹر بھی رہے تھے۔ قلم و قرطاس سے رابطے کی وجہ سے انہیں ایک مشّاق و ماہر اہلِ قلم کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے مدارسِ دینیہ کے ذمہ داروں نے اپنے اپنے مدرسہ کی تاریخ مرتب کرنےکے سلسلےمیں ان سے رجوع کیا ۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے ذمہ داریوں کو قبول کیا اور اب تک مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ، جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، جوادیہ عربی کالج وارانسی، باب العلم مبارک پور اعظم گڑھ کی تاریخ کو مرتب فرما چکے ہیں ۔ تمام کتابیں انٹر نیشنل نور مائیکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس ، نئی دہلی ہند نے شائع کی ہیں۔ اُسی سلسلے کی سنہری کڑی یہ وثیقہ عربی کالج فیض آباد کی تاریخ ہے اس کالج کو اودھ کے سابق حکمراں شجاع الدولہ کی اہلیہ بہوبیگم مرحومہ نے قائم کیا تھا جو بحمد اللہ آج بھی درس و تدریس کا فریضہ بخوبی انجام دے رہا ہے۔ ۱۹۷۰ء؁ سے لے کر ۱۹۷۶ء؁ تک اس مذکورہ عربی کالج کا میں بھی طالب علم رہا ہوں اور اس چھ سالہ مدت میں اسی مدرسہ کے قیام کے دوران میں نے الہ آباد عربی فارسی بورڈ سے منشی ، کامل، مولوی، عالم، فاضل فقہ ، فاضل ادب کی سندیں حاصل کیں اور اس مدرسہ کے سابق پرنسپل ضیاء الملت استاذنا العلام مولانا سید وصی محمد اعلی اللہ مقامہ کے مقدس ہاتھوں سے اس مدرسہ کی آخری ڈگری بدر الافاضل مجھے تفویض ہوئی۔ میں نے تعلیمی سفر مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ ، وثیقہ عربی کالج فیض آباد، اور مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں تعلیم حاصل کرکے مکمل کیا۔ لیکن وثیقہ عربی کالج فیض آباد کا جو دور گزرا ہے اُسےمیں اپنی زندگی کا بہترین اور قابل فخر دور سمجھتا ہوں۔ افراد بدل گئے لیکن طلباء اور اساتذہ سے جو محبتیں مجھے وہاں ملیں وہ بحمد اللہ ۵۰ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہیں۔ وہاں میرے اساتذہ میں پرنسپل ضیاء الملت مولانا سید وصی محمد صاحب قبلہؒ، فقہ کے استاد اور مسجد حسن رضا خاں چوک کے امام جماعت مولانا کلب حسین صاحب قبلہ جو فخر الاتقیا کے بہنوئی بھی تھے اور انہوں نے ہی مجھے’’ خطیب قادر‘‘ کے لقب سے نوازا تھا۔ مولانا ابرار حسین صاحب قبلہؒ جونپوری، ان کے فرزند استاذ و ادیب و شاعر مولانا محمد احمد فہیم ؒ جونپوری جو مشقِ سخن میں بھی فیض آباد کے قیام کےد وران میرے کلام پر اصلاح فرما دیا کرتے تھے اگرچہ عموماً میں اپنے کلام پر اصلاح والدِ ماجد مولانا سید محمد باقر جوراسیؒ سے لیا کرتا تھا۔ اساتذہ میں فارسی کے استاد مولانا محمد حسن صاحب بھی تھے انتہائی بذلہ سنج اور باغ و بہار شخصیت ۔ ضیاء الملت ؒ کے انتقال کے بعد کالج کے پرنسپل حجۃ الاسلام مولانا سید تقی الحیدری صاحب قبلہ بھی میرے استاد رہے۔ مدرسہ کے مستقل اساتذہ کے علاوہ دیگر حضرات کے بھی درسی خدمات فخر الاتقیاء نے حاصل کئے تھے ان میں حجۃ الاسلام مولانا علی ارشاد صاحب قبلہ مبارک پور یؒ، اور حجۃ الاسلام استاذنا العلام مولانا مجتبیٰ علی خاں ادیب الہندی ؒ بھی تھے یہ دونوں میرے استاد رہے تھے۔ علامہ ادیب الہندی صاحب قبلہ بعد میں مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے وائس پرنسپل بھی رہے ۔علاحدہ سے جو اساتذہ درس دیتے تھے ان میں انگلش کے استاد انصار حسین صاحبؒ بھی تھے وہ میرے استاد تو نہیں رہے وہ فخر الاتقیاء کی اہلیہ کے بھانجے تھے اور بہت ماہر استاد تھے۔ابتدائی درجات کے اساتذہ میں مولوی محمد عباسؒ، اور مولوی محمدعابدؒ کو فراموش نہیں کیاجاسکتا وہ میرے اساتذہ تو نہیں تھے لیکن محمد عباس ؒ صاحب مرحوم سے نانیہالی رشتہ داری کی وجہ سے وہ مجھ پر بہت شفیق رہتے تھے انہیں کے برادر نسبتی تھے مقبرۂ بہو بیگم کےمنتظم محمد عابد صاحب مرحوم۔ مدرسہ کے ابتدائی درجات کے اساتذہ میں مسلک اہل سنت سے تعلق رکھنے والے دو استاد عنایت اللہ خاں صاحب اورصوفی قدرت علی شاہ تھے۔ یہ حضرات بھی میرے استاد نہیں تھے لیکن چونکہ اجودھیا اور فیض آباد کے درمیان واقع بڑی بُوا کے مشہورمقبرے میں جو یتیم خانہ قائم ہے اس کے منتظم تھے اور بڑی بُوا جو ہمشیرہ تھیں نصیر الدین چراغ دہلی اودھی کی ۔ان کی شادی ہوئی تھی ایران سے تشریف لائے سید علی قزوینی سےجن کے فرزند سید زین الدین باقری ہم باقری سادات کے مورث اعلیٰ تھے۔ لہٰذا مرحوم مجھے پیر زادہ کہہ کر بہت احترام کرتے تھے۔

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج،فیض آباد‘‘

زمانۂ درس کے شب و روز بھی کیابہترین شب و روز تھے ۔یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ العلم فی الجوع ( علم بھوک میں ہے ) ۔ دورانِ طالب علمی ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیاجس کاتذکرہ دوسرے طلباء کے لئے سببِ نصیحت ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ میں جب وطن جوراس بارہ بنکی سے کسی تعطیل کے بعد فیض آباد آتا تو والد ماجد ؒ مجھ سے پوچھتے کہ کیا خرچ چاہئے تو میں بہت ہی کفایت سے کوئی رقم بتاتا۔ ایک سال جب ماہ صیام کی تعطیل کے بعد مدرسہ میں آنا ہوا تو استاذ نا العلام ضیاء الملتؒ نے میرے لئے کچھ درسی کتابوں کا کسی باہر کے ادارے سے آرڈر دے رکھا تھا۔ وی پی کے ذریعہ کتابیں آگئیں مجھ سے انہوں نے پوچھا اتنے کی وی پی ہے کیا تمہارے پاس اتنے پیسے ہیں کہ اس کو چھڑا لو۔ میں نے اس بات میں سر ہلا دیا وی پی چھڑا تو لی لیکن اس کے بعد اب میرے پاس بہت کم پیسے بچے قرض لینا کل بھی مجھے بہت ناگوار گزرتا تھا اور آج بھی۔ بہت ہی مشکل اوقات میں کبھی میں نے مقروض ہونےکی ندامت برداشت کی ہے۔ لہٰذا اب میرے سامنے مسئلہ ہوگیا کھانا تو مدرسہ سے تھا معمول کے ناشتے کے پیسے رہ نہیں گئے تھے میرے کمرے میں اکبر پور ضلع کا ایک طالب علم تھا اس کو میں نے معمولی رقم دی اور کہا کہ اس کا گُڑ لا دو۔ والد صاحب کو میں اطلاع کرچکا تھا اندازہ تھا کہ اتنے دنوں بعد منی آرڈر سے رقم آ سکے گی ۔ لہٰذا اندازے سے جتنے دنوں کا تعین تھا گُڑ کے اتنے حصے کئے رات کے کھانے سے ایک روٹی بچالیتا تھا وہی میرا ناشتہ تھا ۔ اور اسی روش پر اپنے اپنے کمرےکے دوسرے رہنے والے طالب علم کی بھی حوصلہ افزائی کرتا تھا ۔ اس طرح وقت گزر گیا پیسہ آگیا اور میں مقروض ہونے کی لعنت سے بچ گیا۔ استاد بھی میں نے ایسا پایا تھا کہ جو انتہائی قناعت پسند تھے یعنی ضیاء الملتؒ جب وہ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ کے پرنسپل ہوئے تو ایک دن میں اپنے کمرے سے دیکھ رہا تھا کہ وہ سویرے سے چبوترے پر بیٹھےہوئے کچھ لکھے چلے جارہے ہیں میں نے دیکھا کہ انہوں نے چائے تک نہیں پی میںان کی خدمت میں حاضر ہوا احوال دریافت کیا انہوں نے فرمایا جب پوچھتے ہو تو بتائے دے رہا ہوں کہ اِس وقت میرے پاس چائے منگانےکے پیسے نہیں ہیں۔ ہم شاگرد یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے لہٰذا چائے تو آگئی لیکن ایک پیغام ہمارے ذہنوں پر نقش ہوکر رہ گیا کہ چاہے وہ استاد ہویا طالب علم اس کے لئے مادّ ی غذا سے کہیں زیادہ روحانی غذا کی اہمیت ہوتی ہے۔ فیض آباد میں قیام کےد وران میری ذاکری اور شاعری نے بھی مناسب بال و پر نکالے اور شہر میں ایک شناخت بن گئی۔ مقاصدوں ، شب بیداریوں، اور مجالس عزا میں مَیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہتا تھا اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے برکات سے فیضیاب ہوتا رہتا تھا۔ خُدّام المجالس فیض آباد کی سالانہ مجلسوں کا ایک معیار تھا جب اس میں میرا نام آیا تو جب تک یہ انجمن جوان رہی ذاکری کا شرف مجھے حاصل ہوتا رہا۔ اور اس کا سہرہ میرے خرد لیکن مجھ سے زیادہ عالم با عمل استاد زادے مولانا محمد محسن جونپوری اور مولانا محمد حجت قمی کے سر جاتا ہے۔موجودہ استاتذہ میں ان دونوں کے علاوہ مشہور عالم و خطیب مولانا وصی حسن خاں جو عالمی شہرت یافتہ ہیں لیکن مجھ سے ان کا برتاؤ انتہائی مخلصانہ رہتا ہے ۔ایک معمولی شکوہ کےجواب میں کچھ عرصہ قبل ہی انہوں نے کہا تھا کہ ہم سب آپ کے بچے ہیںاور واقعی دیگر اساتذہ طلباء وغیرہ اُسی طرح ملتے ہیں جیسے کوئی قریب ترین عزیز ملتا ہے۔ معبود انہیں دن دونی رات چوگنی ترقی سے سرفراز فرماتا رہے۔

شہر کے دیگر علماء میں جن میںبعض وثیقہ کے اساتذہ بھی تھے مثلاً مولانا ابن حسنؒ صاحب قبلہ پیش نماز ان کے فرزند حجۃ الاسلام مولانا احمد علی عابدی ، مولانا سید علی حمادؒ فاضل فیض آبادی،مولانا ذو القدر عابدی فیض آبادی، مولانا ندیم رضا زیدی، امام جمعہ موقت مولانا جعفر رضا ، مولوی داؤد رضا، مولوی محفوظ الحسن وغیرہ وغیرہ ہمیشہ مظاہرۂ محبت کرتے رہے ہیں۔ یقیناً کچھ نام رہ بھی گئے ہوں گے لیکن جن جن شخصیتوں کی محبت مجھے حاصل ہوتی رہی ان کے نام یاد ہوں یا نہ ہوں ان کے حق میں دعائے خیر کرنا میرا فریضہ ہے۔ موجودہ دور میں وثیقہ عربی کالج کے بزرگ ترین استاد مولانا نذیر حسن عابدی ایک ایسی شخصیت ہیں کہ میرے زمانۂ طالب علمی سے لے کر اب تک جن کی محبت و شفقت میرےشامل حال رہی ہے۔ معبود انہیں طولِ حیات سے مالا مال فرمائے اور میری اس مادرِ علمی کو اللہ حیاتِ دوام بخشے ۔ اس علمی درسگاہ سے میرا تعلق ہنوز مضبوط اس لئے بھی ہے کہ میرے فرزند نور چشم مولوی سید محمد عازم باقری قمی کئی سال سے یہاں غیر مستقل استاد ہیں اور جب انشاء اللہ مستقل استاد ہوجائیں گے تو رابطہ مزید مستحکم ہوگا۔ برادر محترم مولانا ابن حسن املوی واعظ قابل تبریک ہیں کہ انہوں نے کتابی شکل میں یہاں کی تاریخ مرتب کرکے آئندہ آنے والوں کے لئے ایک تاریخی لائق استفادہ سرمایہ فراہم کردیا۔

این سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

فقط،والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

سید محمد جابر جوراسی

(ماخوذ از کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج ،فیض آباد‘‘صفحہ۱۶)

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج،فیض آباد‘‘

نام کتاب : تاریخ وثیقہ عربی کالج ،فیض آباد

مؤلف : عمدۃ الواعظین عالیجناب الحاج والزائر مولا نا شیخ ابن حسن صاحب قبلہ املوی کربلائی (صدرالافاضل،واعظ)

زیر نظر : حجۃ الاسلام مولانا سید عالم مہدی صاحب قبلہ زید پوری ،انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر ۔نئی دہلی

ً ً : حجۃ الاسلام مولانا محمد محسن صاحب قبلہ پرنسپل وثیقہ عربی کالج فیض آباد

پروف ریڈنگ : حجۃ الاسلام عالی جناب مولا شیخ مسرور فیضی املوی ’’قمی‘‘

کمپیوٹر کمپوزنگ : مولانا محمد وصی اختر معروفی لکھنؤ

ناشر : انٹر نیشنل نور مائیکرو فلم سینٹر ۔ایران کلچر ہاؤس۔نئی دہلی

مطبوعہ : مطبع نور انٹر نیشنل مائیکرو فلم سینٹر۔ایران کلچر ہاؤس۔نئی دہلی

ایڈیشن : پہلا

تعداد کتاب : 500(پانچ سو کاپی)

تعداد صفحات : 735

تقطیع (سائز) : 20X30/8

سنہ اشاعت : 2023ء

{ خواہشمند حضرات درج ذیل پتہ پر رابطہ کرسکتے ہیں:۔ }

انٹر نیشنل نو ر مائکرو فلم سینٹر ۔ ایران کلچر ہاؤس ،۱۸،تلک مارگ،نئی دہلی۔ہندوستان

Phone:+91-11-23383116,E-Mail:noormicro@yahoo.com / indianmanuscript@gmail.com

http://indianislamicmanuscript.com

۔۔۔۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .