۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
علامہ تفضل حسین کشمیری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ تفضل حسین سنہ 1727عیسوی میں سرزمین سیالکوٹ پر کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ علامہ کے والد سعداللہ خاں تھے اور ان کے دادا "کرم اللہ" اپنے وقت کے بہت بڑے عالم تھے جنہوں نے لاہور کے گورنر "معین الملک" (میر منو) کے دربار میں وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

علامہ تفضل 13 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ دہلی منتقل ہو گئے وہاں رہ کر سنی عالم دین "ملا نظام الدین سہالوی" کے شاگرد"ملا وجیہ" سے منطق و فلسفہ کی تعلیم اور میرزا محمد علی سے ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ جب 18 سال کےہوئے تو اپنے ¬ کنبہ کے ساتھ لکھنؤ چلے گئے اور فرنگی محل کے مدرسے میں داخل ہوکر اپنی علمی تشنگی بجھانے میں مصروف ہوگئے۔ فرنگی محل کے مدرسہ میں رہ کر مشہور و معروف شیعہ صوفی"ملاصدرا" کے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی ، جلد ہی علامہ کے ذہن میں سنی مسلک اورروایتی فلسفہ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیداہو گئے اور انہوں نے تحقیق شروع کردی۔ پھر انہوں نے

شیعہ مسلک اختیار کیا اور فلکیات سے متعلق "بطلیموس" کی کتابوں میں مہارت حاصل کی۔

تفضل حسین کا تعلق ایک نامور گھرانے سے تھا جو مغل دربار سے قریب تھا ۔ انہوں نے شاہی دارالحکومت دہلی میں منطق ، ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی اور سنہ 1745ء میں اپنے والدکے ہمراہ لکھنؤ منتقل ہوگئے۔ ان کے والد نےنواب شجاع الدولہ کے دربار میں جلد ہی بلند مقام حاصل کر لیا۔ علامہ تفضل کے گھرانے کا تعلق شرفا کے طبقے سے تھا اور ان کی ہندی فارسی روایت میں عقلی علوم اور زبان و ادب میں مہارت سیاسی طاقت حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط تھی، جو انہوں نے دہلی اور لکھنؤ میں تعلیم کے دوران حاصل کی۔ انہوں نے ارسطوکی منطق اور اقلیدس و بطلیموس کی ریاضی میں مہارت کے ساتھ ساتھ فقہ اور مدیریت کا علم بھی حاصل کیا۔

نواب آصف الدولہ کے زمانے میں علامہ کشمیری کلکتہ میں جس وقت سفارت کے عہدہ پر مامور تھے تو وہاں آپ نے یونانی، رومی اور انگریزی زبانیں سیکھیں جنکے ذریعہ مغرب میں برپا ہونے والے سائنسی انقلاب سے آشنا ہوئے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلم تعلیمی اداروں کی علمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لئے مغربی سائنسدانوں کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔

اٹھارہویں صدی عیسوی کے دوران یورپ میں سائنس نے تعلیمی درسگاہوں کے علاوہ کافی گھروں ، ہوٹلوں، دکانوں، میلوں اور دیگر عوامی مقامات پر مختلف علمی موضوعات پرہونے والے عوامی مباحثے کی وجہ سے ترقی کی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام تک کلکتہ اسی قسم کی ثقافتی تبدیلی کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا

ایسے ماحول میں علامہ تفضل حسین کشمیری نے ان علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ سائمن شیفرکے مطابق "علامہ تفضل " صبح کے وقت اسلامی روایت، فلسفہ کی تشریحات اور ریاضی کا درس دیتے نیز سہ پہر اور شام کو اسلامی فقہ کے مختلف مسالک کا درس دیتے تھے۔

علامہ نے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے ایک نمونہ یہ ہے کہ نواب شجاع الدولہ نے انھیں اپنے بیٹے

"سعادت علی خان” کا استاد مقرر کیا۔ وہاں کچھ اور طلبہ بھی ان کے شاگرد بنے جن میں سے :آیت اللہ سید دلدار علی نقوی غفرانمآب اور فریدالدین احمد خان کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

آپ نے تمام تر مصروفیات کے باوجود تحقیق و تصنیف کا دامن نہیں چھوڑا جسکے سبب بہت سے آثار چھوڑے: اپولونس کی

تکونی قطعات کی شرح، الجبرا پر دو مقالے،دیوفانت کی تکونی قطعات کی شرح، سر آئزک نیوٹن کی فلسفہ طبیعت کے

ریاضیاتی اصول کا ترجمہ، طبیعیات پر ایک کتاب اورمغربی فلکیات سے متعلق کتاب کونمونہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

علامہ نے وولویچ میں رائل ملٹری اکیڈمی میں ریاضی کے پروفیسر تھامس سمپسن کےرسالہ الجبرا اور فرانسیسی ریاضی کے

تجزیہ کار" گیلوم ڈی ایل ہاپیٹل " کے رسالہ تکونی قطعات کو بھی حل کیا۔

خان¬¬علامہ کی سیر چشمی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے رفقاء میں ایک صاحب ایسے تھے کہ جن کی باورچی خانہ کے دروغہ سےنہیں بنتی تھی اور وہ دروغہ کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتے تھے۔ دروغہ کی عادت تھی کہ وہ دس گیارہ لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے ۔ ایک دن علامہ کے رفقاء نے موقع پا کر آپ سے عرض کیا : باروچی خانہ کے دروغہ کی فیاضی سرکار کو نقصان پہنچاۓ گی جو کھانے آپ کے دسترخوان پر ہوتے ہیں و ہی کھانے دروغہ کے دستر خوان پر ہوتے ہیں اور وہ اپنے احباب کے ساتھ کھاتے ہیں ،علامہ نے جواب دیا میں بغیر دیکھے یقین نہیں کرسکتا چنانچہ علامہ خاصہ سے فارغ ہوئے تو ان کے رفیق اٹھے اور باورچی خانہ کیطرف چلے تو کیا دیکھا کہ دستر خوان حسب معمول ویسا ہی چنا ہوا ہے اور احباب دروغہ کے منتظر ہیں کہ وہ آئیں تو کھانا شروع ہو رفیق یہ حالت دیکھ کر واپس آئے اور علامہ سے کہا چل کے ملاحظہ کر لیجیے ، خانعلامہ باورچی خانہ میں گئے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور دسترخوان چنا ہوا ہے دروغہ بھی ساتھ میں بیٹھے ہوۓ تھے، دواروغہ بہت پریشان ہوئے اور ان کے ساتھی بھی گھبرا ئے کہ دیکھئے دروغہ کےسر کیا آفت آتی ہے۔ علامہ تفضل نے ان لوگوں سے سوال کیا: آپ لوگ کھانا تو یہاں کھاتے ہیں، پانی کہاں پیتے ہیں؟ ان میں سے ایک شخص نے جواب دیا : آپ کی سلامتی میں کھانا تو پیٹ بھر کے مل جاتا ہے مگر پانی ٹھلیوں کا پیتے ہیں ، علامہ نے فرمایا کہ آبدار خانے میں حکم دیدو کہ آج سے جتنے آدمی دروغہ صاحب کے ساتھ کھانا کھائیں اتنی برف کی جمی ہوئی صراحیاں آبدار خانے سے دی جائیں ۔ یہ کہہ کر سر سجدہ میں رکھا اور کہا بارالہا کس کس نعمت کا شکر ادا کروں، تونے آل و اولاد عنایت کی ، مال و عزت سے سرفراز کیا اور آدمی بھی ایسے نیک نیت دیے ہیں جو تیرے بندوں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں۔

اللہ نے آپ کو ایک بیٹی اور ایک بیٹا عطا کیا جس کو زمانہ" نواب تجمل حسین خان "کے نام سے جانتا ہے اور ان کی نسل محلہ کٹرہ ابوتراب لکھنؤ میں آبادہے۔ آخرکار اس علم و ہنر کے چمکتے ماہتاب کو سنہ1799 عیسوی میں ذہنی دباؤ سے فالج کی صورت گہن لگ گیا ، جس کے سبب جسم کے زیادہ تر حصے نے کام کرنا چھوڑ دیا اور 3 /مارچ 1801 ءکو کلکتہ سے لکھنؤ جاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزاروں آہ و بکاء کے ہمراہ سپرد خاک کردیا گیا ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 247دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/ZGouA6ST_Gg?si=zSErJfL6Oc1cAt97

تبصرہ ارسال

You are replying to: .