۱۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 30, 2024
تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج،فیض آباد‘‘

حوزہ/ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضی حیدر پھند یڑوی: حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب نے جہاں مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ، مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، مدرسہ باب العلم مبارک پور، جامعہ جوادیہ بنارس وغیرہ کی تاریخ لکھی وہیں وثیقہ عربی کالج فیض آباد کی تاریخ پر کام کرنے کو شرف سمجھا۔ وثیقہ عربی کالج ہندوستانی شیعوں کا عظیم ادارہ ہے جو بے شمار خدمات انجام دیتا چلا آرہا ہے

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی (صدرالافاضل،واعظ)

تاثرات: از قلم حقیقت رقم: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر، دہلی

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج،فیض آباد‘‘

باسمہ سبحانہ

تاریخ بنی آدم کےلئے علم و دانش، غور و فکر کے ذرائع میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید لوگوں کو غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور غوروفکر کرنے کے مقامات بھی بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم گزشتہ اقوام کی زندگی کے مطالعہ پر تاکید کرتا ہے۔ سورہ آل عمران آیت 137 میں ارشاد فرمایا: قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظر واکیف۔۔۔ ’’تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں، زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہوں نے اللہ کے احکامات اور ہدایات کو جھٹلایا‘‘۔ اس آیت کے علاوہ مختلف آیات میں ماضی کے حالات اور گذشتہ لوگوں کی زندگی کے مفید نکات پیش کرنے کے بعد نوع بشریت کو یہ دعوت دی کہ وہ باصلاحیت افراد کو اپنا ہادی ورہبر بنائیں اور ان کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ سمجھیں تاکہ ایک کامیاب زندگی گزار سکیں۔

معصومین علیہم السلام ہمیشہ قرآن مجید اور اللہ کے فرامین پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اسی وجہ سے وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہیں حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: یابنی! انی وان لم اکن عمر من کان قبلی فقد نظرت فی اعمالھم وفکرت فی اخبارھم و رت فی اثارھم حتی عدت کاحدھم بل کانی بما انتھی الی من امورھم قد عمرت مع اولھم الی آخر ھم فعرفت صنعوا ذالک من کدرہ ونفعہ من ضررہ۔

’’اے میرے بیٹے! میری عمر ہر چند اتنی طویل نہیں جتنی گزشتہ دور کے لوگوں کی رہی ہے لیکن میں نے ان کے کاموں کو دیکھا، ان کے واقعات پر غور کیا، ان کے جو آثار باقی رہ گئے تھے ان میں تلاش و جستجو کی یہاں تک کہ میں بھی ان جیسا بن گیا بلکہ ان کے جو اعمال و افعال مجھ تک پہنچے میں نے گویا ان کے ساتھ اوّل تا آخر زندگی بسر کی، اس کے بعد ہی میں نے ان کے کردار کی پاکیزگی و خوبی کو برائی اور تیرگی سے علیحدہ کرکے نفع و نقصان کو پہچا نا‘‘۔ آپ ؑکے اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ معصومین علیہ السلام تاریخ کو بہت اہمیت دیتے تھے۔

قوموں کی زندگی میں تاریخ کی حیثیت ویسے ہی ہے جیسے شخص واحد کی زندگی میں اس کے حافظہ کی، اس کی یاد داشت اس کی سوچ، شخصیت ، افکار، رفتار اور نظریات پر سب سے زیادہ اثر اندازہوتی ہے ٹھیک اسی طرح ایک قوم کی اجتماعی زندگی اور اس کی رفتار پر سب سے گہرا اثر اس کی تاریخ کا ہوتا ہے۔ تاریخ ہی کے ذریعہ قوموں کی ترقی اور تنزلی کی راہیں معین ہوتی ہیں ، اسی کے ذریعہ گذشتہ انسانوں کی غلطیوں اور کمزوریوں کا علم اور ان کے علل و اسباب کا پتہ چلتا ہے ، تاریخ ہی ایک ایسا آلہ ہے جو لوگوں کو اس بات سےباخبر کرتا ہے کہ کسی بھی وقت ان کی غفلت ا ورلاپرواہی ان کو بلندی سے پستی تک پہونچا سکتی ہے ، تاریخ گمراہوں کو ہدایت، بے بصیرت لوگوں کوبصیرت ،دور اندیشی اور عزم واحتیاط کا درس دیتی ہے ، تاریخ کو پڑھنے والا شخص کمسن ہونے کے باوجود مسن ہوتا ہے اور ہمیشہ اپنے آپ کو انبیاء ، ائمہ،صالحین،مرسلین، اولیاء،سلاطین،علماء اورمعصومین علیہم السلام کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہر زندہ قوم اپنی تاریخ لکھنے اور اس کو محفوظ کرنے میں پوری طاقت صرف کرتی ہے۔

تاریخ کی اہمیت و ضروت کے پیش نظر شیعہ قوم کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے عالیجناب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری صاحب نے قدم اٹھایا اور محققین و دانشوروں کو ساتھ لے کر اس وظیفہ کی ادائیگی میں مصروف ہوگئے۔ ہندوستانی مدارس کی تاریخ نویسی کی ذمہ داری حجت الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب نے سنبھالی جہاں آپ نے مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ، مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، مدرسہ باب العلم مبارک پور، جامعہ جوادیہ بنارس وغیرہ کی تاریخ لکھی وہیں وثیقہ عربی کالج فیض آباد کی تاریخ پر کام کرنے کو شرف سمجھا۔ وثیقہ عربی کالج ہندوستانی شیعوں کا عظیم ادارہ ہے جو بے شمار خدمات انجام دیتا چلا آرہا ہے لہذا اس ادارے کی تاریخ بھی حد امکان محفوظ کردی گئی ہے۔ اس کتاب کی تدوین میں تاریخ کی اقسام سے"تاریخ نقلی" سے کام لیا ہے، تاریخ نقلی میں ماضی کے حوادث و واقعات کو بغیر عبرت و ہدایت کے پڑھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ فقط ماضی سے تعلق رکھتی ہے اور ماضی میں بھی جزئی طور پر قابل مطالعہ قرار پاتی ہے۔ تاریخ نقلی کا حال اور مستقبل سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ صرف ماضی کو یادداشت کے طور پر پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔اس تاریخ میں ماضی کے حوادث و واقعات کو بغیر عبرت و ہدایت کے پڑھا جاتا ہے اور فقط ماضی کےحوادث اور واقعات کو محفوظ کرلیا جاتاہے جس کی حال اور مستقبل میں خاص تاثیر نہیں ہوتی۔ اسی قسم کو مدنظر رکھتے ہوئے حجت الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب نے مدارس کی تاریخ کی تدوین کی ہے۔ اس تاریخ کو مفید بنانےاور قومی لغزشوں کی اصلاح اور ترقی میں مفید ثابت کرنےکےلئے "تاریخ تطبیقی و فلسفہ تاریخ" میں تبدیل کرنا ہوگا۔

وثیقہ عربی کالج کو اودھ کے سابق حکمراں شجاع الدولہ کی اہلیہ بہوبیگم صاحبہ نے قائم کیا تھا جو الحمدللہ آج بھی پوری دنیا میں اپنے اساتذہ و طلاب کے ذریعہ ضوء فشانی کررہا ہے۔ جب میرا حجت الاسلام مولانا ممتاز علی امام جمعہ امامیہ ہال دہلی کے ہمراہ وثیقہ عربی کالج فیض آباد جانا ہوا تو مجھے اس درسگاہ کی عظیم عمارت دیکھنے کو ملی اور اس مدرسہ کے بزرگ وجید اساتذہ و طلاب کی خدمات کو تو پہلے ہی سے جانتا تھا۔ وثیقہ عربی کالج کی عظیم الشان عمارت میں عظیم مسجد اور کتابخانہ کو دیکھا تو اودھ کے حکمراں شجاع الدولہ کی اہلیہ بہوبیگم صاحبہ کے خلوص اور ان کی خدمات کا اندازہ ہوا۔بہوبیگم کا یہ کارنامہ ان کی علم دوستی اور دین پروری کی تائید کر رہا ہے۔

اس قدیم اور عظیم عمارت میں حاضری کے موقع پر مدرسہ کے مدیر عالیجناب ثقۃ الاسلام مولانا محمد محسن جونپوری صاحب نے ہماری پذ یرائی فرمائی اور بہت محبت اور اخلاق کے ساتھ پیش آئے۔ ان کے علاوہ مدرسہ کے بعض اساتذہ جن میں حجۃ الاسلام مولانا حجت صاحب ، مولانا اعظم صاحب، وغیرہ سے ملاقات ہوئی تو ہم نے مدرسہ کی تاریخ نویسی کی طرف متوجہ کیا۔ دہلی واپسی کے بعد میںنے حجت الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب اور انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کے سربراہ عالیجناب عزتمآب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری صاحب سے وثیقہ عربی کالج کی تاریخ نویسی کا ذکر کیا جس کے بعد حجت الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب نے جس طرح دوسرے مدارس کی تاریخ نویسی کے بعد تاریخ کو نئی نسل کے سامنے پیش کیا اسی طرح وثیقہ عربی کالج فیض آباد کی تاریخ نویسی کے لئے دن رات عرق ریزی کرکے کاغذ اور لوگوں کے سینوں میں پراگندہ ہ تاریخ کو جمع کرکے آج کتابی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں دے دیا۔ پراگند ہ تاریخ کا لکھنا آسان ہی نہیں بلکہ بہت دشوار کام ہے۔ مولانا ابن حسن املوی صاحب لوگوں سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ تاریخ کے بکھرے ہوئے اوراق کو یکجا کرانے میں مدد کریں مگر لوگ معلومات فراہم کرانے میں سستی سے کام لیتے ہیں لہذا ایسے مواقع پر کہ جس وقت تایخ کو محفوظ کیا جا رہا ہو تو سب کو بغیر کسی سستی کے ساتھ دینا چاہیے۔ میری دعاہے کہ پالنے والے ہماری قوم کو اپنی تاریخ کو محفوظ کرنے والی قو م قرار دے۔ خداوندکریم کی بارگاہ میں دعاگوہوں پروردگار ! بحق معصومین علیہم السلام قوم کو اپنی لغزشوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطافرما، اس اثر کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کے سربراہ عالیجناب عزتمآب ڈاکٹر مہدی خواجہ پیری صاحب اور حجت الاسلام مولانا ابن حسن املوی صاحب کو اپنے حفظ و امان میں رکھ اور صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عمر عطاء فرما ۔آمین والحمد للہ رب العالمین۔

والسلام

سید رضی حیدر پھندیڑوی

انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر، دہلی

(ماخوذ از کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج ،فیض آباد‘‘صفحہ۱۱)

تاثرات بابت کتاب ’’تاریخ وثیقہ عربی کالج،فیض آباد‘‘

نام کتاب : تاریخ وثیقہ عربی کالج ،فیض آباد

مؤلف : عمدۃ الواعظین عالیجناب الحاج والزائر مولا نا شیخ ابن حسن صاحب قبلہ املوی کربلائی (صدرالافاضل،واعظ)

زیر نظر : حجۃ الاسلام مولانا سید عالم مہدی صاحب قبلہ زید پوری ،انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر ۔نئی دہلی

ً ً : حجۃ الاسلام مولانا محمد محسن صاحب قبلہ پرنسپل وثیقہ عربی کالج فیض آباد

پروف ریڈنگ : حجۃ الاسلام عالی جناب مولا شیخ مسرور فیضی املوی ’’قمی‘‘

کمپیوٹر کمپوزنگ : مولانا محمد وصی اختر معروفی لکھنؤ

ناشر : انٹر نیشنل نور مائیکرو فلم سینٹر ۔ایران کلچر ہاؤس۔نئی دہلی

مطبوعہ : مطبع نور انٹر نیشنل مائیکرو فلم سینٹر۔ایران کلچر ہاؤس۔نئی دہلی

ایڈیشن : پہلا

تعداد کتاب : 500(پانچ سو کاپی)

تعداد صفحات : 735

تقطیع (سائز) : 20X30/8

سنہ اشاعت : 2023ء

{ خواہشمند حضرات درج ذیل پتہ پر رابطہ کرسکتے ہیں:۔ }

انٹر نیشنل نو ر مائکرو فلم سینٹر ۔ ایران کلچر ہاؤس ،۱۸،تلک مارگ،نئی دہلی۔ہندوستان

Phone:+91-11-23383116,E-Mail:noormicro@yahoo.com / indianmanuscript@gmail.com

http://indianislamicmanuscript.com

۔۔۔۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • ولی حسن IN 11:42 - 2023/09/28
    0 0
    ماشاءاللہ بہت اچھی تقریظ لکھی ہے