۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 377887
28 فروری 2022 - 16:35
فیروز

حوزہ/ دنیا میں رسول خدا (ص) کی آمد اورآپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے عرب کے معاشرہ کی جو صورت حال تھی وہ خود اس کے نام سے واضح و روشن ہے کہ اس دور کو دور جاہلیت کا نام دیا گیا ہے یعنی ایک ایسا دور کہ جس میں برے آداب اور ناپسندیدہ رسومات کا دور دورہ تھا اور لوگ علم و آگہی سے دوری کی بنا پر طرح طرح کی برائیوں اور خرافات میں مبتلا تھے۔

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین فیروز علی بنارسی

حوزہ نیوز ایجنسی دنیا میں رسول خدا (ص) کی آمد اورآپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے عرب کے معاشرہ کی جو صورت حال تھی وہ خود اس کے نام سے واضح و روشن ہے کہ اس دور کو دور جاہلیت کا نام دیا گیا ہے یعنی ایک ایسا دور کہ جس میں برے آداب اور ناپسندیدہ رسومات کا دور دورہ تھا اور لوگ علم و آگہی سے دوری کی بنا پر طرح طرح کی برائیوں اور خرافات میں مبتلا تھے۔
یوں تو عرب کے دور جاہلیت میں بہت سی برائیاں اور بہت سے خرافات رائج تھے مگر یہاں پر ان میں سے چند برے اور نا پسندیدہ آداب و رسوم کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ نبی اکرم (ص) کس ماحول و معاشرہ میں مبعوث ہوئے تھے اور آپ نے اس دور کے لوگوں کو انسان بنانے میں کتنی زحمتیں اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔
۱۔بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا
بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا ان کی ولادت کے چند برسوں بعد تک بھی رائج تھا اور یہ برا عمل عرب کے بعض قبیلوں جیسے بنی تمیم، بنی قیس، بنی اسد، بنی ہذیل ، بنی بکر بن وائل اور بنی کندہ میں زیادہ رائج و مشہور تھا۔
(مجمع البحرین ج۳ ص ۱۵۳)
تاریخ میں آیا ہے کہ دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں وضع حمل کا وقت آتا تو شوہر ایک گڈھا کھود کر اس کے پاس بیٹھ جاتا، اگر نوزاد لڑکی ہوتی تو اس گڈھے میں ڈال کر دفن کر دیتا اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ رکھتا تھا۔
(مجمع البیان ج۱۰ ص ۶۷۴)
اس سلسلہ میں تاریخ میں بہت سے دردناک اور تعجب خیز واقعات ہیں۔ صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
۱۔ شاعر اہل بیت علیہ السلام جناب فرزدق کے دادا صعصعہ بن ناجیہ مجاشعی کے حالات میں آیا ہے کہ وہ ایک آزاد خیال شخصیت اور بزرگ مرتبت انسان تھے اور وہ دور جاہلیت کے بہت سے برے آداب و رسوم سے مقابلہ کرتے تھے۔ منقول ہے کہ ایک دن وہ رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے ایک واقعہ نقل کیا اور کہا:
جوانی کے دنوں میں میرے دو اونٹ گم ہو گئے تھے، میں ان دونوں کی تلاش میں ایک اونٹ کے ساتھ بیابان کی طرف گیا، ایک خیمہ کے پاس پہنچا۔ وہاں پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ پہنچنے پر میں نے اس سے اونٹوں کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا: ان اونٹوں کی نشانی کیا ہے؟ میں نے کہا: ان دونوں پر میرے قبیلہ کی نشانی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے ان اونٹوں کو پایا ہے اور فی الحال وہ میرے پاس ہیں۔ اس طرح میں نے اپنے اونٹوں کو اس کے پاس پایا۔ اسی وقت ایک ضعیفہ جو گویا اس کی ماں تھی، رنجیدہ حالت میں خیمہ سے باہر آئی، اس آدمی نے اس سے پوچھا : کیا جنا ہے؟ میں اس کے سوال سے سمجھ گیا کہ خیمہ کے اندر ایک عورت ہے جو وضع حمل کی حالت میں ہے۔ اس سوال کے بعد اپنی ماں کے جواب کا انتظار کئے بغیر بولا: اگر لڑکا ہے تو وہ مال و زندگی میں ہمارا شریک ہے اور ہمارا وارث بھی ہوگا اور اگر لڑکی ہے تو میں اسے زندہ دفن کر دوں گا۔ اس کی ماں نے جواب دیا: لڑکی ہے۔ وہ آدمی غصہ میں بولا: دیر نہ کرو ، اسے دفن کر دو۔
صعصعہ نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا:
یا رسول اللہ(ص)! اچانک میرے اندر ایک انقلاب پیدا ہوا اور میری عطوفت و مہربانی نے مجھ پر دباؤ ڈالا، میںنے اس آدمی سے کہا: کیا تو اس لڑکی کو میرے ہاتھ بیچے گا؟ اس نے کہا کہ کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں یہ سنا ہے کہ اس نے اپنی اولاد کو بیچا ہو اور اس ننگ و عار کو برداشت کیا ہو۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ بیچ مت بلکہ اس احسان اور تحفہ کے بدلے میں جو میں تجھے عطا کر رہا ہوں لڑکی کو مجھے بخش دے۔ اس نے کہا: میں تیار ہوں۔ وہ دوا ونٹ اور یہ ایک اونٹ جس پر میں سوار تھا ، میں نے اس کو دے دیا۔
میں نے اس کو تینوں اونٹ دئے اور لڑکی کو لے کر آیا اور دایہ کے حوالے کر دیا تاکہ اسے پروان چڑھائے۔یہ واقعہ لوگوں کے سامنے بیان ہوا اور میری شہرت کا سبب بن گیا اور اس واقعہ کے بعد جس کے یہاں بھی لڑکی پیدا ہوتی یہ تجویز میرے سامنے پیش کی جاتی میں نے اپنے اس طریقۂ کار کو نہیں چھوڑا۔ اس وقت تک میں نے دو سو اسی لڑکیوں کو اور ہر ایک کو تین اونٹ سے بدل کر موت سے نجات دلائی ہے۔ یہاں میرا یہ عمل فائدہ مند ہوگا؟
رسول خدا (ص) نے فرمایا:
تمہارا یہ عمل نیکی کی طرف ایک دروازہ ہے اور اس کا اجر و ثواب بہت عظیم ہے اس لئے کہ اس پسندیدہ روش اور طریقۂ کار کی برکت سے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔
(قاموس الرجال ،ج۵ ص ۱۲۵)
ایک شخص رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد کہا:
اگر میں نے کوئی گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟
آپ نے فرمایا: خدا تواب (بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والاہے) اور رحیم ہے۔
اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! میرا گناہ بہت بڑا اور عظیم ہے۔
آپ نے فرمایا: تجھ پر وائے ہو! تیرا گناہ چاہے جتنا بڑا ہو، خدا کی عفو و بخشش اس سے کہیں بزرگ ہے۔ اس نے عرض کیا: جب آپ یہ فرما رہے ہیں تو جان لیجئے کہ دور جاہلیت میں ایک بار میں ایک دوردراز سفر پر گیا ہوا تھا۔ اس وقت میری بیوی حاملہ تھی، جب میں چار سال کے بعد واپس آیا تو میری بیوی استقبال کے لئے آئی تو میں نے دیکھا کہ میرے گھر میں ایک بچی بھی ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کس کی بچی ہے؟ بیوی نے کہا: ایک پڑوسی کی بچی ہے ۔ میں نے سوچا کہ ابھی کچھ دیر بعد وہ اپنے گھر چلی جائے گی لیکن میں نے تعجب سے دیکھا کہ وہ اپنے گھر نہیں گئی۔ میں اس بات سے بے خبر تھا کہ وہ میری ہی بچی ہے اور اس کی ماں اس بات کو مجھ سے چھپا رہی ہے تاکہ میں اسے قتل نہ کروں۔ آخر کار میں نے بیوی سے کہا کہ سچ بتا کہ یہ کس کی بچی ہے؟ بیوی نے کہا: آپ کو یاد ہے کہ جب آپ سفر پر گئے تھے تو میں حاملہ تھی ۔ یہ وہی بچی ہے اور آپ کی بیٹی ہے۔ میں رات بھر پریشان رہا ، کبھی سوتا تھا تو کبھی اچانک جاگ جاتا تھا۔ سویرا ہونے ہی والا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور بچی کے بستر کے پاس گیا ۔ وہ اپنی ماں کے پاس سو رہی تھی۔ اسے بستر سے اٹھا کر جگایا اور کہا: میرے ساتھ کھجور کے باغ میں چلو۔ بچی میرے پیچھے پیچھے چلنے لگی یہاں تک کہ ہم لوگ اس باغ میں پہنچ گئے۔ میں ایک گڈھا کھودنے لگا اور وہ مٹی نکالنے میں میری مدد کرنے لگی۔ جب گڈھا تیار ہو گیا تو میں نے اسے اٹھا کر گڈھے میں ڈال دیا۔ اس وقت نبی اکرم (ص) کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
اس کے بعد میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے شانے پر رکھا تاکہ وہ گڈھے سے نکلنے نہ پائے اور داہنے ہاتھ سے اس پر مٹی ڈالنے لگا۔ وہ برابر ہاتھ پیر مار رہی تھی اور فریاد کر رہی تھی کہ بابا جان! آپ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ اسی وقت ذرا سی مٹی میری داڑھی میں لگ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور میرے چہرے کو صاف کیا لیکن پھربھی میں سنگ دلی کے ساتھ اس پر مٹی ڈالتا رہا یہاں تک کہ اس کے آخری فریادیں بھی مٹی کی تہہ کے نیچے دب گئیں۔
اس وقت رسول خدا (ص) بہت ناراض و غمگین ہوئے اور آنکھوں سے آنسو کو صاف کیا اور فرمایا:
اگر خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت نہ کئے ہوتی تو لازم تھا کہ جلد از جلد تجھ سے انتقام لے لیتا۔
(تفسیر نمونہ،ج۱۱ص۲۷۲)
۲۔خدا کی عبادت و پرستش کا طریقہ
برے اور نا پسندیدہ اعمال کا رواج عرب کے دور جاہلیت میں اس قدر زیادہ تھا کہ وہ عبادت کو بھی نہایت برے اور ناپسندیدہ انداز میں منعقد کرتے تھے جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے:
اما کان صلاتہم عند البیت الا مکاء و تصدیۃ
ان کی تو نماز بھی مسجد الحرام کے پاس صرف تالی سیٹی ہے۔
(انفال؍۳۵)
عربوں نے دور جاہلیت اسلام سے پہلے خانۂ کعبہ کو بتوں کا مرکز بنا رکھا تھا اور اپنی عبادتوں کو اسی کے ارد گرد انجام دیتے تھے۔البتہ کسی حد تک دین ابراہیمی کے کچھ احکام وہ بھی حج کے سلسلہ میں ان کے یہاں باقی رہ گئے تھے مگر وہ بھی طرح کے طرح خرافات سے آلودہ تھے مثلاً وہ اعمال حج و احرام کو شروع کرتے وقت اس طرح سے تلبیہ کہتے تھے۔
لبیک اللہم لبیک لا شریک لک الا شریک ہو لک تملکہ و ما ملک
خدایا! میں نے تیری دعوت کو قبول کیا، تیرا کوئی شریک نہیں ہے سوائے اس شریک کے جسے تونے بنایا ہے اور تو اپنے شریک کا اور اس کے پاس جو کچھ ہے سب کا مالک ہے۔
وہ ایک طرف خدا کے شریک کا انکار کرتے تھے اور دوسری طرف بتوں کو خدا کا شریک مان کر ان کی پرستش کرتے تھے۔
جب وہ طواف کے لئے خانۂ کعبہ کی طرف آتے تھے تو کعبہ سے سو قدم پہلے ہی سے اجتماعی طور پر پیر پٹختے ، تالیاں بجاتے اور سیٹی بجاتے تھے۔
(جاہلیت و اسلام ،ص ۲۸۶)
قبیلۂ قریش کے بت پرستوں نے کعبہ کی زعامت اور مکہ کی ریاست کو قبیلۂ خزاعہ اور اہل یمن کے ہاتھوں نکال کر اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد اپنی برتری کے لئے انہوں نے بہت سی بدعتیں ایجاد کیں نمونہ کے طور پر وہ کہتے تھے کہ چونکہ ہم لوگ فرزند اسماعیل، اہل حرم، کعبہ کے محافظ اور مکہ کے رہنے والے ہیں لہٰذا ہمیں عرب کے دیگر قبیلوں پر برتری حاصل ہے اور کوئی بھی ہمارے برابر نہیں ہے۔ پس ہمارے اعمال و مناسک حج کو لوگوں کے اعمال حج سے بالکل الگ ہونا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم حرم سے خارج نہیں ہوں گے اور عرفات میں وقوف نہیں کریں گے۔ انہوں نے برتری حاصل کرنے کے لئے بہت سی خاص قسم کی غذاؤں کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور یہ طے کیا کہ وہ حمس نامی مشہور لباس میں طواف کریں گے اور اگر کوئی کسی اور لباس میں طواف کرے گا تو اسے چاہئے کہ طواف کے بعد لباس کو اتار کر پھینک دے۔ اب نہ وہ اس لباس کو پہن سکتا ہے اور نہ کوئی دوسرا۔ اگر کسی کے پاس لباس حمس نہ ہوتا یا اپنے لباس کو پھینکنا نہیں چاہتا تو اسے ننگے طواف کرنا چاہئے۔ اس دستور العمل کے بعد اکثر مرد و عورت جن کے پاس لباس حمس نہ ہوتے اور وہ اپنے لباس کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوتے تو وہ ننگے طواف کرتے اور کبھی کبھی ننگی عورتیں مردوں کے ساتھ طواف کرتیں اور دوران طواف برے اور شہوت انگیز اشعار پڑھتے کہ جن کا نقل کرنا شرمناک ہے۔
۳۔ بدکاری اور شراب خوری
ایک برا اور ناپسندیدہ عمل کہ ذرا سے غور و فکر کے ذریعہ ہر عقلمند انسان اس کی برائی کو سمجھ جاتا ہے۔ شراب خوری اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال ہے۔ اس لئے کہ انسان کے سارے حیوانات پر امتیاز اور برتری کا ذریعہ اس کی عقل ہے اور شراب عقل سے عارضی محرومیت کا سبب بنتی ہے اور انسان کو مقام انسانیت سے جانوروں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔
تاریخ جاہلیت کے مطالبہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ناپسندیدہ عمل دیگر برے کاموں کی طرح عربوں میں اس حد تک رائج و مشہور ہے کہ کچھ تو اسلام آنے کے بعد کئی برسوں بعد تک اس سے دست بردار نہ ہو سکے یہاں تک کہ قرآن نے شدت سے اس سے منع فرمایا۔ گویا اس زمانہ میں بھی لوگ اس کو قبیح اور برا نہیں سمجھتے تھے اور مستی کی حالت میں مسجد میں اور نماز جماعت میں شریک ہو جاتے تھے اسی لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ لا تقربوا الصلوٰۃ و انتم سکاریٰ۔
علامہ امینیؒ نے عالم اسلام کے عظیم المرتبت مفسر قرآن جار اللہ زمخشری سے نقل کیا ہے کہ ایک دن عمر ابن خطاب نے شراب پی، اونٹ کی ہڈی اٹھائی اور عبد الرحمن کے سر پر دے مارا، اس کے بعد وہیں بیٹھ گیا اور جنگ بدر میں مارے جانے والے کافروں پر رونے لگا اور اسود بن یعفر کے کفر آمیز اشعار پڑھنے لگا۔
و کائنی بالقلیب قلیب بدر
من الفیان والعرب الکرام
اور تھے بدر کے کنویں کے پاس جوانوں میں سے اور عرب کے با شرف لوگوں میں سے۔
یہاں تک آیا کہ
الا من مبلغ الرحمن عنی
بانی تارک شہر الصیام
فقل للہ یمنعنی شرابی
و قل للہ یمنعنی طعامی
کون ہے جو خدا کو یہ خبر دے کہ میں نے ماہ رمضان کے روزے کو چھوڑ دیا ہے پس خدا سے کہہ دو کہ مجھے شراب پینے سے روک دے اور خدا سے کہہ دو کہ مجھے کھانا کھانے سے رو ک دے۔
اس ماجرے کی خبر آنحضرت کو ہوئی تو آپ غضبناک گھر سے باہر آئے اس طرح کہ آپ کی ردا زمین پر کھنچتی جا رہی تھی اور آپ کے دست مبارک میں جو تھا وہ عمر کو دے مارا۔ عمر نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں اس کے غضب سے اور اس کے رسول (ص) کے غضب سے۔
۴۔غذائیں، حفظان صحت اور نظافت
انسانی زندگی کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ کھانے پینے، حفظان صحت اور صفائی ستھرائی ہے اس لئے کہ یہ چیزیں بدن کی سلامتی اور نتیجہ میں روح کی سلامتی سے ان کا براہ راست رابطہ ہے۔
آلودہ ماحول و معاشرہ جن میں حفظان صحت کے اصول کی رعایت نہیں کی جاتی اس میں طرح طرح کی بیماریاں اور مشکلات دکھائی دیتی ہیں اسی لئے حکومت اس مسئلہ پر کافی توجہ دیتی ہیں اور سنہری زندگی میں ان چیزوں کی رعایت زیادہ ہوتی ہے اس کے بر خلاف جو لوگ دیہاتوں اور بیابانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ شہری لوگوں کی طرح حفظان صحت کے اصول و قوانین کے مطابق زندگی نہیں گذارتے ہیں۔ اب اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دور جاہلیت میں عرب جو بیابانوں، صحراؤں اور خیموں میں زندگی بسر کرتے تھے وہ کس حد تک حفظان صحت کی رعایت کرتے رہے ہوں گے؟
اس سلسلہ میں صرف دو خطوط اور مختصر وضاحت پر اکتفا کرتے ہیں:
پروردگار عالم نے حضرت محمد مصطفی (ص) کو مبعوث برسالت کیا کہ دنیا والوں کو ڈرائیں اور اس کی آیتوں کے امین ہوں جب کہ تم عرب والے بد ترین دین وآئین پر تھے اور بد ترین سرزمین پر زندگی بسر کر رہے تھے۔ تم لوگ سخت پتھروں اور بہرے سانپوں کے درمیان رہتے تھے۔ آلودہ پانی پیتے تھے اور ناگوار غذائیں کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنے تعلقات اور رشتہ داریوں کو قطع کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان نصب تھے اور گناہ تمہارے پورے وجود کو گھیرے ہوئے تھے۔
(نہج البلاغہ ،خ ۲۶)
صدیقۂ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا(ص) فرماتی ہیں:
اس زمانہ میں تم لوگ جہنم کے دہانے پر تھے اور افراد کی تعداد میں کمی کی وجہ سے پیاسے کے لئے ایک گھونٹ پانی کی طرح یا بھوکے کے لئے ایک لقمہ کے مانند یا آگ کی تلاش میں نکلنے والے کے لئے ایک شعلۂ آتش کی مثل تھے اور لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں کے نیچے پامال ہو رہے تھے۔
اس زمانے میں تمہارے پینے کا پانی بدبو دار اور گندہ تھا اور تمہاری خوراک درختوں کے پتے تھے، تم ذلیل و خوار تھے اور ہمیشہ اس بات سے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں طاقتور دشمن تمہیں اچک نہ لے جائیں اور نگل نہ لیں۔
لیکن خدائے تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی (ص) کی برکت سے ان تمام ذلت و خواری اور نا توانی کے بعد نجات عطا کی۔
عظیم المرتبت شارح نہج البلاغہ علامہ میرزا حبیب اللہ خوئی علیہ الرحمہ منہاج البراعہ میں حضرت علی علیہ السلام کے مذکورہ خطبہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
عربوں کا پینے کا پانی
ان کا پانی عام طور سے بیابانوں میں موجود کنوؤں اور گڈھوں میں سے تھا کہ جن میں پانی جمع ہو جاتا تھا۔ گڈھوں میں موجود پانی وہی بارش کا پانی ہوتا تھا جو نمکین اور خشک زمینوں سے آتا تھا اسی لئے وہ تلخ اور کھارا ہوتا تھا اور چند دن گذرنے کے بعد دھوپ کی وجہ سے بدبودار اور گندہ ہو جاتا تھا۔
کنویں کا پانی بھی کھارا اور تلخ پانی ہوتا تھا جو شورہ زار اور نمکین زمینوں پر بارش کے پانی کے بہنے سے اس میں گرتا تھا اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ قافلے کنویں کے پاس آتے تھے اور وہاں پڑاؤ ڈالتے تھے۔ وہیں پر قضائے حاجت وغیرہ بھی کرتے، گندگی پھیلاتے ، اونٹ اور دوسرے جانوروں کے فضلات وغیرہ بھی ہوا چلنے اور بارش کے پانی وغیرہ کی وجہ سے کنویں میں گر جاتے جس کے نتیجہ میں پانی گندہ اور بدبودار ہو جاتا تھا۔
ہم بھی مکہ کے سفر میں جب کہ گرمی کا موسم اور حجاز کی سخت گرمی تھی کبھی کبھی ایک دن یا دو دن پیاس کو برداشت کرتے اور پینے کے پانی کے بہت زیادہ آلودہ ہونے کی وجہ سے اسے نہ پیتے تھے۔ اس کے بجائے سکنجین اور دوسری اس دور کی چیزوں سے استفادہ کرتے تھے۔
عربوں کا کھانا
عربوں میں سے زیادہ تر لوگ لوگوں جانوروں کے شکار کے باقی بچے حصے کو کھاتے تھے اور بعض لوگ جو اور کھجور کی گٹھلیوں کو ایک ساتھ پیس کر روٹی پکاتے تھے۔ منقول ہے کہ عرب پاکیزہ اور لذیذ کھانے کو نہیں پہچانتے تھے اور معاویہ کے زمانہ تک ان کا سب سے اچھا اور لذیذ کھانا بھنا ہوا گوشت، پانی اور نمک کے ساتھ تھا۔ معاویہ وہ پہلا آدمی تھا جس نے رنگ برنگے کھانے پکوائے۔
ابو بردہ کا بیان ہے کہ میں نے سن رکھا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ جو روٹی کھائے گا وہ موٹا ہو جائے گا۔جب ہم نے خیبر کو فتح کیا اور وہاں یہودیوں کے دستر خوان پر روٹی دیکھی، ان کی روٹیاں کھانے کے بعد میں اپنے دونوں پہلو کو دیکھ رہا تھا کہ میں موٹا ہوا کہ نہیں!؟
دور جاہلیت کے عرب نہ صرف یہ کہ روٹی تک رسائی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ روٹی کو پہچانتے بھی نہیں تھے۔ یہاں تک کہ منقول ہے کہ ایک آدمی نے ایک روٹی پر چند بوٹیاں رکھ کر ایک عرب کو دیں ، وہ گوشت کھا گیا اور روٹی کو واپس کر دیا اور کہا کہ اس سینی کو واپس لے لو۔
اس طرح کے واقعات بعید نہیں لگتے اس لئے کہ جن علاقوں میں آب جاری نہیں تھا اور نہ ہی نہر اور چشمہ تھے تو واضح سی بات ہے کہ وہاں پر کھیتی نہیں دکھائی دے گی اور وہ لوگ صرف یہی نہیں کہ روٹی نہیں پہچانتے تھے بلکہ غذاؤں کی مختلف قسموں سے بھی نا بلد تھے۔
خالد ابن عمیر العدوی کا بیان ہے کہ ایک لشکر کشی میں ہم لوگ اخروٹ سے بھری ہوئی ایک کشتی سے رو برو ہوئے۔ ایک آدمی نے کہا کہ یہ پتھر کیا ہیں؟ اس کے بعد ایک نے اخروٹ کو توڑا اور کھایا اور کہا: یہ تو بہت اچھا کھانا ہے۔
ایک دوسرے شخص سے منقول ہے کہ ایک لشکر کشی میں لوگوں نے کافور سے بھری ایک مشک کو دیکھا وہ یہ سمجھے کہ نمک ہے۔ ذرا سا چکھنے کے بعد کہا: یہ نمک اپنے نمکین ہونے کو کھو بیٹھا ہے یعنی خراب ہو گیا۔
بعض چالاک لوگ جب اس واقعہ سے با خبر ہوئے تو وہ ایک مشک نمک دیتے اور اس کے بدلے میں ان سے ایک مشک کافور لے جاتے تھے۔
اس سے زیادہ عجیب و غریب بات تو یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عرب بہت بری اور کثیف غذائیں کھاتے تھے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ قبیلۂ بنی اسد کتے کا گوشت کھاتے تھے۔ اسی لئے فرزدق نے کہا ہے کہ:
اذا اسدی جاع یوم ببلدۃ
و کان سمینا کلبہ فہو آکلہ
جب قبیلۂ بنی اسد کا کوئی آدمی بھوکا ہوتا اوروہاں پر کوئی موٹا تازہ کتا ہوتا تو وہ اسے کھا جاتا۔
نیز آیا ہے کہ وہ مونڈے ہوئے بالوں کو تمام تر گندگیوں کے ساتھ آٹے میں گوند کر کھا جاتے تھے۔ان میں سے بعض تو چوہے کھاتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ چوہے کیوں کھاتے ہو تو وہ کہتے تھے کہ کیوں نہ کھائیں جب کہ چوہے ہمارے بہترین کھانوں کو کھاتے ہیں؟
قبیلۂ بنی تمیم گوہ کھانے میں مشہور تھا۔ ابونواس میں ان کی ہجو اور ملامت میں کہا ہے کہ:
اذا ما تمیمی اتاک مفاخراً
فقل عد عن ذا کیف اکلک للضب
جب کوئی تمیمی تمہارے سامنے فخر کرے تو اس سے کہو کہ تمہارا گوہ کا کھانا کیسا ہے؟
مشہور و معروف شاعر اصمعی سے منقول ہے کہ اس نے کہا:
ایک سفر کے دوران میں بیابان میں ایک خیمہ کے پاس پہنچا اور پیاسا ہونے کی وجہ سے وہاں کے ایک پیالے میں دودھ پی لیا۔ اس کے بعد میں نے پوچھا کہ کیا یہ پیالہ صاف تھا تو جواب دیا:ـ کیونکر صاف ستھرا نہ ہو کہ ہم دن میں اس میں کھانا کھاتے ہیں، رات میں پیشاب کرتے ہیں اور صبح اس میں اپنے کتے کو کھلاتے ہیں اور کتا اسے چاٹ کر صاف ستھرا کر دیتا ہے۔
اصمعی کہتا ہے کہ میں نے کہا:
تم پر اور تمہاری صفائی پر خدا کی لعنت ہو۔
تاریخ میں آیا ہے کہ ایک شخص نے کہا: میں ایک عرب کا مہمان ہوا اس نے میرے لئے سانپ کے گوشت کا کباب پکوایا اور گندے اور بدبو دار پانی کے ساتھ میرے پاس لایا۔ جب میں وہاں سے چلنے لگا تو اس نے کہا: کیوں کر جانے کے لئے تیار ہو گئے جب کہ میں نے تمہارے لئے اتنے لذیذ کھانے اور اتنے خوشگوار پانی کا انتظام کیا ہے؟!
(منہاج البراعہ ج۳ ص ۳۶۴-۳۶۶)
۵۔جہل و نادانی
دور جاہلیت کی تاریخ سے یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ چند گنے چنے لوگوں کے علاوہ پورا جزیرۃ العرب ان پڑھ اور جاہل و نادان تھا بلکہ ان کے درمیان علم و دانش اور تہذیب و تمدن نام کی کوئی شئے دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جہل و نادانی لوگوں پر مسلط تھی اور ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی جہل و جہالت کی وجہ سے پیدا ہونے والے آداب و رسوم اور تعصبات سے متاثرتھی اس لئے لفظ جاہلیت اس دور کے بگڑے ہوئے ماحول و معاشرہ کے لئے سب سے زیادہ مناسب لفظ ہے۔
دور جاہلیت کے عرب کے تہذیب و تمدن اور علم و دانش سے دوری کی سب سے بہترین نشانی ان کا پڑھنے لکھنے سے محروم ہونا ہے۔ اس لئے کہ اگر چہ ممکن ہے کہ انسان لکھے بغیر صرف پڑھ کر طلب علم میں اور حقائق سے روشناس ہونے میں قابل قبول ترقی کر لے لیکن پڑھنے لکھنے سے محرومیت کے بعد وہ علم و دانش میں ترقی سے بلا شک و شبہ محروم رہے گا ۔ اس لئے کہ گذشتہ اقوام کے تجربات اور ایک دوسرے تک معلومات کو نقل کرنے کا سب سے بہترین اور سب سے آسان طریقہ پڑھائی لکھائی ہے۔ lll

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .