۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
امام حسن عسکری

حوزہ/ امام حسن عسکری (ع) بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح سعی و کوشش کرتے تھے کہ آپ کی سیرت کامل طورپر سنتِ خدا اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو زنده کریں، حضرت (ع) کی عملی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خستگی ناپذیر اور بھرپور و پیہم کوشش کرتے تھے۔

جمع آوری: علامہ ڈاکٹر کرم علی حیدری المشہدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ابو محمد، حسن بن علی عسکری (ع) تیرہویں معصوم اور ہم شیعوں کے گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کے نام سے معروف ہیں اور شیعہ حضرات انہیں ان کے والد ماجد امام علی نقی (ع) کے ساتھ امامین عسکریین سے یاد کرتے ہیں اس لئے کہ یہ حضرات، عباسی خلفاء کے زیر نظر لشکری شہر سامرہ میں " عسکر" نامی جگہ میں زندگی بسر کررہے تھے ۔

اکثر شیعہ اثنا عشری منابع میں آپ کی ولادت باسعادت کو ربیع الاول سنہ 230 ہجری بمطابق نومبر سنہ 8۴۴ عیسوی میں لکھا ہے ۔ لیکن شیخ کلینی قدس سرہ نے اپنی کتاب اصول کافی میں رمضان المبارک سنہ 232 ہجری بمطابق اپریل سنہ 8۴7 عیسوی میں ذکر کیا ہے آپ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی مادر گرامی کا نام حدیث ہے بعض منابع میں ان کا نام سلسیل اور دوسرے بعض ماخذ میں سوسن نقل کیا گیا ہے، یہ خاتون اپنے زمانے میں دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر تھیں اور انہیں فرزند پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیّت کا شرف ملا ہے اپنے آبائی وطن میں شہزادی تھیں، امام علی نقی (ع) نے ان کے بارے میں فرمایا ہے: سلیل ہر قسم کی آفت، پلیدی اور آلودگی سے دور ہیں ۔[1]

نام، القاب اور کنیت :
ان کا نام حسن، کنیت ابو محمّد اور ان کا القاب صامت، زکی، خالص، نقی، ہادی اور رفیق ہے آپ شیعوں کے درمیان ابن الرضا (شیعوں کے آٹھویں امام) سے مشہور ہیں ۔ حضرت کا لقب بھی ان کے والد ماجد کی طرح عسکری تھا اور یہ لقب سامرہ کی عسکر نامی جگہ سے لیا گیا ہے ۔

حضرت امام حسن  (ع) عسکری کی سیرت
۱ ۔ امام (ع) کی عملی سیرت:

امام حسن عسکری (ع) بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح سعی و کوشش کرتے تھے کہ آپ کی سیرت کامل طورپر سنتِ خدا اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو زندہ کریں، حضرت (ع) کی عملی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ خستگی ناپذیر اور بھرپور و پیہم کوشش کرتے تھے کہ اس اہم مقاصد میں کامیاب رہیں اور سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قائم و باقی رکھیں، ہم اس وقت ان کی عملی سیرت کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں :

1- محمد ابن حمزہ سروری کا بیان ہے: میں نے ایک خط اپنے دوست ابو ہاشم داؤد بن ہاشم جعفری کے واسطہ سے امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں لکھا ۔

چونکہ میں بہت زیادہ تنگدست اور مفلس ہوگیا تھا اس لئے اپنے لئے ان سے دعا کی درخواست کی، شاید خداوند عالم مجھے وسعت رزق عنایت کرے، حضرت (ع) کی طرف سے میرے خط کا جواب ابوہاشم کے ذریعہ پہنچا ۔

امام (ع) نے لکھا تھا: " خداوند عالم نے تمہیں بے نیاز کردیا ہے تمہارے چچا زاد بھائی یحییٰ ابن حمزہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، ایک لاکھ درہم تمہیں میراث میں ملے گا اور عنقریب اسے تمہاری خدمت میں لائیں گے، خدا کا شکر ادا کرو، لیکن اس چیز کی طرف متوجہ رہو کہ اپنی زندگی میں میانہ روی و اعتدال سے کام لو، ایسا نہ ہو کہ فضول خرچی سے کام لو اس لئے کہ فضول خرچی شیطان کا کام ہے ۔

چند دنوں کے بعد حران سے ایک آدمی کچھ اسناد و دستاویز لے کر میرے پاس آیا جس میں میرے چچا زاد بھائی کی جائیداد درج تھی اس کو میرے حوالہ کیا ۔

اس کے علاوہ ایک خط اس کے ساتھ ضمیمہ کیا ہوا تھا اس میں اطلاع دی تھی کہ یحییٰ بن حمزہ کا انتقال فلان تاریخ میں ہوا ہے ۔ وفات کی تاریخ بالکل اس دن کے مطابق تھی کہ جو امام حسن عسکری (ع) نے خط میں لکھا تھا، میری تنگدستی و مفلسی ختم ہوگئی اور اس مال میں جو الٰہی حقوق تھے میں نے انہیں نکال کر مستحقین تک پہنچایا اور اپنے دینی بھائیوں کی بھی امداد کی، اس کے بعد امام (ع)  کے فرمان کے مطابق میانہ روی و اعتدال کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا رہا ۔[2]

2- ابو جعفر محمد ابن عیسیٰ کہتے ہیں: ایک بار میں نے مسجد زبید میں جو شہر سامرہ کے بازار میں واقع تھی، ایک جوان کو دیکھا کہ وہ کہہ رہے ہیں، ہاشمی اور موسیٰ بن عیسیٰ کی اولاد میں سے ہے ۔ میں نماز میں مشغول ہوگیا اور جب نماز تمام ہوئی تو اسی ہاشمی جوان نے میری طرف رخ کرکے کہا: میں قم کا رہنے والا ہوں لیکن اس وقت کوفہ میں مسجد امیرالمؤمنین (ع) کے پڑوس میں زندگی بسر کررہا ہوں ۔ اس نے مجھ سے پوچھا: کیا تم کوفہ میں موسیٰ ابن عیسیٰ کے گھر کو جانتے ہو ؟ میں نے جواب دیا: ہاں ۔ اس نے کہا: میں ان کا بیٹا ہوں۔

اس نے کہا: میرے والد کے کئی بھائی ہیں ، بڑے بھائی کے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور چھوٹے بھائی کے پاس مال دنیا سے کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایک دن چھوٹے بھائی نے اپنے بڑے بھائی کے پاس جاکر چھ سو دینار کی چوری کر لی ۔ بڑا بھائی کہہ رہا تھا میں امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں جاؤں گا اور حضرت (ع) سے التماس کروں گا کہ میرے چھوٹے بھائی سے لطف و محبت سے بات کریں شاید وہ میری دولت واپس کردے اس لئے کہ امام (ع) کا بیان اور کلام بڑا شیریں ہے، ان کا کلام اس پر اثر انداز ہوسکتا ہے، لیکن سحر کے وقت میں نے اپنا ارادہ بدل دیا کہ امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں جاکر کہوں ۔ میں نے سوچا کہ (اسباس ترکی) جو سلطان کا ہمنشیں ہے اس کے پاس جاکر شکایت کروں گا !

بڑا بھائی کہتا ہے جیسے ہی میں اسباس ترکی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ جوا کھیل رہا ہے، میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور انتظار کررہا تھا کہ اس کا کھیل ختم ہوجائے، اسی اثنا میں اچانک امام حسن عسکری (ع) کی طرف سے ایک شخص پیغام لے کر آیا اور کہا: اپنے آقا کی دعوت پر لبیک کہو میں اپنی جگہ سے اٹھ کر قاصد کے ساتھ امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں مشرّف ہوا ۔

امام (ع) نے فرمایا: کون سا واقعہ پیش آیا کہ رات کی ابتدا میں مجھ حاجت برآری کے خواستگار تھے اور سحر کے وقت تمہاری رائے بدل گئی، اٹھو اور واپس جاؤ، تمہارا چھوٹا بھائی جو مال لے گیا تھا وہ واپس لے آیا ہے اور اس کے بارے میں شک نہ کرو، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور تھوڑا سا مال اسے بھی عطا کرو، اگر تمہارا ارادہ ہے کہ اسے کچھ نہ دو تو اسے میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس کی مدد کروں، جب میں امام (ع) کی خدمت سے رخصت ہوا تو میرے غلام نے میرے پاس آکر درہم کی تھیلی کے لانے کی اطلاع دی ۔[3]

3- ابوہاشم جعفری کہتے ہیں: ایک دن میں امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں مشرف ہوا اور میرا ارادہ تھا کہ حضرت (ع) سے چاندی لوں گا اور انگوٹھی بنواؤں گا جو میرے لئے متبرّک  ہوگی ۔ میں بیٹھا اور بھول گیا، جب خدا حافظی کے لئے اٹھا تو امام (ع) نے مجھے انگوٹھی دے کر فرمایا: تم چاندی چاہ رہے تھے میں نے تمہیں انگوٹھی دی، نگینہ اور انگوٹھی کے بنوانے کی اجرت تمہارے نفع میں رہی! یہ انگوٹھی بابرکت اور گوارا ہو، اے ابو ہاشم! میں نے کہا: میرے آقا و مولا، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ولی خدا اور ہمارے امام ہیں آپ کی اطاعت کو میں اپنے دین کا جزء جانتا ہوں ۔ امام (ع) نے فرمایا: خدا تمہاری مغفرت کرے اے ابوہاشم ۔[4]

۴- اسماعیل بن محمد کا بیان ہے: میں امام حسن عسکری (ع) کے گھر کے پاس جاکر بیٹھ گیا جب حضرت (ع) اپنے گھر سے باہر آئے تو میں نے آگے بڑھ کر اپنی تنگدستی اور نیازمندی کی شکایت کی اور قسم کھائی کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے!۔

امام (ع) نے فرمایا: تم قسم کھا رہے ہو جبکہ دو سو دینار زمین کے اندر دفن کر رکھے ہو ؟۔ اور فرمایا کہ میں نے یہ بات اس لئے نہیں کہی  ہے کہ تمہیں اپنے عطیہ سے محروم رکھوں، اس کے بعد اپنے غلام کی طرف رخ کرکے فرمایا: جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے دے دو ۔

غلام نے سو دینار مجھے دیئے، میں نے خدائے متعال کا شکر ادا کیا اور واپس آگیا ۔ حضرت (ع) نے مجھ سے فرمایا: مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب تم کو ان دیناروں کی سخت ضرورت ہو تو وہ تمہارے ہاتھ نہ لگے ۔

میں ان دیناروں کی تلاش میں گیا، انہیں اسی جگہ پایا، ان کی جگہ بدل دی اور انہیں اس طرح دفن کیا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہوسکے ۔ اس واقعہ کو گزرے ایک زمانہ ہوگیا ۔ جب مجھے ان دیناروں کی ضرورت ہوئی تو ان کو نکالنے کے لئے گیا مگر ایک دینار بھی نہیں ملا، مجھ پر بہت گران گزرا ۔ میں بعد میں سمجھا کہ میرے بیٹے نے اس کی جگہ جان لی تھی وہ نکال کر لے گیا اور ان میں سے مجھے ایک دینار بھی نہیں ملا، ماجرا وہی ہوا جس طرح امام (ع) نے بیان کیا تھا ۔[5]

۵ - بنی عباس کے کچھ لوگ صالح بن وصیف کے پاس گئے درحالیکہ اس نے امام حسن عسکری (ع) کو قیدخانہ میں ڈال رکھا تھا اور ان لوگوں نے اس سے کہا کہ حضرت (ع) کے ساتھ سختی سے پیش آئے اور جتنا ہوسکے اذیت دے اور ستائے! صالح بن وصیف نے جواب دیا: میں نے دو بدترین و بد اخلاق لوگوں کو ان پر معیّن کیا تھا لیکن وہ دونوں اس وقت نمازی اور روزہ دار بن گئے ہیں اور عبادت میں بلند و بالا مرتبہ پر فائز ہوگئے ہیں ۔ بنی عباس نے صالح بن وصیف سے کہا کہ ان دونوں کو بلاؤ، ان دونوں کو بلانے کے بعد انہیں ڈرایا، دھمکایا اور سرزنش کی کہ امام (ع) پر سختی کیوں نہیں کر رہے ہو ؟۔

ان دونوں نے جواب دیا: اس شخص کے بارے میں کیا کہا جائے جو دنوں میں روزہ رکھتے ہیں اور راتوں کو صبح تک عبادت میں مصروف رہتے ہیں، وہ کسی سے بات نہیں کرتے اور صرف عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور جس وقت ہم پر نظر کرتے ہیں تو ہمارا جسم لرزنے لگتا ہے اور یماری حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ جیسے ہم اپنے نفس کے مالک ہی نہیں ہیں، بنی عباس ان باتوں کو سننے کے بعد بڑی ذلّت و خواری کے ساتھ وہاں سے واپس ہوئے ۔[6]

6- احمد ابن عبیداللہ بن خاقان قم کی اراضی اور خراج کا متولّی و ذمہ دار تھا، ایک دن اس کی بزم میں علویوں اور ان کے عقائد کے بارے میں بات چھڑ گئی  احمد ابن عبیداللہ جو خود ایک سخت و متعصّب ناصبی اور اہلبیت علیھم السلام سے منحرف شخص تھا اس نے گفتگو کے درمیان کہا: میں نے سامرہ میں علویوں میں سے حسن بن علی بن محمد بن علی الرضا امام حسن عسکری (ع) کے مانند کردار و رفتار، وقار، عفت و پاکدامنی، نجابت، فضیلت اور عظمت میں ان کے خاندان اور بنی ہاشم کے نہیں دیکھا ہے اور نہ پہچانتا ہوں ۔ ان کی خاندان والے انہیں بزرگوں اور محترم لوگوں پر فوقیت دیتے ہیں اور لشکر کے سردار ، وزراء  اور تمام لوگوں میں ان کا وہی احترام ہے، مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں اپنے والد کے پاس تھا، دربانوں نے خبر دی کہ ابو محمد ابن الرضا امام حسن عسکری (ع) تشریف لارہے ہیں ۔

میرے والد نے بلند آواز سے کہا: انہیں آنے دو، میں اس بات سے بڑا حیرت زدہ تھا کہ نگہبان میرے والدے کے پاس انہیں کینہ سے بھی اور احترام سے بھی یاد کیا کرتے تھے، اس لئے کہ میرے والد کے پاس سوائے خلیفہ یا ولی عہد یا وہ شخص جس کے بارے میں خلیفہ نے کینہ سے یاد کرنے کا حکم دیا ہو کسی کو کینہ سے یاد نہیں کرتے تھے ۔

اس وقت ایک شخص جس کا رنگ گندمی، اچھے قد و قامت، خوبصورت، سڈول و موزوں جسم والا جوان ہیبت و جلالت کے ساتھ وارد ہوا ۔

جیسے ہی میرے والد کی نگاہ ان پر پڑی اپنے جگہ سے اٹھ کر چند قدم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ میرے والد نے بنی ہاشم میں سے کسی کے لئے یا لشکر کے کمانڈروں میں کسی کا اتنا احترام کیا ہو، ان سے گلے ملے، پیشانی کا بوسہ لیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے مصلّی پر بیٹھایا اور خود ان کے سامنے بیٹھ کر بات کرنے لگے، اور ان سے گفتگو کے درمیان یہ کہتے جاتے تھے کہ میں آپ پر قربان ہوجاؤں ۔ میں جو کچھ دیکھ رہا تھا اس سے بڑی حیرت میں پڑگیا تھا، اچانک ایک نگہبان نے آکر اطلاع دی کہ (موفق عباسی)  آیا ہے اور موفق کے آنے کا معمول یہ تھا کہ اس کے آنے کے پہلے اس کے مخصوص نگہبان و پہرہ دار آجاتے تھے اور میرے والد کی بزم سے در وازہ تک دو صف میں کھڑے ہوجاتے تھے، وہ لوگ اسی حالت میں رہتے تھے یہاں تک کہ موفق آئے اور چلا جائے ۔

میرے والد پیہم امام حسن عسکری (ع) کی طرف متوجہ تھے اور ان سے گفتگو کر رہے تھے اور جیسے ہی میرے والد کی نظر موفق کے مخصوص غلاموں پر پڑی تو حضرت (ع) سے کہا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں اگر آپ تشریف لے جانا چاہتے ہیں  تو لے جائیں، میرے والد نے اپنے نگہبانوں سے کہا انہیں دونوں صفوں کے پیچھے سے لے جاؤ تاکہ موفق انہیں نہ دیکھے ۔ امام (ع) اٹھے اور میرے والد بھی کھڑے ہوکر ان سے گلے ملے اور امام (ع) چلے گئے ۔

میں نے اپنے والد کے نگہبانوں اور غلاموں سے پوچھا: یہ کون شخص تھا جس کو میرے والد کے حضور میں تم لوگوں نے بغض و کینہ سے یاد کیا ہے اور میرے والد نے ان کا اتنا احترام کیا ہے؟۔

ان لوگوں نے جواب دیا: وہ علویوں میں سے ایک شخص ہیں جن کو حسن بن علی (ع) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ابن الرضا (ع) سے معروف ہیں، میں اور زیادہ حیرت میں ڈوب گیا ۔ میں اس دن مسلسل سوچ میں پڑا رہا، یہاں تک کہ رات آگئی ۔ میرے والد کا معمول یہ تھا کہ نماز عشاء کے بعد بیٹھ کر جن امور اور معروضات و گزارشوں کی اطلاع خلیفہ تک پہنچانی ہوتی تھی ان کی تحقیق کرتے تھے، جب وہ نماز پڑھ کر بیٹھے تو میں بھی آکر ان کے پاس بیٹھ گیا اور کوئی ان کے پاس نہیں تھا تو میرے والد نے مجھ سے پوچھا: احمد کیا تمہیں کوئی کام ہے ؟۔

میں نے کہا: ہاں، اگر اجازت دیں تو معلوم کروں ؟۔

انہوں نے کہا: اجازت ہے پوچھو ۔ میں نے کہا والد! یہ شخص جس کو صبح میں دیکھا تھا وہ کون تھا، آپ اس کا اتنا احترام کر رہے تھے اور اپنی گفتگو میں اس کے لئے کہتے تھے میں آپ پر قربان ہوجاؤں اور اپنے کو اور ماں باپ کو ان پر فدا کر رہے تھے !۔

انہوں نے جواب دیا: اے میرے بیٹے! وہ رافضیوں کے امام حسن بن علی  (ع) تھے جو ابن الرضا (ع) سے معروف ہیں ۔

اس کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہے اور میں بھی چپ ہوگیا، اس کے بعد کہا: اے میرے بیٹے اگر خلافت خلفائے بنی عباس کے ہاتھوں سے نکل جائے تو بنی ہاشم میں ان سے زیادہ سزاوار کوئی نہیں ہے اور یہ ان کی فضیلت، پاکدامنی، زہد، عبادت، اچھے اخلاق اور لیاقت کی وجہ سے ہے ۔

اگر تم نے ان کے والد کو دیکھا ہوتا تو گویا مَردانِ خدا میں سے ایک محترم اور صاحب فضیلت کو دیکھا ہوتا ۔

ان باتوں سے میں فکر میں ڈوب گیا اور حیرانی کے عالم میں اپنے والد پر غصہ کرنے لگا، اب میرا کوئی اور کام نہ تھا سوائے اس کے کہ امام (ع) کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جستجو اور تحقیق کروں اور ان کے متعلق معلومات کی ہر ممکن کاوش کروں، میں نے بنی ہاشم، سردارانِ لشکر، مصنفین، قاضیوں، فقہاء اور دوسرے لوگوں میں سے ان کے متعلق کسی سے سوال نہیں کیا مگر جن سے بھی پوچھا انہوں امام (ع) کو محترم، بزرگ اور بلند مرتبہ پر فائز جانا اور سبھی نے انہیں اچھائی سے یاد کیا، نیز انہیں اپنے تمام بزرگوں اور خاندان والوں پر ترجیح دیتے تھے، اس طرح امام (ع) کا مقام و مرتبہ میرے نزیدک بڑی عظمت کا حامل ہوگیا کیونکہ میں نے کسی بھی دوست و دشمن کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ ان کے بارے میں اچھی بات ھی کہی اور ان کی تعریف کی ہے ۔[7]

امام  حسن عسکری (ع) نے علی بن حسین بن بابویہ قمی کے لئے جو شیعہ بزرگ فقہاء میں شمار ہوتے ہیں لکھا:

خداوند عالم کے نام سے شروع کرتا ھوں جو رحمٰن و رحیم ہے، ساری تعریفین اس اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا پروردگار ہے، اچھا انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے اور جنّت یکتا پرستوں کے لئے ہے، اور دوزخ کافروں کے لئے ہے اور ظلم و زیادتی صرف ظالموں کے لئے ہے، اور کوئی معبود نہیں ہے مگر وہ جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے، خدا کا درود و سلام اس کی بہترین مخلوق محمد (ص) اور ان کی عترت طاہرین پر ھو ۔

خدائے متعال کی حمد و ثنا کے بعد، اے نامدار و بزرگ شخصیت، موردِ اعتماد اور ہمارے فرمانبرداروں کے فقیہ ابوالحسن علی بن حسین قمی، جو پروردگار عالم کی مرضی ہے اس میں تمہیں کامیاب کرے اور تمہاری نسل میں صالح و شائستہ اولاد قرار دے، میں تمہیں خدائے متعال کے تقوے کی نصیحت کرتا ہوں، نماز قائم کرو اور زکواة ادا کرو اس لئے کہ جو زکوٰة ادا نہیں کرتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے، میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ لوگوں کی خطاؤں اور غلطیوں سے درگذر کرو ۔ اپنے غصہ کو پی جاؤ ۔

اپنے قرابتداروں سے صلہ رحم اور تعلّقات رکھو اور بھائیوں کی امداد کرو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، سختیوں اور آسائش میں ان کی ضرورتوں کے پوری کرنے کی کوشش کرو، لوگوں کی جہالت و نادانی کے مقابلے میں حلیم و بردبار رہو، دین میں گہری نظر رکھو، کاموں کے انجام دینے میں مستحکم و استوار رہو، قرآن سے آشنائی رکھو، اچھے اخلاق کو اپنا شیوہ بناؤ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

" لاَخَیْر فیِ كَثیرٍ مِنْ نَجْواہُمْ اِلاّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَہٍ اَوْ مَعْروفٍ اَوْ اِصْلاحٍ بَیْنَ النّاسِ، ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیں ھے مگر وہ شخص جو کسی صدقہ، کار خیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے "۔[8]  

 تمام برائیوں سے اجتناب کرو، تم نماز شب کو کبھی ترک نہ کرنا، بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی (ع) سے فرمایا : اے علی (ع) تم پر نماز شب لازم ہے، تم پر نماز شب لازم ہے، تم پر نماز شب لازم ہے، جو نماز شب کو ہلکا شمار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے (یعنی اس نے ہماری سیرت پر عمل نہیں کیا ہے) ۔

لہذا ہمارے دستور پر عمل کرو اور ہمارے شیعوں کو بھی ان چیزوں کا حکم دو، جو میں نے تمہیں دیا ہے کہ وہ بھی اسی طرح عمل کریں، تم پر صبر و بردباری لازم ہے اور ظہور کے منتظر رہو، بیشک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: میری امت کا بہترین عمل ظہور کا انتظار ہے ۔ ہمارے شیعہ اس وقت تک رنجیدہ و غمگین رہیں گے جب تک میرا فرزند امام قائم (ع) ظہور نہ کرے گا، جس کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشخبری دی ہے کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔

اے میرے قابلِ اعتماد اور بزرگ انسان ابو الحسن ! تم صبر کرو اور ہمارے شیعوں کو بھی صبر کا حکم دو ۔ یقیناً یہ زمین خدا کی ہے جس کا مالک و   وارث اپنے صالح بندوں کو بنائے گا اور نیک انجام متقین کا ہوگا، خدا کا دورد و سلام، رحمتیں اور برکتیں تم پر اور ہمارے شیعوں پر ہو، اور خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ کتنا بہترین وکیل، مولا اور مددگار ہے ۔[9]

امام حسن عسکری (ع) کی چھ محور پر فعالیت :
امام حسن عسکری (ع)، عباسی حکومت کی طرف سے سختیوں، پریشانیوں نظارتوں، پُرآشوب اور گھٹن کے ماحول کے باوجود کچھ سیاسی، اجتماعی اور علمی سرگرمیاں انجام دیا کرتے تھے جو اسلام کی حفاظت اور اسلام کے مخالف افکار سے مقابلہ کے لئے انجام پایا کرتی تھیں، ذیل میں ہم ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1- علمی سرگرمیاں اور کوششیں :
اگرچہ امام حسن عسکری (ع) نامساعد حالات و شرائط نیز عباسی حکومت کی طرف سے سخت محدویت ہونے کی بناپر علوم و معارف کو پورے سماج و معاشرہ میں کماحقّہ نشر نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود تمام سختیوں، پرآشوب اور گھٹن کے ماحول کے ہوتے ہوئے لائق شاگردوں کی تربیت کی، جن میں سے ہر ایک نے علوم و معارف اسلامی کی نشر و اشاعت اور دشمنانِ اسلام کے شکوک و شبہات کو برطرف کرنے میں اپنی توانائی کے مطابق بڑا اہم اور مؤثر کردار ادا کیا ہے ۔ شیخ طوسی (رح) نے امام حسن عسکری (ع) کے شاگردوں کی تعداد سو افراد سے زیادہ بتائی ہے ۔[10] جن میں درخشاں چہرے کے مالک، نامدار شخصیتں اور حرّیت پسند افراد جیسے احمد بن اسحاق اشعرى قمى، ابوہاشم داؤد بن قاسم جعفرى، عبداللہ بن جعفر حميرى، ابوعمرو عثمان بن سعيد عَمرى، على بن جعفر اور محمد بن حسن صفّار وغیرہ دکھائی دیتے ہیں ۔

شاگردوں کی تربیت کے علاوہ بعض موقعوں پر تو اتنی سخت مشکلوں کا سامنا ہوتا تھا اور مسلمانوں کے لئے ناگفتہ بہ حالات پیش آتے تھے کہ جنھیں امام حسن عسکری (ع) کے سوا کوئی بھی حل نہیں کرسکتا تھا، ایسے موقعوں پر آپ (ع) اپنے علمِ امامت کی روشنی میں ایک فوق العادہ و غیر معمولی تدبیر کے ذریعہ لاینحلّ مشکلوں کو بھی حل کردیا کرتے تھے ان مذکورہ مطالب کے متعلق ہم دو نمونے کا ذکر یہاں پر کرتے ہیں:

1-۱۔ اسحاق کندی عراق کا مشہور فلسفی تھا اس نے ایک کتاب لکھنی شروع کی جس میں وہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی ہیں، اس کے لکھنے میں اس قدر سرگرم ہوا کہ لوگوں سے الک تھلگ ہوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں منہمک ہوگیا، یہاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوا، امام (ع) نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور جواں مرد انسان نہیں ہے جو اپنے استاد کو اس عبث کام سے روک سکے جو اس نے شروع کیا ہے؟!

اس شاگرد نے عرض کیا: ہم اس کے شاگرد ہیں آخر کیوں کر اس کے اس کام یا دوسرے کاموں پر اعتراض کرسکتے ہیں! امام (ع) نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے ہو ؟۔

شاگرد نے کہا: ہاں، امام (ع) نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور خوب دوستی بڑھاؤ اور وہ جو کام کرنا چاہتا ہے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال ہے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وہ تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ میری یہ مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وہ مفہوم و معانی نہیں ہیں جو آپ نے سمجھا ہے؟ وہ کہے گا: ہاں یہ احتمال پایا جاتا ہے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل ہوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وہی معنی مراد لئے گئے ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں؟!

ہوسکتا ہے قرآن کا مفہوم کچھ اور ہو جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی ہو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈاھال رہے ہوں!۔

وہ شخص اسحاق کندی کے پاس گیا اور جس طرح امام (ع) نے اس سے کہا تھا اسی طرح اس کے ساتھ پیش آیا، آخرکار ایک دن اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دہرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وہ فکر میں ڈوب گیا، اس نے اس بات ادبیات کی کسوٹی پر پَرکھا اور ممکن جانا ۔ اس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمہارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذھن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا ۔

اسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمہارے ذھن کی اپج نہیں ہے اور ممکن ہی نہیں ہے کہ تم اور تمہارے جیسے افراد کے ذھنوں میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔

بتاؤ یہ سوال تم کہاں سے لے کر آئے ہو؟۔

شاگرد نے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری (ع) نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آسکتا ہے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔[11]

2-۱۔ ایک بار شہر سامرہ میں بڑا سخت قحط پڑا، معتمد عباسی نے لوگوں کو حکم دیا کہ طلبِ باران کے لئے نماز استسقاء پڑھیں، لوگوں نے پے در پے تین دن صحراء میں جاکر نماز استسقاء پڑھی اور دعائیں مانگی مگر بارش نہیں ہوئی ۔

چوتھے دن جاثلیق عیسائیوں کا رہنما، عیسائیوں اور راہبوں کے ہمراہ صحراء میں گیا، ان میں سے ایک راہب جب بھی اپنے ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند کرتا تھا تو بارش ہونے لگتی تھی، دوسرے دن بھی جاثلیق نے وہی کام کیا اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگوں کو بارش کی احتیاج نہ رہی، یہ کام بڑی حیرت کا باعث بنا اور مسلمان اپنے ایمان کے متعلق شک و شبہ میں پڑگئے جس کی بناپر بہت سے مسلمان، دین عیسائی کی طرف مائل ہوگئے تھے، خلیفہ معتمد عباسی پر یہ بات بڑی گراں گزری، اپنے آدمیوں کو امام حسن عسکری (ع) کے پاس بھیج کر انہیں قیدخانہ سے بلوایا، خلیفہ نے امام (ع) سے عرض کیا: اپنے جدّ کی امت کو بچاؤ کیونکہ وہ گمراہ ہو رہی ہے! امام (ع) نے فرمایا: جاثلیق اور راہبوں سے کہو وہ کل سہ شنبہ کے دن صحراء میں چلیں ۔

خلیفہ نے کہا: لوگوں کو اب بارش کی ضرورت نہیں ہے اور بقدر کافی بارش ہوچکی ہے، اس لئے صحراء میں جانے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہے؟ امام (ع) نے فرمایا: انشاء اللہ میں شک و شبہ کو برطرف کروں گا ۔ خلیفہ نے حکم دیا: لہذا عیسائی راہب و پیشوا سہ شنبہ کو صحراء میں گئے ۔ امام حسن عسکری (ع) بھی بڑے عظیم مجمع کے ساتھ صحراء میں پہنچے، عیسائیوں اور راہبوں نے طلب باراں کے لئے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے، آسمان پر بادل چھا گئے اور بارش ہونے لگی ۔ امام (ع) نے ایک خاص راہب کا ہااتھ پکڑنے کا حکم دیا اور کہا کہ جو کچھ اس کی انگلیوں کے بیچ میں ہے اس کو نکال لو ۔ اس کی انگلیوں کی درمیان ایک بوسیدہ ہڈی پائی گئی ۔ امام (ع) نے اس ہڈی کو لے کر کپڑے میں لپٹیا اور راہب سے فرمایا: اب بارش کے لئے دعا کرو، راہب نے اس مرتبہ بھی آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے لیکن بادل چھٹ گئے اور سورچ چمکنے لگا، لوگوں کے حیرت کی انتہا نہ رہی ۔ خلیفہ نے امام (ع) سے پوچھا: یہ کیسی ہڈی ہے ؟۔

امام (ع) نے فرمایا: یہ اللہ کے انبیاء میں سے ایک نبی کی ہڈی ہے جس کو نبی کی قبر سے نکال لیا ہے اور جب بھی کسی نبی کی ہڈی ظاہر ہوگی اور آسمان کے نیچے لائی جائے گی تو بارش ہوگی (یہ اس کی خاصیت ہے) امام (ع) حق میں لوگوں کی تحسین و آفرین کی آوازیں بلند ہونے لگیں، اور جب ہڈی کو آزمایا گیا تو ویسا ہی ہوا جیسا کہ امام (ع) نے فرمایا تھا ۔

امام (ع) نے اسلامی سماج سے شک و شبہ کا ازآلہ کردیا اور خلیفہ نے امام (ع) کو قیدخانہ سے آزاد کردیا، امام (ع) نے موقع سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے دوسرے دوستوں اور اصحاب کی آزادی کا زمینہ فراہم کردیا ۔[12]

2- شیعوں سے رابطہ کا ذریعہ :
امام  حسن عسکری (ع) کے زمانے میں شیعہ مختلف علاقوں، متعدد شہروں میں پھیلے ہوئے تھے اور انھوں نے بہت سی جگہوں کو اپنا مرکز بنالیا تھا، ان شہروں و علاقوں میں کوفہ و بغداد، نيشابور، قم، آبہ (آوہ)، مدائن، خراسان، يمن، رے، آذربائيجان، سامرہ، جرجان اور بصرہ شیعوں کے مراکز شمار کئے جاتے تھے ۔ ان علاقوں میں کچھ اسباب و دلائل کی بناپر سامرہ، کوفہ، بغداد، قم اور نیشاپور بڑی اہمیت کے حامل تھے ۔[13]

شیعوں کی کثرت اور ان کے مختلف جگہوں میں پھیلے ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ ایک باضابطہ تنظیم بنائی جائے جو ایک طرف سے مرکز امامت سے وابستہ رہیں اور دوسری طرف سے ان میں ایک دوسرے سے رابطے و تعلّقات قائم ہوں، لہذا اس طریقہ سے ان کی دینی و مذہبی اور سیاسی رہنمائی و نشاندہی کریں ۔

اس چیز کی ضرورت کا احساس تو امام محمد تقی (ع) کے زمانے سے احساس کیا جارہا تھا، اسی لئے ان کی سیرت میں اور دسویں و گیارہوں امام (ع) کی سیرت میں ارتباطی تنظیم کا وجود پایا جاتا ہے جیسے مختلف شہروں و علاقوں میں وکیل بنانا اور نمائندوں کو منصوب کرنا، شیعوں سے رابطہ براقرار کرنے کی غرض سے وجود میں آیا ۔

 بہت سے منابع و مآخذ اور تاریخی شواہد کے مطابق امام حسن عسکری (ع) نے شیعوں میں سے موردِ اعتماد اور اھم شخصیتوں کو منتخب کرکے انہیں مختلف علاقوں میں منصوب کیا جو ان شیعوں سے رابطہ رکھتے تھے، اس طرح تمام علاقوں میں رہنے والے شیعوں کو زیر نظر رکھتے تھے ۔ ان نمائندوں میں سے (ابراہیم بن عبدہ) کا نام لیا جاسکتا ہے جو نیشاپور میں ان کے نمائندہ تھے ۔

3- خطوط اور قاصدین :
وکالت کے رابطہ کے علاوہ بھی امام (ع) نے قاصدوں کو بھیج کر اپنے شیعوں اور چاہنے والوں سے رابطہ قائم رکھا کرتے تھے، اس طریقہ سے ان کی مشکلوں کو برطرف کرتے تھے، اس سلسلہ میں نمونہ کے طور پر (ابو الادیان) کی سرگرمیوں کو بیان کیا جاسکتا ہے جو امام (ع) کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے ۔[14] یہ امام (ع) کے خطوط اور پیغامات کو حضرت (ع) کے ماننے والوں تک پہنچاتے تھے اور اسی کے ساتھ ساتھ شیعوں کے خطوط ،سوالات، مشکلوں، خمس اور دوسری وجوہات کو دریافت کرکے شہر سامرہ میں امام حسن عسکری (ع) کے محضر مبارک میں پہنچاتے تھے ۔

قاصدوں کے علاوہ امام (ع) مکاتبہ کے ذریعہ اپنے شیعوں سے رابطہ قائم کرتے تھے اس طریقہ سے انہیں اپنی ہدایت و رھنمائی کے زیر سایہ قرار دیا کرتے تھے ۔

۴- شیعوں کی مالی امداد اور حمایت :
امام حسن عسکری (ع) کی ایک روش اور شیوہ یہ تھا کہ اپنے قریبی، مخصوص دوستوں و اصحاب اور شیعوں کی مالی امداد و حمایت کیا کرتے تھے، حضرت (ع) کی حیات طیّبہ کا مطالعہ کرنے سے یہ مطلب بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ بعض اوقات حضرت (ع) کے کچھ دوست اپنی مالی پریشانیوں کی شکایت امام (ع) کے محضرِ مبارک میں کیا کرتے تھے اور آپ (ع) ان کی مالی امداد کرکے مشکلوں کو برطرف کردیا کرتے تھے ۔ امام (ع) کا یہ اقدام اور عمل باعث ہوا کرتا تھا کہ چاہنے والے مالی مشکلوں میں نہ پھنسیں اور عباسی حکومت کی طرف ان کا رجحان نہ ہونے پائے، اس سلسلہ میں ہم درج ذیل دو نمونہ کو بیان کرتے ہیں :

1۔۴- ابوہاشم جعفری کہتے ہیں: مالی اعتبار سے میں بڑا تنگدست ہوگیا تھا میں نے سوچا اپنی مالی مشکل کو ایک خط میں امام حسن عسکری (ع) کے پاس لکھ کر ارسال کروں، لیکن مجھے شرم آئی اور اس سے صرفِ نظر کیا، جب میں گھر میں داخل ہوا تو امام (ع) نے میرے لئے سو دینار بھیجے اور ایک خط میں تحریر فرمایا: جب بھی تمہیں ضرورت ہو تو شرم و حیا مت کرو، اور بغیر جھجک مجھ سے مانگو، انشاء اللہ اپنے مقصد تک پہنچ جاؤ گے ۔[15]

2۔۴- محمد ابن علی بن ابراہیم بن موسی بن جعفر (ع) کہتے ہیں: میں مفلس اور تہی دست ہوگیا تھا میرے والد نے کہا چلو ساتھ میں حضرت امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں چلتے ہیں اس لئے کہ جود و سخاوت اور بخشش میں ان کی بڑی شہرت ہے، میں نے کہا: آپ ان کو پہچانتے ہیں ، انہوں نے کہا: نہیں، میں نے ان کو نہیں دیکھا ہے ۔

ہم دنوں ساتھ میں چل دیئے، راستہ کے درمیان میرے والد نے کہا: ہم کس قدر ضرورت مند ہیں کہ ہمیں پانچ سو درہم دینے کا حکم صادر کردیں، دو سو درہم لباس کے لئے، دو سو درہم قرض کو ادا کرنے کے لئے اور سو درہم دوسرے اخراجات کے لئے ۔ میں نے اپنے دل میں کہا کاش میرے لئے تین سو درھم دینے کا حکم صادر کردیں، جن میں سے سو درہم چوپائے کے لئے، سو درہم اخراجات کے لئے اور سو درہم لباس و کپڑے کے لئے تاکہ (ہمدان و قزوین) کے شہروں میں پہنچ جاؤں ۔

جب ہم امام (ع) کے گھر پہنچے تو حضرت (ع) کا غلام باہر آیا اور کہا: علی بن ابراہیم اور ان کے بیٹے تشریف لے آئیں، ہم لوگ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے، سلام کیا تو انہوں نے میرے والد سے کہا: اے علی ! آخر کیا بات ہے کہ تم ابھی تک میرے پاس نہیں آئے تھے ؟۔

میرے والد نے کہا: مجھے شرم آرہی تھی کہ میں اس حالت میں آپ سے ملاقات کروں ۔

جب ہم لوگ باہر آئے تو حضرت (ع) کا غلام ہمارے پاس آیا اور درہم کی ایک تھیلی میرے والد کو دی اور کہا: اس میں پانچ سو درہم ہیں دو سو درہم کپڑے اور لباس کے لئے، دو سو درہم قرض ادا کرنے کے لئے اور سو درہم اخراجات کے لئے، اور ایک تھیلی مجھے دی اور کہا: اس میں تین سو درہم ہیں، سو درہم سواری خریدنے کے لئے، سو درہم لباس کے لئے اور سو درہم اخراجات کے لئے ۔

۵- شیعہ اہم شخصیتوں کی سیاسی پشت پناھی اور رہنمائی:
امام حسن عسکری (ع) کی بہترین سرگرمیوں میں سے شیعوں کی اہم اور سیاسی شخصیتوں کی پشت پناھی اور تقویت رہی ہے تاکہ سیاسی مقابلوں میں مشکلوں اور سختیوں کو برداشت کرکے مکتب تشیع کے بلند و بالا ارمان کی حمایت کرسکیں ۔ چونکہ شیعہ بزرگ شخصتیں زیادہ سختیوں میں رہتی تھیں اس لئے امام (ع) ہر ایک کی ان کے لحاظ سے رہنمائی کرتے تھے اور انہیں سرگرم رکھا کرتے تھے اور ان کے حوصلوں کو بڑھایا کرتے تھے تاکہ ان کے اندر مشکلوں، سختیوں، فقر اور تنگدستی سے مقابلہ کی قوت پیدا ھو نیز صبر و تحمّل، استقامت اور علم و آگہی میں اضافہ ہوتا رہے  اور اپنے سماجی، سیاسی  اور دینی وظائف جیسی اہم اور بڑی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکیں ۔

1۔ ۵- "محمد ابن حسن ابن میمون" کہتے ہیں: میں نے امام حسن عسکری (ع) کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی مفلسی اور تنگدستی کی شکایت کی، لیکن بعد میں دل میں سوچا کیا امام صادق (ع) نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ فقر و مفلسی ہمارے ساتھ  رہ کر بہتر ہے اس مالداری و توانگری غیروں کے ساتھ رھنے میں ہے اور ہمارے ساتھ رہ کر قتل ہوجانا بہتر ہے اس سے کہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ زندہ رہا جائے ۔

امام (ع) نے جواب میں لکھا: جب ہمارے چاہنے والوں کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں تو خداوند عالم انہیں فقر و تنگدستی میں مبتلا کرتا ہے اور بعض اوقات ان کے بہت سے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، جیسا کہ تم نے اپنے دل میں یہ بات سوچ رکھی ہے اور ہمارے ساتھ رہ کر فقر و تنگدستی بہتر ہے اس سے کہ غیروں کے ساتھ رہتے ہوئے مالدار و توانگر رہو، ہم ان لوگوں کے لئے پناہ گاہ ہیں جو ہمارے پاس پناہ لیں اور جو ہم سے ہدایت کا طالب ہے ہم اس کے لئے نور (ھدایت) ہیں ۔ ہم ان لوگوں کی حفاظت کرتے ہیں جو (گمراہی و ضلالت سے نجات کے لئے) ہم کو وسیلہ قرار دیتے ہیں اور جو ہمیں دوست رکھتا ہے وہ بلند ترین مرتبہ (قربِ خدا میں) ہمارے ساتھ ہے اور جو ہمارے راستہ کی پیروی و اتباع نہیں کرے گا وہ آتشِ جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔[16]

2۔ ۵- اس سلسلہ میں دوسرا نمونہ وہ خط ہے جو امام حسن عسکری (ع) نے "علی بن حسین بن بابویہ قمی" کو لکھا ہے آپ ایک بزرگ شخصیت اور شیعہ نامدار فقہاء میں سے ہیں  ۔ اس خط میں امام (ع) نے انہیں کچھ نصیحتوں، تاکیدوں اور لازم و ضروری رہنمائیوں کے بعد اس طرح یاد دہانی فرمائی ہے: (تم صبر کرو اور ظہور کے منتظر رہو اس لئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ہماری امت کے افضل و بہترین اعمال میں سے ظہور کا انتظار ہے ۔

ہمارے شیعہ اس وقت تک رنجیدہ و غمگین رہیں گے جب تک میرا فرزند (امام قائم (ع)) ظہور نہ کرے گا، جس کی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشخبری دی ہے کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔ اے میرے قابلِ اعتماد، بزرگ انسان اور فقیہ ابو الحسن ! تم صبر کرو اور ہمارے شیعوں کو بھی صبر کا حکم دو ۔ یقیناً یہ زمین خدا کی ہے جس کا وارث (حاکم) اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کو بنائے گا اور نیک انجام متقین کا ہوگا، خدا کا دورد و سلام، رحمتیں اور برکتیں تم پر اور ہمارے شیعوں پر ہو، اور خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ کتنا بہترین وکیل، مولا اور مددگار ہے ۔[17]

6- زمانہ غیبت کے لئے شیعوں کو آمادہ کرنا :
چونکہ ہر سماج و معاشرہ کے لئے امام اور پیشوا کا غائب ہونا ایک غیر فطری اور نامانوس مسئلہ ہے اور اس پر یقین و عقیدہ رکھنا نیز اس کی بناپر جو مشکلیں اور سختیاں وجود میں آتی ہیں ان کا برداشت کرنا عام لوگوں کے لئے بڑا دشوار کام ہے اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور پہلے کے ائمہ علیھم السلام وقتاً فوقتاً اور موقع بہ موقع اس موضوع سے لوگوں کو آگاہ کیا کرتے تھے اور ان کی فکروں کو اس مسئلہ کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا کرتے تھے ۔

یہ سعی و کوشش امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) کے زمانے میں جو زمانہ غیبت سے قریب ہوتا جارہا تھا بڑے محسوس طریقہ سے نظر آتی ہے چنانچہ امام علی نقی(ع) اپنے اقدامات کو عام طور سے نمائندوں کے ذریعہ انجام دیا کرتے تھے اور بہت کم ایسا ہوا کرتا تھا کہ خود بطور مستقیم لوگوں سے اقدامات کے متعلق رابطہ رکھتے ہوں ۔

یہ مطلب امام حسن عسکری (ع) کے زمانے میں کچھ زیادہ ہی جلوہ نمائی کرتا ہے اس لئے کہ امام حسن عسکری (ع) ایک طرف سے حضرت امام زمانہ (ع) کی ولادت پر تاکید کرتے اور انہیں صرف مخصوص شیعوں اور بہت قریبی لوگوں کو دکھاتے تھے اور دوسری طرف سے شیعوں کا ڈائرکت اور مستقیم رابطہ روز بروز محدود تر ہوتا جارہا تھا، اس قدر محدود تھا کہ شہر سامرہ میں بھی شیعوں کے مسائل و مشکلات کا حل اور جواب خطوط یا اپنے نمائندوں کے ذریعہ دیتے تھے اس طرح انہیں زمانہ غیبت کے اوضاع و شرائط، مشکلات اور تکالیف کو تحمّل کرنے نیز امام (ع) سے غیر مستقیم رابطہ کے لئے آمادہ کر رہے تھے ۔

"اے احمد بن اسحاق" امام (ع) کے ایک خاص اور قریبی دوست کہتے ہیں: میں امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے بعد کے امام (ع) کے بارے میں پوچھنا ھی چاہتا تھا کہ حضرت (ع) نے میرے سؤال کرنے سے پہلے فرمایا:

"اے احمد بن اسحاق ! خداوند عالم نے جب سے آدم (ع) کو پیدا کیا ہے اس وقت سے لے کر قیامت تک ہرگز زمین کو "حجتِ" خدا سے خالی نہیں رکھا ہے اور نہ رکھے گا ۔ خداوند عالم زمین پر اپنی (حجیت) کے وجود کی برکت سے دینا کے لوگوں سے عذاب کو دور کرتا ہے، بارش کو نازل کرتا ہے اور زمین کے اندر پوشیدہ برکتوں کو ظاہر کرتا ہے "۔    

میں نے عرض کیا: آپ (ع) کے بعد امام اور پیشوا کون ہے؟ حضرت (ع) جلدی سے اٹھے اور دوسرے کمرے میں داخل ہوئے، تھوڑی ہی دیر میں واپس آگئے درحالیکہ ایک چھوٹے سے بچہ کو اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے جس کی عمر تین سال کی تھی اور اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اس کے بعد فرمایا:

"اے احمد ابن اسحاق! اگر خداوند متعال اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے نزدیک تم محترم نہ ہوتے تو اپنے اس بیٹے کو تمہیں نہ دکھاتا، اس کا نام پیغمبر (ص) کا نام ہے اور اس کی کنیت پیغمبر (ص) کی کنیت ہے، یہ زمین کو عدل و انصاف سے بھرے دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔ وہ اس امت میں (غیبت کے طولانی ہونے کے لحاظ سے)  جناب خضر اور ذوالقرنین کی طرح ہے، وہ پردہ غیبت میں چلا جائے گا (اور غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے) بہت سے لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں گے اور صرف وہی لوگ شک اور گمراہی سے نجات پائیں گے جن لوگوں کو خداوند عالم ان کی امامت کے عقیدے پر باقی و ثابت رکھے اور ان کے قیام اور ظہور کی دعا کی توفیق عنایت فرمائے ۔[18]

امام (ع) کی شہادت اور ناکام سازشیں :
معتمد عباسی ہمیشہ سماج و معاشرہ میں امام (ع) کے معنوی نفوذ اور محبوبیت سے فکرمند اور پریشان رھا کرتا تھا، جب اس نے دیکھا کہ دن بدن لوگوں کی توجّہ امام (ع) کی طرف زیادہ ہوتی جارہی ہے اور قیدخانہ میں ڈالنا، پرآشوب و گھٹن کا ماحول بنانا اور انہیں نظر بند کرنے کا اثر برعکس ہو رہا ہے تو اس نے اپنے آباء و اجداد کے پرانے حربے کو استعمال کیا اور امام (ع) کو پوشیدہ طور پر مسموم کردیا ۔

شیعوں کے مشہور دانشمند جناب طبرسی لکھتے ہیں: ہمارے بہت سے علماء نے کہا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کی شہادت زہر کے ذریعہ سے ہوئی ہے جس طرح ان کے والد ماجد، جدّ امجد اور دوسرے ائمہ (ع) کی شہادت ہوئی ہے ۔[19] جناب کفعمی معروف شیعہ عالم کہتے ہیں: امام حسن عسکری (ع) کو معتمد عباسی نے مسموم کیا ۔[20] اور چوتھی صدی کے شیعہ عالم جناب محمد ابن جریر ابن رستم کا عقیدہ ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کی شہادت کےذریعہ ہوئی ہے ۔[21]

معتمد عباسی کے ذریعہ امام (ع) کی شہادت کی نشانیوں میں سے ایک یہ تھی کہ معتمد عباسی، امام (ع) کی مسمومیت اور شہادت کے دنوں میں بے انتہا اور غیر معمولی کوشش کررہا تھا کہ ان کی موت کو فطری موت ظاہر کرے ۔

"ابن صباغ مالکی" اہل سنت کے علماء میں ایک ہیں وہ عباسی نگہبانوں میں سے "عبیداللہ ابن خاقان" کا قول نقل کرتے ہیں کہ: ابو محمد حسن بن علی عسکری (ع) کے دنیا سے چلے جانے کے بعد عباسی خلیفہ معتمد کی ایک عجیب اور بری حالت ہوگئی تھی جس سے ہم لوگ حیرت زدہ تھے اور سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی یہ حالت (حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہوئے اور خلیفہ ہونے کے باوجود) ہوگی، 
جس وقت ابومحمد امام حسن عسکری (ع) کی طبیعت خراب ہوئی، درباری فقہاء میں سے پانچ آدمیوں کو ان کے گھر میں بھیجا گیا جو خلیفہ کے خاص الخاص تھے۔ معتمد نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ ابو محمد کے گھر میں رہیں اور جو کچھ بھی حالات پیش آئیں اس کی خبر دیں، نیز کچھ لوگوں کو عیادت کے لئے روانہ کیا تاکہ امام (ع) کے ہمراہ رہیں، (قاضی بن بختیار) کو حکم دیا کہ اپنے دس مورد اعتماد لوگوں کو منتخب کرکے ابو محمد کے گھر میں بھیج دے، وہ لوگ ہر صبح و شام ان کے پاس جائیں اور ان کی حالت پر نظر رکھیں ۔ دو یا تین دن کے بعد خلیفہ کو خبر دی گئی کہ ابو محمد کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے اور امید نہیں ہے کہ وہ شفا پائیں ۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ شب و روز ان کے گھر میں رہو، وہ لوگ بھی دن رات حضرت (ع) کے گھر میں رہتے تھے یہاں تک کہ چند دنوں کے بعد روح جسم اقدس سے پرواز کر گئی، جس دن حضرت (ع) کے دارفانی کو خیر باد کہنے کی خبر پھیلی تو سامرہ میں کہرام مچ گیا ۔ سبھی فریاد اور گریہ و زاری کر رہے تھے بازاریں اور دکانیں بند ہوگئیں ۔ تشییع جنازہ میں بنی ہاشم، وزراء، حکّام، درباری، شہر کے قضات، شعراء، شاہدین اور تمام لوگ شریک ہوئے، اس دن کا منظر قیامت کی یاد دلا رہا تھا۔

جس وقت جنازہ دفن کے لئے تیار ہوا، خلیفہ نے اپنے بھائی "عیسیٰ بن متوکل" کو بھیجا تاکہ حضرت (ع) کے جنازہ پر نماز پڑھائے، جب جنازہ کو زمین پر نماز کے لئے رکھا گیا تو عیسی نے جنازہ سے قریب ہو کر حضرت (ع) کے چہرہ کو کھولا ۔ اس کے بعد علویوں، عباسیوں، قاضیوں، محاسبوں، لکھنے والوں اور گواہوں کو دکھا کر کہا: یہ ابو محمد عسکری (ع) ہیں  جو اپنی فطری موت سے انتقال کرگئے ہیں اور خلیفہ کے خدمت گزاروں میں سے فلان فلان لوگ گواہ تھے!! اس کے بعد چہرہ کو ڈھک دیا اور اس پر نماز پڑھ کر حکم دیا کہ دفن کے لئے جائیں ۔[22] (جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ھے مگر حکومت اور خلیفہ کا سفید جھوٹ تو ملاحظہ فرمائیں،(مترجم)) ۔

البتہ یہ نماز جنازہ ایک حکومتی رسم و رواج کی بناپر تھی جس کا نقشہ حکومت وقت کی طرف سے کھینچا گیا تھا تاکہ امام (ع) کی شہادت کے ماجرا کو بے اہمیت بتائے اور جیسا کہ شیعہ علماء کے درمیان مشہور ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت امام مہدی (ع) نے حضوصی طور پر اپنے والد ماجد امام حسن عسکری (ع) کے جنازہ پر نماز پڑھائی ہے ۔[23]

جعفر کذّاب کی ناکام سازش:
" ابو الادیان " کہتے ہیں: میں حضرت امام حسن عسکری (ع) کے خادموں میں سے تھا اور ان کے خطوط کو دیگر شہروں میں لے جایا کرتا تھا جس مرض و بیماری میں حضرت دارفانی سے رخصت ہوئے ہیں، میں ان کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوا، امام (ع) نے خطوط لکھے اور فرمایا: ان کو مدائن میں لے جاؤ، تم پندرہ دن سامرہ میں نہیں رہوگے جب پندرہوں دن شہر میں داخل ہوگے تو دیکھو گے میرے گھر سے نالہ و شیون کی آواز بلند ہے اور میرے جسم کو غسل کے لئے رکھا گیا ہے ۔

میں نے کہا : اے میرے مولا و آقا! اگر ایسا ہوجائے گا تو آپ (ع) کے بعد امام کون ہوگا؟ حضرت (ع) نے فرمایا: جو شخصت میرے جنازہ پر نماز پڑھائے گا، میرے بعد امام و قائم وہی ہوگا ۔ میں نے کہا: دوسری نشانی بیان فرمائیں ۔ امام (ع) نے کہا: جو شخص ہمیان (کمربند سے بندھی ہوئی تھیلی) میں موجود چیز کی خبر دے وہ میرے بعد امام ہوگا ۔ حضرت (ع) کی ہیبت، جلالت اور عظمت کی وجہ سے میں نہیں پوچھ سکا کہ جو کچھ ہمیان میں موجود ہے اس سے مراد کیا ہے ؟۔

میں حضرت (ع) کے خطوط کو مدائن لے گیا اور ان کے جوابات لے کر پندرہوں دن شہر سامرہ میں داخل ہوا تو دیکھا امام (ع) نے جو کچھ بتایا تھا بالکل ویسا ہی ہوا، امام (ع) کے گھر سے نالہ و شیون کی آواز بلند ہے نیز میں نے ان کے بھائی جعفر کذّاب کو دیکھا گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ شیعہ ان کے اطراف میں ہیں جو انہیں تعزیت پیش کر رہے ہیں اور امامت کی مبارکباد پیش کر رہے ہیں! میں یہ ماجرا دیکھ حیران رہ گیا اور اپنے ضمیر سے مخاطب ہوکر کہا: اگر جعفر امام ہوگا تو امامت کی حالت بگڑ کر ڈگر سے ہٹ چکی ہے ۔ اس لئے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ جعفر شراب پیتا تھا، جوا کھیلتا تھا اور تار و طنبور میں مشغول رہتا تھا، میں نے بھی آگے بڑھ کر ان کے بھائی کی تعزیت اور امامت کی مبارکباد دی، لیکن اس نے مجھ سے کچھ بھی نہیں پوچھا !۔

اسی موقع پر امام (ع) کے گھر کا ایک خادم بنام (عقید) نے باہر آکر جعفر سے کہا: آپ کے بھائی کو کفن پہنا دیا ہے آئیں نماز پڑھائیں، جعفر گھر کے اندر داخل ہوا، شیعہ بھی اس کے ساتھ تھے، سمّان ۔[24] اور حسن بن علی معروف بہ سلمہ ان کے آگے آگے تھے ۔

ہم لوگ جیسے ہی گھر کی آنگن میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ امام حسن عسکری (ع) کو کفن پہنا کر ایک تابوت میں رکھے ہوئے ہیں، جعفر آگے بڑھا تاکہ امام (ع) کے جنازہ پر نماز پڑھائے، جیسے ہی تکبیر کہنی چاہی، اچانک ایک بچہ جس کا رنگ گندمی، بال کالے اور آگے کے دانتوں میں تھوڑا تھوڑا فاصلہ تھا وہ باہر آیا اور جعفر کے دامن کو پکڑا اور کھینچ کر کہا: اے چچا! کنار ہٹ جایئے، میں اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ہوں، جعفر کا چہرہ متغیّر ہوگیا اور وہ کنارے ہٹ گیا ۔ اس بچہ نے امام (ع) کے جنازہ پر نماز پڑھائی اور حضرت (ع) کو ان کے گھر کے اندر ان کے والد ماجد کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔

اس کے بعد اسی بچہ نے میرے طرف رخ کرکے کہا: اے مرد بصری! جن خطوط کے جوابات تمہارے پاس ہیں وہ لاؤ! میں نے خطوط کے جوابات انہیں دیئے اور اپنے آپ سے کہا: یہ دو نشانیاں ہیں (یعنی جنازہ پر نماز پڑھانا اور خطوط کے جوابات طلب کرنا) اور اب فقط ہمیان کا مسئلہ رہ گیا ہے ۔ اس وقت میں جعفر کے پاس آیا تو دیکھا کہ شور و غل کی آوازیں بلند ہیں ۔ "حاجز وشأ" جو وہاں موجود تھا اس نے جعفر سے کہا: وہ بچہ کون تھا ؟!! وہ اپنے اس سوال­سے جعفر کو محکوم کرنا چاہتا تھا (کیونکہ جعفر امامت کا دعویٰ کرتا تھا) جعفر نے کہا: خدا کی قسم میں نے اسے ابھی تک نہیں دیکھا تھا اور نہ پہچانتا ہوں !۔

میں وہیں بیٹھا ہوا تھا کہ قم کے رہنے والے کچھ لوگ آئے اور امام حسن عسکری (ع) کے بارے میں سوال کیا، جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ دار فانی سے رخصت ہوگئے ہیں تو پوچھا : حضرت (ع) کا جانشین کون ہے؟ حاضرینِ مجلس نے جعفر کو بتایا ۔ ان لوگوں نے جعفر کو سلام کیا اور تعزیت پیش کی اس کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ہم خطوط اور وجوہات کی رقم لائے ہیں بتایئے: خطوط کن لوگوں نے لکھے ہیں اور وجوہات کی رقم کتنی ہے؟ جعفر اس سوال سے ناراض ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے لباس کی گرد جھاڑتے یوئے کہا: یہ لوگ مجھ سے علم غیب جاننے کی امید رکھتے ہیں ! اسی دوران ایک خادم گھر سے باہر آیا اور کہا: یہ خطوط فلان فلان شخص کے ہیں اور ہمیاں نے ہزار دینار دیا ہے جن میں سے دس دینار پر سونے کا پانی چڑھایا ہوا ہے ۔

اہل قم کے نمائندوں نے خطوط اور ہمیان  کو خادم کے حوالہ کرکے کہا: جس شخص نے تمہیں ہمیان لینے کے لئے بھیجا ہے وہی امام (ع) یے ۔[25]

نا کام کوششیں :
معتمد عباسی سوچ رھا تھا کہ اپنے خیالِ خام میں امام حسن عسکری (ع) کی شہادت سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگیا ہے اور اب اس کی بے لگام حکومت کے لئے کوئی خطرہ موجود نہیں لیکن اپنے اطمینان کے لئے دوسرے کاموں کو کرنا شروع کیا جو اس کی جاہ طلبی اور دنیاداری کی نشانی ہے کیونکہ اسے حضرت امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ارجمند کی طرف سے خوف تھا ۔ اس نے کچھ سپاہیوں کو حکم دیا کہ امام (ع) کے گھر میں وارد ہوں اور حضرت کے تمام مال و اسباب کی چھان بین کر کے ان پر مہر لگا دیں ۔

دوسری طرف سے اس نے سن رکھا تھا کہ امام حسن عسکری (ع) کا ایک بیٹا باقی ہے تو وہ ان کی تلاش میں لگ گیا، اس نے  کچھ دایہ کو حکم دیا کہ حضرت (ع) کی عورتوں اور کنیزوں کا معاینہ کریں اور اگر ان میں حمل کے آثار موجود ہوں تو مطلع کریں ۔ منقول ہے کہ ایک دایہ نے شک کیا کہ ایک کنیز حاملہ ہے جس کی وجہ سے خلیفہ کی طرف سے حکم ملا کہ اس کنیز کو محل میں زیر نظر رکھا جائے اور "نحریر" خلیفہ کا ایک خاص درباری اور پیشکار چند عورتوں کے ساتھ اس کنیز پر دھیان رکھیں تاکہ جو خبر دی گئی ہے   اس کا سچ اور جھوٹ معلوم ہوسکے ۔[26] اس کنیز کو دو سال تک زیر نظر رکھا گیا لیکن آخرکار حمل کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوا اور دی گئی خبر کا جھوٹ واضح ہوگیا ۔[27]

یہ وہ موقع تھا جب معتمد عباسی نے ظاہر کرنا چاہا  کہ امام حسن عسکری (ع) کا کوئی بیٹا موجود نہیں رہا تاکہ شیعہ لوگ، حضرت کے بعد کے امام سے ناامید اور مایوس ہوجائیں، معتمد نے حکم دیا کہ امام حسن عسکری (ع) کی میراث کو ماں اور ان کے بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کردیا جائے ۔[28] لیکن شیعہ حضرات اپنے مضبوط عقیدے پر باقی رہے کہ حضرت کا ایک فرزند باقی ہے جو منصبِ امامت کا عہدہ دار ہے ۔[29] اس لئے کہ بہت سے لوگوں نے امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ارجمند کو پہلے دیکھا تھا ۔

حوالہ:

[1] ۔ شيخ مفيد، كتاب الارشاد، ص 33۵ - طبرسى، كتاب الاحتجاج، ص 3۶۶۔ (شیخ عباس قمی، منتہي الآمال ج ۲، ص 114۔)

[2] ۔ بحار، ج50، ص 2۴۵۔

[3] ۔ كمال الدین، ج2، ص19۴۔

[4] ۔ اصول كافی، ج1، ص۵12 و بحار، ج۵0، ص2۵۴۔

[5] ۔ احقاق الحق، ج12، ص۴70۔

[6] ۔ ارشاد مفید، ص 32۴۔

[7] ۔ ارشاد مفید، ص 318 و 322۔

[8] ۔ سورہ نساء ـ 11۴۔

[9] ۔ زندگانی امام حسن عسكری (ع)، ص28، نقل از انوار البھیہ۔

[10] ۔ رجال، ط1، نجف، المكتبة الحيدرية، 1381 ہجری، ص ۴27۔

[11] ۔ مناقب، ج۴، ص۴2۴۔

[12] ۔ احقاق الحق، ج13، ص ۴۶۴۔

[13] ۔ طبسى، شيخ محمد جواد، حياة الامام العسكرى (ع)، طبع اول، قم، دفتر تبليغات اسلامى، 1371 ہجری شمسی، س 223 - ۔22۶ و الشيخ محمد حسين المظفر تاريخ الشيعة، قم، مكتبة بصيرتى، صفحات: ۶2، 78، 102۔

[14] ۔ ابو الأديان على بصرى، تیسری صدی ھجرى کے آخر میں انتقال ھوا اور ان کی کنیت اصل میں « ابوالحسن » تھی، موصوف اس لئے ابو الأديان کے لقب سے مشہور ھیں چونکہ آپ تمام دین کے پيروکاروں سے مناظرہ کرتے تھے اور مخالفين کو مطمئن اور قانع کردیا کرتے تھے ۔ (مدرس تبريزى، محمد على، ريحانة الأدب، طبع سوم، تہران، كتاب فروشى خيام، 13۴7 ہجری شمسی، ج‏7، ص‏570)۔

[15] ۔ شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبة بصيرتى، ص 3۴3 - ابن شہر آشوب، مناقب آل أبى طالب، قم، كتاب فروشى مصطفوى، ج‏۴، ص ۴39- مسعودى، اثبات الوصية، نجف، المطبعة الحيدرية، 1373 ہجری، ص 2۴2 - سيد محسن امين، اعيان الشيعة، بيروت، دار التعارف للمطبوعات، 1۴03 ہجری، ص ۴0 - طبرسى، اعلام الورى، طبع 3، دار الكتب الاسلامية، ص 372 - كلينى، اصول كافى، تہران، مكتبة الصدوق، 1381 ہجری، ج‏1، ص ۵08۔

[16] ۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل أبى طالب، قم، كتاب فروشى مصطفوى، ج ۴، ص ۴3۵ - على بن عيسى الاربلى، كشف الغمّة، تبريز مكتبة بنى ھاشمى، 1381 ہجری، ج 3، ۔211۔

[17] ۔ ابن شہر آشوب، حوالہ سابق كتاب، ج ۴، ص ۴2۵ - حاج شيخ عباس قمى، الأنوار البہية، مشہد، كتاب فروشى جعفرى، ص 1۶1- تتمة المنتھى، طبع دوم، تہران، كتاب فروشى مركزى، 1333 ہجری، ص 299، الفاظ میں تھوڑے سے تفاوت کے ساتھ ۔

[18] ۔ صدوق، كمال الدين، قم، مؤسسة النشر الاسلامى (التابعة) لجماعة المدرسين، 1۴0۵ ہجری، ج 2، ص 38۴ (باب 38)۔

[19] ۔ اعلام الورى، الطبعة الثالثة، دار الكتب الاسلامية، ص 3۶7۔

[20] ۔ حاج شيخ عباس قمى، الانوار البہية، مشہد، كتاب فروشى جعفرى، ص 1۶2۔

[21] ۔ دلائل الامامة، نجف، منشورات المكتبة الحيدرية، 1383 ہجری، ص 223۔

[22] ۔ الفصول المہمة، طبع قديم، ص 307 – 308۔ اس واقعہ کو مرحوم شيخ مفيد نے ارشاد میں اور فتّال نيشابورى نے روضہ الواعظين میں اور طبرسى نے اعلام الورى میں اور على بن عيسىٰ الاربلى نے احمد بن عبد اللہ بن خاقان سے نقل كیا ھے۔ اس اطلاع سے معلوم ھوتا ھے کہ امام کی سماج و معاشرہ میں کیا موقعیت اور اھمیت تھی اور بنی عباس کی حکومت کیوں پریشان تھی اور خلیفہ، امام (ع) کی مسمومیت و قتل کے برملا ھونے سے کس قدر ڈرا ھوا تھا اسی لئے پہلے سے اپنی پوری کوشش کر رھا تھا کہ  امام کی شہادت کو چھپائے اور ان کی موت کو فطری موت ظاھر کرے ۔

[23] ۔ صدوق، كمال الدين، قم، مؤسسہ النشر الاسلامى،، (التابعة) لجماعة المدرسين بقم المشرفة، 1۴0۵ ہجری، باب ۴3، ص ۴7۵ - مجلسى، بحار الأنوار، الطبعة الثانية، تہران، المكتبة الاسلامية، 139۵ ہجری، ج ۵0، ص 332 – 333۔

[24] ۔ مراد، عثمان بن سعيد عَمرى ھیں جو امام عسكرى عليہ السلام کے قریبی اصحاب میں سے ھیں چونكہ ان کا کام روغن فروشى کا تھا اس لئے وہ سمّان کے نام سے مشہور تھے۔

[25] ۔ صدوق، كمال الدين، قم، مؤسسہ النشر الاسلامى (التابعة) لجماعة المدرسين بقم، 1۴0۵ ہجری، ص ۴7۵۔

[26] ۔ كلينى، اصول كافى، تہران، مكتبة الصدوق، 1381 ہجری، ج 1، ص ۵0۵ - مجلسى، بحار الأنوار، طبع 2، تہران، المكتبة الاسلامية، 139۵ ہجری، ج ۵0، ص 329۔

[27] ۔ كلينى، اصول كافى، تہران، مكتبة الصدوق، 1381 ہجری، ج 1، ص ۵0۵ - مجلسى، بحار الأنوار، طبع 2، تہران، المكتبة الاسلامية، 139۵ ہجری، ج ۵0، ص 329۔

[28] ۔ كلينى، اصول كافى، تہران، مكتبة الصدوق، 1381 ہجری، ج 1، ص ۵0۵ - مجلسى، بحار الأنوار، طبع 2، تہران، المكتبة الاسلامية، 139۵ ہجری، ج ۵0، ص 329۔

[29] ۔ على بن عيسى الاربلى، كشف الغمة، تبريز، مكتبة بنى ھاشمى، 1381 ہجری، ج 3، ص 199 - فتّال نيشابورى، روضة الواعظين، ط 1 بيروت، مؤسسة الأعلمى للمطبوعات، 1۴0۶ ہجری، ص 27۶۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .