۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
نواب شجاع الدولہ بہادر

حوزہ/ مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی اقتدار اور مسلمانوں کے خلاف ان کی فتنہ انگیز سازشوں نے احمد شاہ ابدالی کے لئے ہندوستان آنے کے لیے زمینہ فراہم کیا، اس دعوت کا فریضہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اداکیا جو دلّی سلطنت سے مایوس ہوچکے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی اقتدار اور مسلمانوں کے خلاف ان کی فتنہ انگیز سازشوں نے احمد شاہ ابدالی کے لئے ہندوستان آنے کے لیے زمینہ فراہم کیا، اس دعوت کا فریضہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اداکیا جو دلّی سلطنت سے مایوس ہوچکے تھے۔ بادشاہ دہلی تعیش پرستی کا شکار اور ہندوستان کی موجودہ صورت حال سے غافل تھا،جس کی بنیاد پر شاہ ولی اللہ کو یہ باور ہواکہ اب دلّی سلطنت اپنی قوت بازور کی بنیاد پر مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی وقار کو بحال نہیں کرسکتی ،اس لئے انہوں نے ابدالی کو خط لکھ کر مرہٹوں کی بیخ کنی کی دعوت دی۔شاہ صاحب نے ابدالی کو ایک مبسوط خط تحریر فرمایا جس میں اسے وعظ و نصیحت بھی تھی اور ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت بھی۔انہوں نے لکھاکہ:’’دریں زمانہ پادشاہے کہ صاحب اقتدار و شوکت باشد وقادر برشکست لشکر کفار و دور اندیش ،جنگ آزما،غیر ملازماں آنحضرت موجود نیست ۔لاجرم برآں حضرت فرض عین است کہ قصد ہندوستان کردن وتسلط کفار مرہٹہ برہم زدن وضعفائے مسلمین راکہ در دست کفار اسیر اند،خلاص فرمودن۔‘‘(سیاسی مکتوب ص۵۴)

اس خط کےنتیجے میں پانی پت کا میدان کارزار سجا اور مرہٹوں کی فوجی طاقت کا شیرازہ بکھرگیا۔خلیق احمد نظامی اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ :’’ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مدرسہ رحیمیہ کا ایک مدرس اس تاریخی جنگ کے نقشے تیارکررہاتھا۔(مقدمہ سیاسی مکتوبات ص۵۴)اس جنگ نے ہندوستان کی تاریخ کا رخ بدلنے اور جہت طے کرنے میں اہم کرداراداکیالیکن ابدالی کے حملے کے زخم ہمیشہ ہندوستان کی روح پر ہرے رہے ۔نہیں معلوم شاہ صاحب کن بنیادوں پر ہندوستان کی ریاستوں اور دلّی سلطنت سے اس قدر بدگمان اور مایوس ہوچکے تھے کہ انہیں مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی وقار کی بحالی کے لئے ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیناپڑی ۔انہوں نے ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کو متحد کرنے اور انہیں اس فریضے کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی ،اس کے عوامل خارج از فہم ہیں ۔اگر ہندوستان کے حکمران تعیش پرست اور دین سے غفلت کا شکار تھے تو ابدالی نے افغانستان میں اسلام کا پرچم سربلند نہیں کررکھاتھا اور نہ ابدالی کو دین اسلام کی ترقی سے کوئی سروکار تھا۔اس نے شاہ ولی اللہ کے خط کو حملے کا بہانہ قراردے کر فتح ہندوستان کی اپنی ادھوری تمنا پوری کرلی۔اس حملے کےدوررس نتائج کا ذکر کرتے ہوئے خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:’’اگر سلطنت مغلیہ میں تھوڑی سی بھی جان ہوتی تو وہ جنگ پانی پت کے نتائج سے فائدہ اٹھاکر اپنے اقتدار کو ہندوستان میں پھر صدیوں کے لئے قائم کرسکتی تھی ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغلیہ سلطنت اس وقت ایک بے روح جسم کے مانند تھی ،جنگ پانی پت کا اصلی فائدہ فاتحین جنگ پلاسی نے اٹھایا۔‘‘(سیاسی مکتوبات ص۱۹)

گویاکہ ابدالی کے حملے کے بعد ہندوستان میں موجود غیر مسلم حکومتیں اور فوجی طاقتیں منتشر اور کمزور ہوچکی تھیں لیکن مسلم حکمرانوں میں اتنا دم خم موجود نہیں تھاکہ وہ اس جنگ سے فائدہ اٹھاکر اپنی ریاستی حدود کی توسیع اور انہیں مضبوطی دے سکتے ۔اگر اس صورت حال کا اندازہ شاہ ولی اللہ کو بھی تھاتوپھر ابدالی کو حملے کی دعوت دینے سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اور اگر وہ اس حملے کے ذریعہ غیر مسلم طاقتوں اور فوجوں کی کمر توڑنا چاہتے تھے تویہ سلسلہ تادیر جاری نہیں رہا ۔مرہٹوں کے بعد دیگر غیر مسلم طاقتیں ہندوستان کے سیاسی منظرے نامے پر ابھرنے لگیں ۔خاص طورپر انگریز جنہوں نے پلاسی اور بکسر کی جنگ میں مسلمانوں کوشکست دے کر اپنے سیاسی وقار کو مضبوط کرلیاتھا ۔اگر ابدالی فتح ہندوستان کے بعد مضبوط انتظام وانصرام کرنے سے قاصر تھا اور اسے کوئی ایسا دوراندیش اورمضبوط سیاست مدار نظر نہیں آیا جو ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار میں نئی روح پھونکنے کی جرأت کرتاتوپھر اس فتح کا حاصل کیاتھا؟ دوسرے شاہ ولی اللہ کو اس سلسلے میں ابدالی کی رہنمائی کرنی چاہیے تھی کہ اس کی واپسی کے بعد ہندوستان کے اقتدار کی زمام کس کے سپرد کی جائے ،لیکن انہوں نے اس اہم مسئلے پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔

ابدالی کے حملے کے بعد مرہٹوں کا فوجی شیرازہ بکھر چکاتھا لیکن اب سکھ اور انگریز ہندوستان کے منظرنامے پر ایک بڑی فوجی طاقت کے روپ میں ابھر رہے تھے ۔ابدالی جب دوبارہ سکھوں کی بیخ کنی کے لئے ہندوستان پر حملہ ور ہواتو اس کو اپنے لشکر سےبغاوت کا سامناکرناپڑا،جس کے نتیجے میں اُسے واپس قندھارلوٹنا پڑا۔اس کی واپسی نے سکھوں کے حوصلے مزید بلند کردئیے اور وہ پنجاب اور دوآبے کےعلاقوں پر مسلط ہوگئے ۔دوسری طرف انگریز جو اب دلّی کے اقتدار کا خواب دیکھ رہے تھے بنگال میں قاسم علی خاں کے خلاف نبردآزماتھے ۔اس کی مدد کےلئے شاہ عالم اور شجاع الدولہ نے پٹھانوں کےساتھ پیش قدمی کی لیکن غداروں نے اس جنگ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا جس کے نتیجے میں شجاع الدولہ کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔اگر ابدالی کے حملے کے فوراًبعد، جب انگریزوں کے خلاف میدان کارزار سجایا جارہاتھا،شاہ ولی اللہ مسلمانوں کو لڑائی کی دعوت دیتے تو انگریزوںکا فوجی شیرازہ بھی مرہٹوں کی طرح منتشر ہوجاتا،لیکن شاہ ولی اللہ نے شجاع الدولہ کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیا جس کا نتیجہ یہ ہواکہ عام مسلمانوں نے نواب وزیر کا ساتھ نہیں دیا۔جس زمانے میں شاہ ولی اللہ مرہٹوں کو کچلنے کے لئے ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دے رہے تھے ،اسی دور میں انگریز ہندوستان کے اقتدار پر غالب ہوتے جارہے تھے ۔اگر ان کے پاس سیاسی دوراندیشی ہوتی تووہ انگریزوں کے خلاف بھی ابدالی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ابدالی شاہ عالم کو ہندوستان کے اقتدارپر مسلط کرنے کے لئے انگریزوں سے خط وکتابت کرتاہوانظرآتاہے ۔ابدالی نےشاہ عالم کو بلوانے کے لئے اپنا سفیر روانہ کیامگر وہ جان کے خوف سے دلّی آنے پر رضامند نہیں ہوئے ۔اس کی آمد سے ناامید ہوکر ابدالی نے شاہ عالم کی والدہ زینت محل سے خط لکھوایا اور انہیں پایۂ تخت آنے کی دعوت دی۔انہوں نے تحریر کیاکہ :’’شہنشاہ (ابدالی)قلعہ میں آگئے ہیں ۔آج تک کہ ۲۰ رجب ہے میں کئی بار ان سے ملی ہوں وہ تمہارے آنے کے بے حد منتظر ہیں... میرے بیٹے !تم یقین رکھوکہ تمہارے آنے پر سب معاملات طے ہوجائیں گے ...تیمور شاہ نے خلوص و محبت سے مجھے تحفے بھیجے ہیں ،تمہارے بدخواہ بدگمانیاں پیداکرنے کی کوشش کریں گے، تم ان کے کہنے میں نہ آنا ۔میرے بیٹے تم جلد آجائو اگر خدانخواستہ شاہ (ابدالی) چلے گئے تو پھر تم نئی مصیبتو ں میں پھنس جائوگے ۔‘‘(اسلامک کلچر جلد۶ص۵۰۳تا۵۰۴ بحوالہ شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوب مرتبہ خلیق احمد نظامی ص۴۵)ابدالی نے اس بارے میں ایک خط انگریزوں کو بھی لکھاتھا کہ وہ شاہ عالم کو دہلی پہونچنے کے لئے ہر قسم کی سہولت فراہم کریں جس کا جواب انگریز افسر وینسی ٹارٹ نے ابدالی کو روانہ کیا اور لکھاکہ:’’اگر شہنشاہ (ابدالی) کی یہ خواہش ہے تو اس (شاہ عالم) کو دہلی تک برٹش سپاہ کی حفاظت میں پہونچادیاجائے گا۔‘‘(اسلامک کلچر جلد۶ ص ۵۰۴ ،بحوالہ میر کا عہد ص۵۶)ان تمام خطوط سے اندازہ ہوتاہے کہ ابدالی شاہ عالم کو تخت نشین کرنا چاہتا تھا مگر اس نے الہ آباد میں رہنے کو ترجیح دی ۔گویاکہ شاہ والی اللہ کی دعوت سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا،سوائے اس کے کہ دلّی تباہ وبرباد ہوگئی۔ ابدالی کی سپاہ نے دلّی کو لوٹنے میں کوئی تامل نہیں کیا ،جس کا اندازہ میرؔ کے بیانات سے بھی ہوتاہے ۔اگر ابدالی کو ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی وقارکی بحالی کے لئے بلایاگیاتھاتوپھر اس کی فوج کے ذریعہ دلّی کے لوٹنے کا واقعہ کیوں پیش آیا۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ابدالی کا مقصد ہندوستان کو فتح کرنا تھانہ کہ مسلمانوں کے اقتدار کو مضبو ط کرنا تھا۔اب میرؔ کا بیان ملاحظہ کیجیے جو ابدالی کی لوٹ کا گواہ ہے :

’’میں ایک دن ٹہلتاہوا شہر کے تازہ ویرانوں سے گزرا،ہرقدم پر روتااور عبرت حاصل کرتاتھا،جوں جوں آگے بڑھتا،حیرت بڑھتی گئی ۔مکانوں کو شناخت نہ کرسکاتھا۔آبادی کا پتہ تھا نہ عمارتوں کے آثار نہ ان کے مکینوں کی خبر!

از ہر کہ سخن کردم گفتند کہ ایں جانیست از ہر کہ نشاں جستم گفتند کہ پیدانیست

گھر کے گھر مسمار تھے اور دیواریں شکستہ، خانقاہیں صوفیوں سے ،خرابات رندوں سے ۔یہاں سے وہاں تک ایک ویرانہ تھالق و دق!

ہر کجا افتادہ دیدم خشت در ویرانۂ بود فردِ دفترِ احوالِ صاحب زمانۂ (میر کی آپ بیتی ص۱۳۷تا۱۳۸)

یہ بھی واضح رہے کہ بکسر کی جنگ سے بہت پہلے شاہ صاحب کا انتقال ہوچکاتھا مگر جب اس جنگ کی تیاریاں ہورہی تھیں وہ حیات تھے۔اگر وہ مسلمانوں کومتحد ہوکر انگریزوں کے مقابلے کی دعوت دیتے تو ہندوستان کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ اس طرح نہیں ہوتا۔

...... جاری ہے......

تبصرہ ارسال

You are replying to: .