۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 377925
1 مارچ 2022 - 18:27
مولانا سید حمید الحسن زیدی

حوزہ/ اچانک سر زمین مکہ پر ایک نور چمکا جس کی ضیاء پاشیوں سے دنیا منور ہو گئی اس نور کی عظمت کے سامنے اس وقت کی دو بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں زلزلہ کے آثار نمودار ہوئے دریائے ساوہ خشک ہو گیا ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر پڑے دنیا کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔

تحریر: سید حمیدالحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسیدنیا ئے انسانیت فتنہ و فساد، ظلم و جور اور گناہ و معصیت سے دوچار تھی ہر طاقتور کمزور کو ستانا اس کا استحصال کرنا اپنا حق سمجھتا تھا یہودیت اپنے انانیت ہٹ دھرمی اور نہ جانے کتنے باطل امتیازات کی بنا پر اپنے کو سب سے افضل و برتر سمجھ رہی تھی عیسائیت حضرت مسیح ؑ کی تعلیمات سے کوسوں دور خاموشی سے اپنے مفاد پرست طرز عمل کا پرچار کر دہی تھی اور کفرو بت پرستی کا بول بالا تھا خدائی افراد یا گوشہ نشینی یا انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے کمزور عوام کا خون چوسا جا رہا تھا اور گویا پوری انسانیت سسک رہی تھی سب کو انتظار تھا ایک انقلاب ایک نجات دھندہ ایک روحانی طاقت اور ایک الٰہی نمائندہ کا۔ ہر آنکھ پرنم ہر دل مضطرب ہر نگاہ بے چین ہر زبان ملتجی ہر مصیبت زدہ سراپا انتظار ۔

اچانک سر زمین مکہ پر ایک نور چمکا جس کی ضیاء پاشیوں سے دنیا منور ہو گئی اس نور کی عظمت کے سامنے اس وقت کی دو بڑی طاقتوں قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں زلزلہ کے آثار نمودار ہوئے دریائے ساوہ خشک ہو گیا ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے ٹوٹ کر گر پڑے دنیا کو امید کی ایک کرن نظر آئی لیکن ابھی انتظار باقی تھا کمالات کے اظہار کا نجات دینے والے مشن کی ابتدا کا بچپنے میں دودھ پلانے کی ذمہ داری دایہ حلیمہ سعدیہ کے حصہ میں آئی آپ کی وجود کی برکت سے علاقہ کی خشک سالی دور ہو گئی گویا ابتدا ہی سے برکتوں کا اظہار ہونے لگا ۔

دن گذرتے رہے انوکھا کردار منفرد طریقہ کار سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا بروں کے درمیان ہے اور اچھا ہے جھوٹوں کے درمیان ہے اورسچا ہےبے ایمانوں کے درمیان ہے اور امانتدار ہے بت پرستوں کے درمیان ہے اور یگانہ پرست ہے آخر اس میں کون سا کمال کون سی خصوصیت ہے گھر والے تربیت کرنے والے مطمئن ہیں اس لئے بھی کہ اس آئین پاک سے متعلق ہیں جہاں کفر و معصیت کا گذر نہیں لیکن ایسے ماحول میں بھی ایک نمایاں کردار گویا اپنی خاموشی میں بھی ایک پیغام دے رہا تھا عزم و حوصلہ بتا رہا تھا کہ کوئی نیا کارنامہ انجام پانے والا ہے شاید اسی لئے عبدالمطلب جیسےخدا پرست نے تربیت کے لئےابوطالب جیسےہمدردمخلص ،ہوشیار ،محافظ سرپرست کی ضرورت سمجھی تھی اور جناب ابوطالب بھی اپنی ساری مصروفیات پر اس فرزند کی حفاظت اور حمایت کو ترجیح دیتے تھے دیکھتے ہی دیکھتے سن مبارک ۱۲؍سال ہو گیا اور شام کا سفر در پیش ہوابحیرہ نے دیکھاتو دیکھتے ہی پہچان گیا ہو بہو وہی علامتیں وہی خدو خال وہی صورت وہی کردار آخر جناب ابوطالب کو تنہائی میں لے جا کر کہنے لگا اس کی حفاظت کا خاص اہتمام کیجئے ۔شاید اسے نہیں معلوم تھا کہ اس طویل سفر میں اپنے سے جدا نہ کرنے کا اصل سبب آپ کی حفاظت و حمایت ہی ہے اور نور نبوت جو بحیرہ نے آج دیکھا ہے اس کا مشاہدہ جناب ابوطالب کی دوررس نگاہیں ابتدا ہی سے کر رہی ہیں سفر تمام ہوا اور پھر ۲۵؍سال کی عمر میں دوسرا سفر ہوا اس مرتبہ قافلہ تجارت کی سر براہی خود اپنے ہی ہاتھ میں تھی تجارت کاایساپسندیدہ انداز اپنایا کہ خریدار بھی خوش اور فائدہ بھی زیادہ

ملیکہ العرب جو اپنے پاکیزہ کردار کی بنیاد پر پہلےسےمتاثر تھیں اس طرح کے مشاہدہ کے بعد اور زیادہ متاثر ہو گئیں اور جن کے لئے بڑے بڑے ثروت مندان عرب اپنے رشتے لئے حاضر تھے انہوں نے رسم عرب کے بر خلاف خود ہی رشتہ بھیج دیا قدرت نے دو پاکیزہ دلوں کو ایک کر دیا اور اس طرح ایک نئے پاک و پاکیزہ گھر کی بنیاد پڑی خداوند کریم کے کرم پاکیزہ رشتہ بار أور ہوا بیٹوں کی ولادت سے صحن خانہ میں بہار أیی لیکن منشاء الٰہی کہ وہ بت جلد خزاں کی نذر ہو گئے ۔قدرت نے ایک اور حسین انتظام کیا

اپنے نبی کے گھر کی رونق بڑھانے کے لیےاپنے گھر سے نمائندہ بھیجا رسول خود بنفس نفیس خانہ کعبہ سے اپنا بھائی ،عزیز اور محبوب لے کر آئےجناب ابوطالب سے قربت اور اپ سے ان کی محبتوں کا تقاضہ تھا کہ انھوں نے اپنے بعد بھی اپنے عزیز بھتیجے اور نبی رحمت کے لئے محافظ فراہم کر دیا مصروفیتیں بڑھتی گئی غار حرا کی بلندیاں خلوت و عبادت کا مرکز قرار پائی جہاں کبھی تنہا اور کبھی اپنے عزیز ابن عم کے ساتھ مدتوں عبادت کرتے اچانک وحی نے آکر اس عظیم پیغام ہدایت کا مژدہ سنایا کچھ عرصہ خاموشی سے ہدایت کا پیغام پہنچایا اور پھر ’’اقربا‘‘ کو بلا کر علی الاعلان پیغام ہدایت سنایا جس میں اپنے بعد کی اس پیغام کے ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ کر دیا گویا ابھی سے بتا دیا کہ کوئی خلافت و قیادت کی لالچ میں ایمان نہ لاتے یہ منصب اسی خدا کی طرف سے عطا کردہ ہے جس نے مجھے نبی بنایا ہے ۔

۱۳؍سال مکہ میں تبلیغی کارنامہ انجام دینے کے بعد جناب ابوطالب جیسے حامی کی وفات پر وہاں کے افراد کی طرف سے قتل کی سازش پر راتوں رات مکہ سے مدینہ ہجرت کی اس موقع پر بھی اپنے جانشین کو امانتیں پہنچانے کا ذمہ دار بنا کر اپنے بستر پر سلایا۔

مدینہ پہنچ کر دائرہ اسلام میں آنے والوں کا اضافہ ہوتا رہا اگر چہ خطرات بھی بڑھتے رہے مدینہ کی زندگی میں تقریباً ۸۰؍جنگیں لڑنا پڑیں لیکن آخر خدائی پیغام کی برتری ثابت ہوئی مکہ فتح ہوگیا حاجیوں کے درمیان میدان منیٰ میں مشرکین سے برأت اور ان پر عرصہ حیات تنگ ہونے کا پیغام سنا دیا گیا اور آخر کار آخری حج کے موقع پر حکم الٰہی کے مطابق اپنے بعد کے لئے اپنے جانشین کا اعلان بھی کر دیا گیا اور پھر آہستہ آہستہ وہ وقت بھی آگیا جب مرض الموت لاحق ہوانے اس موقع پر بھی اپنے بعد اپنے دین کی حفاظت کی فکر دامن گیر ہوئی تو قلم و کاغذ مانگا لیکن مفاد پرست فتنہ پرور اذہان کی سازشوں اور بدکلامیوں سے یہ آواز خاک میں مل گئی اگرچہ ایک بار پھر زبانی حدیث مبارکہ ثقلین کی صورت میں اپناآخری پیغام پہنچا دیا۔

البتہ اس موقع پر لشکر اسلام کی قیادت اسامہ ابن زید کے حوالہ کرکے تمام اصحاب کو تاکید فرمائی کہ اس لشکر میں شامل ہوں اور مخالفت کرنے والوں کی مذمت بھی کی پھر بعض اصحاب نے آپ کی مخالفت کی اور اس لشکر میں شامل ہوکر سفر کرنےپرراضی نہیں ہوئے آخر کار پھر سلسلہ وحی منقطع ہوگیا خدا کا محبوب دنیاوی مصائب و مشکلات سے نجات پا کر اپنے محبوب کی بارگاہ میں پہنچ گیالیکن جاتے جاتے غربت و بے کسی کی مثال چھوڑ گیاپروانہ کی طرح گرد گھومنے والے اصحاب جنازہ کو چھوڑ کر حکومت و خلافت کی بیٹھک میں شامل ہوئے اور خدائی نامزد امیدوار کا انتظار بھی نہ کیا اور آخر الٰہی نمائندگی کے طویل سلسلہ کے بعد خود ساختہ قیادت کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا نتیجہ تعلیمات قرآن سے دوری اور پھر حیرت و سرگردانی کے علاوہ اورکیا ہو سکتا تھا ۔

یہیں سے مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے کچھ نے خود ساختہ خلافت کی حمایت میں اپنا مفاد سمجھا تو کچھ خدا کی طرف سے معین امام معصوم سے وابستگی میں اپنی نجات سمجھنے لگے پھر دونوں سلسلے آگے بڑھتے گئے اور تاریخ اسلام کے چودہ سوسال میں اسلام پر کیا کچھ گذرا وہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے بنت رسول ؐ کو آزار و اذیت , جانشین رسولٔ کو ستایا جانا ان سے جنگیں سبط اکبر امام حسن ؑ کو زہر اور رسولٔ کے چھوٹے نواسے امام حسین ؑ کی کربلا کے میدان میں المناک شہادت ۔

کیا کوئی انصاف پسند اس تاریخ پر نظر ڈالنے کے بعد یہ بتا سکتا ہے کہ رسول اسلام ان دونوں گروہوں میں سے کس کے ساتھ ہوں گے اور کون ان کی بارگاہ میں سرخرو ہوگا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .