حوزہ نیوز ایجنسی। علامہ سید نظائر حسین نقوی 7/ اکتوبر سنہ 1921 عیسوی میں سرزمین سرسی ضلع مرادآباد صوبہ یوپی پر پیدا ہوئے ۔ علامہ کا تعلق علمی و مذہبی خاندان سے تھا۔ آپ کے والدحکیم سید ریحان حسین ایک مخلص عزادار سید الشہداء اور بہترین شاعر اہلبیت ؑتھے۔ دورحاضر(سنہ1442ھ) میں بھی سرسی کے مرثیہ خواں حضرات آپ کے کلام پڑھتے ہیں۔
آپ نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم سرسی میں اپنے والد سے حاصل کی پھر ان کی خواہش کے مطابق میرٹھ کا رخ کیا اور مدرسہ منصبیہ میں داخل ہو کر مشغولِ تعلیم ہوگئے ۔
مولانا نے مدرسہ منصبیہ سے عالم کی سند حاصل کی پھر لکھنؤ کا رخ کیا اور مدرسہ سلطان المدارس میں داخل ہونے کے بعد اُس دور کےجید اساتذہ سے کسب فیض کیا ۔ علامہ نے مدرسہ سلطان المدارس سے صدرالافاضل کی سند اور الہ آباد بورڈ سے فاضل طب اور فاضل دینیات کی سند دریافت کی ۔
علامہ کی ذہانت ، قوت حافظہ، قرائت اور لحن قابلِ داد تھی۔ جہاں آپ کوعلم فلسفہ، منطق، فقہ واصول میں مہارت حاصل تھی وہیں انگریزی اور ہندی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
علامہ نظائر صاحب سنہ 1952 عیسوی میں علیگڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات سے منسلک ہوگئے اور یہاں رہ کر سنہ 1981 عیسوی تک امام جماعت کے فرائض کی انجام دہی کےذریعہ قوم و ملت کی خدمت انجام دی اور صدرِشعبۂ دینیات علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی غیر موجودگی میں وقتاً فوقتاً نماز جمعہ بھی قائم کرتے تھے۔ آپ کی خدمات کو مؤمنین علیگڑھ آج تک یاد کرتے ہیں۔
یونیورسٹی سے ریٹائر ہونے کے بعد کچھ عرصہ آگرہ میں امام جمعہ و جماعت کے فرائض انجام دیئے مگر وطن کی محبت اور وہاں کی عزاداری اپنے وطن "سرسی" کھینچ لائی جبکہ اہل خانوادہ علیگڑھ ہی میں قیام پذیر تھے۔ آپ کی تنہائی خصوصاً ضعیفی کی مشکلات وطن کی محبت میں ذرّہ برابربھی تبدیلی نہیں لاپائیں اور آخری وقت تک وطن کو نہ چھوڑا۔
میدانِ خطابت میں یگانۂ روزگار، مبلغ، مدرس،شاعر، منکسرالمزاج، شریف النفس اور متواضع انسان تھے۔ موصوف میں صاف گوئی اور اخلاقی جرأت اتنی زیادہ تھی کہ جس سے جو شکایت ہوتی اس کے سامنے بیان کردیتے تھے۔ان کو ریاکاری،خود غرضی اور مفاد پرستی سے سخت نفرت تھی۔ وہ دل کے صاف اور بیان کے صادق تھے۔ حق گو، بے خوف اور جرأت مندانسان تھے۔
علامہ نے اپنی ساری زندگی نہایت سادگی کے ساتھ گذاری ، موصوف کی خوراک نہایت سادہ رہتی اور صرف اتنا کھاتے کہ زندہ رہ سکیں ، لباس کے اعتبار سے بھی سادہ پوشی علامہ کی ایک آشکار صفت تھی۔جو کام بھی کرتے یہ سوچ کر کرتے کہ اس کا خدا کو حساب دینا ہے۔
موصوف نے تمام زندگی تحصیل علم اور مذہب حقّا کی تبلیغ و اشاعت میں گزاری، آپ کے علمی انہماک کا یہ عالم تھا کہ کبھی بیکار نہیں بیٹھتے تھے جب بھی دیکھامطالعہ فرماتے نظر آئے یا کسی اہم موضوع پر اپنی رائے قلمبند فرماتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ ان کے کتابخانہ میں ہزاروں نایاب و کمیاب کتب کے علاوہ مخطوطات بھی کثیر تعداد میں موجودتھیں جو ان کے علم دوست ہونے کی دلیل ہیں۔ علامہ بہترین شاعر بھی تھے اور پوری زندگی اہلبیت اطہار علیہم السلام کی شان میں قصائد، سلام اور قطعات کہے جو ابھی بھی ان کے بچوں کے پاس غیر مطبوعہ صورت میں محفوظ ہیں۔
مولانا مرحوم شریعت میں بے بنیاد رسموں کے سخت مخالف تھے ۔ بیہودہ رسموں کو ( عقیدت ۔ طہارت اور عظمت ) کے نام سے جانا جاتا تھا ،اپنی من مانی کو شرعی احکام پر ترجیح دی جاتی تھی ۔ نذرمعصومینؑ کے موقع پر دستور تھا کہ گھر کے سارے برتن مسجد کے نل اور حوض میں پاک ہوتے، ایام عزا میں تلی ہوئی چیزیں نہیں پکتی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ مولانا فرمایا کرتے: کیا پورے سال نجس کھانا کھایا؟۔چنانچہ سنہ 1992عیسوی کا واقعہ ہے کہ سرسی کے محلہ شرقی میں دروغہ محمد ظفر علی مرحوم کے دولت کدہ پر ایک تقریب میں کھانے کے موقع پر کڑھی کا انتظام تھا لیکن کڑھی کی روح یعنی پکوڑی نہیں تھی، مولانا نے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ قبلہ محرم میں کڑھائی کیسے چڑھے گی!۔ اسی موقع پر اس رسم کو اسلامی تعلیمات کے خلاف بتاتے ہوئے آپ نےاپنی بہو کو بلا کر پکوڑی بنوائی اور اپنے عمل کے ذریعہ بے بنیاد رسموں کی مخالفت کی۔
آپ ایام عزاء میں ہمیشہ سرسی کو ترجیح دیتے تھے، دوسری جگہ جانا بہت کم پسند فرماتے تھے۔ موصوف سرسی کی عزاداری میں ایک اہم کڑی تھے اور اہل سرسی بھی آپ کو بے پناہ چاہتے تھے۔ اہل سرسی علامہ کے خطیبانہ انداز اور ان کی تقریروں خصوصاً مصائب سید الشہداء سے بے حد متأثر تھے آپ اپنے بیان میں شروع سے آخر تک اپنے موضوع پر باقی رہتے تھے۔
علامہ کثیر العیال ہونے کے باوجود کبھی دولت کو اہمیت نہیں دیتے، جو کچھ تنخواہ ملتی اسی میں ہی بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات کو پورا کرتے، محدود آمدنی اور اخرجات کی زیادتی کے سبب وہ اور ان کے بچے سختی میں گزارتے۔ علامہ کو خداوند عالم نے 9 فرزند عطا فرمائے جن میں سے چارنعمتیں اور پانچ رحمتیں تھیں ۔آپ نے ان کو دینی و عصری تعلیمات سے آراستہ کیا۔
آپ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے؛ اپنے کام خود ہی انجام دیا کرتے حتی اپنے فرزندان سے بھی کوئی کام نہ لیتے، ہمیشہ رب کریم سے دعا فرماتے کہ پالنے والے! کبھی کسی کا محتاج نہ بنانا، مجھے چلتے ہاتھ پیر اپنی بارگاہ میں بلا لینا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ علم و فضل کا ٹمٹماٹا ہوا چراغ بیماری کی آندھیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے 18 /دسمبرسنہ 1994 عیسوی میں بروز چہار شنبہ بوقت سحرگل ہوگیا اوراپنے حقیقی مالک سے جا ملا، مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ساتھ مولانا سید حسین رضا (امام جمعہ سرسی) کی اقتدا میں نماز جنازہ اداکی گئی اور علامہ کی وصیت کے مطابق عزاخانۂ کلاں" سرسی" میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج8، ص265، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2021ء۔