۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
قیام امام حسین(ع)

حوزہ/ آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں نیز ائمہ معصومینؑ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد زیارت ناموں میں بھی آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی پیشوائی

ترجمہ: مولانا فیروز علی بنارسی

حوزہ نیوز ایجنسی تاریخ عاشورا کے بارے میں تحقیق کرنے والا اگر قیام عاشورا کی حقیقت سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ پہلے مرحلے میں امام حسینؑ کی حیات طیبہ اور امام معصوم ہونے کے لحاظ سے آپ کی شخصیت و منزلت کے بارے میں کامل مطالعہ، جامع نگاہ اور ضروری و کافی شناخت پیدا کرے۔ پھر قیام کے دوران مختلف مقامات پربلکہ قیام سے پہلے کے آپ کے ارشادات و بیانات کا باغور مطالعہ کرے اوراپنے قیام کے فلسفہ اور حقیقت کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ان سے آگاہی حاصل کرے۔

امام حسین علیہ السلام کے مقصد و فلسفہ قیام کو جاننے کے لئے سب سے بہترین اور سب سے مطمئن سند خود آپ کے یا دیگر ائمہ معصومینؑ کے ارشادات اور بیانات ہیں۔ آپ کے سارے خطبات، ارشادات، خطوط، وصیت نامے جو کہ آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں ہیں نیز ائمہ معصومینؑ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کے لئے وارد زیارت ناموں میں بھی آپ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا گیا ہے ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ امام حسین علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے علماء و دانشوروں کے اجتماع میں ایک ولولہ انگیز اور دندان شکن خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں دین اور مسلمانوں کے عقائد کے تحفظ کے لئے علماء اوربزرگان شہر و دیار کی عظیم ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرائی نیز بنی امیہ کے مظالم کے سامنے ان کی خاموشی اور اموی حکمرانوں کی دین دشمن سیاست کے مقابلہ میں ان کے سکوت پر ان کی سرزنش اور تنقید کی۔ نیز بنی امیہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون اور صلح و مصالحت کو ناقبل بخشش گناہ قرار دیا۔ امام علیہ السلام نے ظالم حاکم نظام کے خلاف اپنے اقدامات جو کہ چند برس بعد ایک انقلاب کی شکل میں سامنے آئے، کے مقصد کا اعلان اس طرح فرماتے ہیں:

خدایا! تو جانتا ہے کہ ہم جو کچھ انجام دے رہے ہیں (جیسے اموی حکمرانوں کے خلاف خطبے اور اقدامات) یہ سب حکومت اور دنیا کی ناچیز متاع میں سبقت کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ ہم تیرے دین کی نشانی لوگوں کو دکھا دیں (برپا کریں) اور تیری سرزمین پر اصلاح کو ظاہرو آشکار کریں۔ میں چاہتا ہوں کے تیرے ستم رسیدہ بندے امن و امان میں رہیں اور تیرے احکام و قوانین پر عمل کیا جائے۔

(تحف العقول،ص ۲۳۹)

ان جملات میں غور و فکر سے یزید کے دور میں امام حسینؑ کے اقدامات کے چار اصل مقصد سامنے آتے ہیں:

الف: حقیقی اسلام کی نشانیوں کو زندہ کرنا۔

ب: اسلامی مملکت کے لوگوں کی حالت کی اصلاح و بہبودی۔

ج: ستم رسیدہ لوگوں کے لئے امن و امان کی فراہمی۔

د: احکام و واجبات الٰہی پر عمل کے لئے مناسب مواقع فراہم کرنا۔

۲۔ امام حسینؑنے مدینہ سے رخصتی کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا اور اس میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایا:

میں نے نہ تو سر مستی اور گستاخی کی خاطر اور نہ ہی فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کی خاطر قیام کیا ہے بلکہ میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں۔

میں تو امر بالمعروف، نہی عن لمنکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے جد اور اپنےوالد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں(عمل کرنا چاہتا ہوں)

(کتاب الفتوح، ابن اعثم کوفی ج۵ ص۲۱)

ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں: خدایا! مجھے معروف(نیکی) سے محبت ہے اور میں منکر (برائی) کو ناپسند کرتا ہوں۔

(مقتل الحسین، خوارزمی، ج۱،ص۱۸۶)

ائمہ معصومین علیہم السلام کی زبانی امام حسین علیہ السلام کی مختلف زیارتوں میں یہ تعبیر بکثرت مشاہدہ کی جاتی ہے :

اَشْهَدُ اَنَّکَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوهَ وَآتَیْتَ الزَّکوهَ وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی،نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا ۔

اس عبارت کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہو سکتے ہیں:

الف:امت رسولؐکی امور کی اصلاح

ب: امر بالمعروف

ج:نہی عن المنکر

د:رسول خدا ؐاور امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرنا جیسے نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔

۳۔ امام حسین علیہ السلام نے مکہ میں قیام کے دوران اہل کوفہ کے خطوط کے جواب میں جو خط تحریر فرمایا تھااس خط میں اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح تحریر فرمایاتھا:

میری جان کی قسم ! حاکم وہی ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے ، عدل و انصاف کو قائم کرے، حق پر عقیدہ وایمان رکھے اور اپنے آپ کو راہ خدا میں وقف کر دے والسلام۔

(تاریخ طبری، ج۵،ص۳۵۳)

امام علیہ السلام اس خط میں قیام کا مقصد ایک ایسی حکومت کےقیام کے لئے کوشش قرار دیتے ہیں کہ جس کا حاکم و پیشوا مندرجہ ذیل صفات و خصوصیات کا حامل ہو:

الف: کتاب خدا کے مطابق حکومت کرے۔

ب:معاشرہ میں عدل و انصاف قائم کرے۔

ج:دیندار اور دین خدا پر عقیدہ و ایمان رکھنے والاہو۔

د: اپنےاآپ کو خدا اور مقاصد الٰہیہ کے لئے وقف کر دے۔

۴۔ امام حسینؑ نے اپنی مدد اور تعاون کی خاطر بصرہ کے بزرگوں کو ایک خط لکھا اور اسی میں اپنے قیام کا مقصد اس طرح تحریر فرمایا:

میں تمھیں کتاب خدا اور سنت رسولؐ خداکی طرف بلاتا ہوں اس لئے کہ سنت کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہےا ور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے۔

(تاریخ طبری ج۵ص ۳۵۷)

امام؈ عبداللہ بن مطیع کے جواب میں فرماتے ہیں:

کوفیوں نے میرے پاس خط لکھا ہے اور مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں ان کے پاس جائوں اس لئے کہ انھیں امید ہے کہ میری قیادت میں حق کی نشانیاں زندہ اور بدعتیں نیست و نابود ہوں گی۔

(الاخبار الطوال ص ۳۶۴)

امام حسین ؈نے بصرہ کے شیعوں کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:

میں تمھیں حق کی نشانیوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو نیست و نابود کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

(الاخبار الطوال ص ۳۴۲)

امام؈نے ان خطوط اور جوابت کی روشنی میں قیام عاشورا کے مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد کا علم حاصل ہوتا ہے:

الف: خدا کی کتاب اور رسولؐخدا کی سنت کی طرف دعوت اوراس پر عمل

ب: ان بدعتوں کو نیست و نابود کرنا جو احکام الٰہی اور سنت نبوی کی جگہ بیٹھ گئی ہیں۔

ج: رسول خدا؈ کی نابود سنت کو زندہ کرنا اور حق و حقیقت کی نشانیوں کو قائم کرنا۔

۵۔ امام حسینؑ نے منزل بیضہ میں حر بن یزید ریاحی کےلشکر سے روبرو ہونے کے بعد ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ نے اس خطبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کو دلیل بناتے ہوئے مقصد قیام کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

اے لوگو! جو شخص کسی ظالم حاکم کو دیکھے جو کہ حرام خدا کو حلال کر رہا ہو، خدا کے عہد و پیمان کو توڑ رہا ہو، رسول خداؐکی سنت کی خلاف ورزی کر رہا ہو اور بندگان خدا کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتائو کر رہا ہو لیکن وہ شخص اس کے خلاف قول و فعل کے ذریعہ اٹھ کھڑا نہ ہو تو خدا پر ہے کہ اسے بھی اس ستمگر کے ٹھکانے تک پہونچا دے۔ اے لوگو! جان لو کہ ان لوگوں نے شیطان کی فرمانبرداری کو قبول کر لیا ہے اور ان فرمان الٰہی کی اطاعت سے آزاد ہو گئے ہیں ، فساد کو ظاہر کیا ہے اور حدود الٰہی کو معطل کر دیا ہے اور مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے آپ سے مخصوص کر دیا ہے، حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کر دیا ہےاور میں مسلمانوں کے امور میں تبدیل لانے کے لئے سب سے لائق انسان ہو۔

(تاریخ طبری ج ۵ص ۴۰۳)

اس خطبہ سے سید الشہداء؈کے قیام کا مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ بنی امیہ کے حکمرانوں بالخصوص یزید ملعون نے اسلام کے خلاف قدم اٹھائے تھے او وہ مندرجہ ذیل ہیں:

الف: شیطان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور خدا کی فرمانبردار کو بالائے طاق رکھنا۔

ب: روئے زمین پر فتنہ و فساد برپا کرنا۔

ج: حدود الٰہی کو معطل کرنا۔

د: بیت المال کو اپنی جاگیر بنالینا۔

ھ: حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کرنا۔

اسی لئے ہم امام حسینؑ کی زیارت میں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے احکام الٰہیہ اور سنت رسول خدا و امیر المومنین صلوات اللہ علیہما وآلہماکو نافذ و قائم فرمایا ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام کیا۔ نماز قائم کی، زکات ادا کی، نیکیوں کا حکم دیا، برائیوں سے روکا اور مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کے ذریعہ اپنے دین و آئین کی طرف دعوت دی۔

نیز عرض کر تے ہیں:ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا اور مسلمانوں کو ان دونوں چیزوں کی طرف دعوت دی۔

۶۔ امام حسینؑ نے منزل ذُو حُسَم پر اپنے قیام کے مقصد کو اس طرح بیان فرمایا :

کیاتم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے؟! ایسے حالات میں تو مرد مومن کو دیدار الٰہی کا خواہاں ہوناچاہئے۔ میں ایسی موت کو صرف شہادت جانتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندگی کو ننگ و عار کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتا۔

امام ؈ذلت برداشت نہ کرنے کو قیام کے ایک دوسرے مقصد کے تحت مختلف خطبات میں بیان فرمایا ہے منجملہ جیسا عبیداللہ ابن زیاد نے امام حسینؑ کے سامنے دو راستے رکھے تھے یا شہادت یا بیعت یزید، تو آپ نے ارشاد فرمایا: ذلت ہم سے دور ہے اور خدا، رسول خداؐاور صاحبان ایمان نے ایسے ننگ و عار کو ہمارے لئے ذرہ برابر بھی پسند نہیں کیا ہے۔

(اثبات الوصیہ، ص ۱۶۶)

نیز فرمایا: ذلت و رسوائی قبول کرنا ہم میں سے بہت دور ہے اس لئے کہ خدا و رسول نے اس سے انکار فرمایا ہے۔

(مقتل الحسینؑ خوارزمی ج۲ص۷)

اس حصہ میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امام حسینؑنے ذلت کو قبول نہ کرنے کی نسبت امر خدا، رسول اکرمؐاور صا حبان ایمان کی جانب دیا ہے اس لئے کہ حقیقی صاحب ایمان حکم خدا اور سنت نبوی ؐ کی پیروی کی بنا پر کبھی بھی ذلت قبول نہیں کرےگا۔

امام حسینؑ نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے:

خدا کی قسم میں بیعت کے عنوان سے ذلیل و خوار آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دوں گا اور نہ ہی غلاموں کی طرح فرار اختیار کروں گا۔

(الارشاد ج۲ص۹۸)

نیزارشادفرمایا:

مَوتٌ فِی عِزٍّ خَیْرٌ مِنْ حَیَاۃٌ فِی ذُلّ۔

عزت کے ساتھ مرجانا ذلت کےساتھ زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے۔

(مناقب ابن شہر آشوب ج۴ص ۷۵)

امام؈کے ان ارشادات سے ان اغراض و مقاصد کا علم ہوتا ہے:

الف: حق کو رائج کرنا اور اس پر عمل کرنا۔

ب: باطل کو رائج ہونے سے روکنا اور اس پر عمل کرنے سے بازرکھنا۔

ج: دنیا کی ذلت وخواری والی زندگی کو قبول نہ کرنا اور آخرت کی سعادت مند زندگی کو منتخب کرنا۔

امام جعفر صادق؈ زیارت اربعین میں قیام حسینی کے مقصد کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبادَکَ مِنَ الْجَهالَةِ، وَحَیْرَةِ الضَّلالَةِ۔

(تہذیب الاحکام، ج۶،ص۱۲۶)

امام حسین بن علی علیہما السلام نے تیری راہ میں اپنی جان فدا کر دی تاکہ تیرے بندوں کو نادانی اور گمراہی کی سر گردانی و حیرانی سے نجات دلائیں۔

امام صادق؈ کے ارشاد کی روشنی میں سید الشہداء کے مقصد قیام کو مندرجہ ذیل اغراض و مقاصدمیں پیش کیا جا سکتا ہے:

الف: مسلمانوں کو خدا کے احکام اور اپنے فرائض کی بے خبری سے نجات دلانا۔

ب: بندگان خدا کو گمراہی سے نجات دلانا، انھیں دین کے حقیقی رہنمائوں کی اطاعت و پیروی کے لازم ہونے سے آگاہ کرنا۔

نتیجہ اور ماحصل

امام حسین ؈کے بیانات و ارشادات سے نکالے گئے اغراض و مقاصد میں مختصر غور وفکر کرکے یہ دیکھاجا سکتا ہے کہ آپ اپنے قیام کا مقصد اور علت اسلامی معاشرہ میں کثیر تعداد میں پھیلے منکرات اور برائیوں کا مقابلہ کرنا اور مسلمانوں کےد رمیان معروف اور نیکیوں کو رائج کرنا ہے۔ لہٰذا آپ کے قیام کے اصلی فلسفہ کو ایک جامع ہدف و مقصد میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے او روہ حقیقی اسلام کو زندہ کرنا اور اپنے جد کے دین سے بدعتوں اور تحریفوں کو نکال باہر کرنا ہے۔ البتہ امام؈نے اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو وسیلہ قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام وصیت نامہ میں تحریر فرمایا تھا:

اُرِیْدُاَن آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھَی عَنِ الْمُنْکَر۔

اور جیسا کہ بیان کیا گیا امام حسین علیہ السلام کی زیارتوں میں آیا ہے:

اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَیْتَ عَنْ الْمُنْکَرِ۔

وضاحت: اگر امام حسینؑ اپنے قیام کا مقصد وعلت بدعتوں کے رواج، کتاب خدا کی مخالفت، حلال و حرام خدا، سنت نبوی کی نابودی، شیطان کو محور بنانا اور اہلبیت کو چھوڑنا، فساد، ظلم و زیادتی، بے انصافی، اسلامی معاشرہ میں بدامنی، دور الٰہی کو معطل کرنا اور بیت المال کو اپنی ملکیت بنا لینا وغیرہ قرار دیتے ہیں تو یہ تمام چیزیں اس بات کی نشاندہی کر تی ہیں کہ معاشرہ میں منکرات حد سے زیادہ پھیل چکے تھے کہ آپ نے اپنا فریضہ نہی عن المنکر قرار دیا۔ نیز اگر امام حسینؑاسلامی معاشرہ کو کتاب خدا، سنت نبوی پر عمل، حق کی نشانیوں کو زندہ کرنا، امن و امان پیدا کرنا، امت کے امور کی اصلاح کرنا وغیرہ کی جانب دعوت دیتے ہیں تو یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معروف نامی چیز سماج سے رخصت ہو گئی تھی یا کم ازکم نابود کے دہانے پر تھی۔اسی لئے اگر امام حسینؑ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا اور آپ نے ایسا کرکے ایک طرف تو اپنے آپ کو شہادت اور حکومت یزید کے مقابلہ میں ثابت قدم رہنے کا اعلان کر دیا تو دوسری جانب یزید کی حکومت کو سرنگوں کرنے اور اسلامی حکومت کے قیام کے لئے سعی و کوشش فرمائی۔

درحقیقت انکار بیعت، نہی عن المنکر، معروف کو رائج کرنے، بنی امیہ کی بدعتوں اور مظالم کے سامنے خاموشی کی حرمت کے سلسلہ میں مسلمانوں پر اتمام حجت کرنے کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ ایسی حکومت کی بیعت کرنا یا اس کے سامنے خاموشی اختیار کرنا منکر کو رائج کرنے اور معروف سے مقابلہ کرنے کے علاوہ عام لوگوں کے لئے اموی حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے عذر وبہانہ بنتا تھا۔

دوسرے لفظوں میں امام معصوم ہونے کے محاظ سے امام حسینؑ کی سیرت میں جو بات مسلم اور ناقابل انکار نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ جیسی شخصیت اس بات کے لئے تیار نہیں تھی کہ وہ یزید جیسے آدمی کی بیعت کرے اور اس کی حکومت کو قانونی حکومت تسلیم کرے۔ اس لئے کہ آپ معاویہ کے دور حکومت اس کے بعد یزید کے دور حکومت میں امت مسلمہ کی گمراہی کی گہرائی دیکھ کر اس نتیجہ تک پہونچے تھے کہ اب وعظ و نصیحت اور پر جوش خطبوں کے ذریعہ اس انحراف و گمراہی کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے جو اسلامی معاشرہ نیز حکومت کے سیاسی اور اعتقادی بنیادوں میں رچ بس چکی ہے۔ لہٰذا اب امام؈ کی نظرمیں امت مسلمہ کی واحد راہ علاج اور نجات ایک ہمہ گیر قیام ہے کہ جس کا عکس العمل اور وسعت نہ صرف یہ کہ مکان سے محدود نہ رہی بلکہ زمانہ کے حدود کو بھی پار کر گئی اور ہر دور کے آزادی خواہ انسانوں کے لئے ایک نمونہ بن گئی۔ البتہ مد مقابل یزید ملعون بھی کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو امام؈ سے بیعت لئے بغیر سکون سے بیٹھ جاتا اس لئے کہ امام حسینؑ جیسے افراد کا یزید کی حکومت کو قانونی نہ ماننا اس کی حکومت کی مشروعیت کو رد کرنے اور ٹھکرانے اور حکومت سے جنگ کرنےکے معنی میں تھا اور یزید اس بات سے اچھی طرح واقف تھا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .