۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 386137
28 نومبر 2022 - 07:31
علی ہاشم عابدی

حوزہ/ مال کی محبت اور شیطانی وسوسہ نے اسے مجبور کیا۔ اس نے سینیما گھر بنوا دیا۔ چند برس بعد اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اس نے اپنے ورثہ کے لئے کافی مال و دولت چھوڑی جس میں وہ سینیما گھر بھی تھا۔ 

انتخاب و ترجمہ: سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | صاحب کتاب الغدیر علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا تہران میں کچھ مومن اور مخیر تاجر رہتے تھے جو اکثر نیک کام انجام دیتے تھے۔ انمیں سے ایک تاجر کے پاس تہران شہر کے ایک اہم اور حساس علاقے میں ایک قطعہ زمین تھی وہ چاہتا تھا کہ وہاں ایک مسجد تعمیر کرے اور اس کے اطراف میں دکانیں بنوا کر مسجد کے لئے وقف کر دے۔ لیکن اس کے ایک دنیا طلب دوست نے اسے وسوسہ کیا اور بہکایا کہ تم یہاں سینیما گھر بنواو، اس کے اطراف میں دکانیں بنواو اور اس سے جو نفع حاصل ہو اس سے کار خیر انجام دو۔

مال کی محبت اور شیطانی وسوسہ نے اسے مجبور کیا۔ اس نے سینیما گھر بنوا دیا۔ چند برس بعد اس کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اس نے اپنے ورثہ کے لئے کافی مال و دولت چھوڑی جس میں وہ سینیما گھر بھی تھا۔

ایک دن اس تاجر کے ایک پرانے دوست نے اس کے بیٹوں کی دعوت کی۔ جب وہ لوگ کھانا کھا چکے تو میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو میں نے تمہاری دعوت کیوں کی ہے؟

انہوں نے جواب دیا ہمارے مرحوم والد کی نیکیوں کے سبب آپ نے ہماری دعوت کی ہے۔

میزبان نے پھر پوچھا کیا تمہارے مرحوم والد نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی کی ہے؟

انہوں نے جواب دیا نہیں ہرگز نہیں۔ ہم انہیں ہمیشہ نیکی سے یاد کرتے ہیں اور انکے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔
پھر میزبان نے حقوق والدین بیان کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ موت کے بعد تمہارے والد کو تمہاری زیادہ ضرورت ہے۔

مختصر تمہید کے بعد میزبان نے کہا کہ میں نے چند دن پہلے تمہارے والد کو خواب میں دیکھا جو بدترین عذاب میں مبتلا تھے۔ یہ بدترین عذاب سینیما گھر بنوانے کے سبب ہے۔

انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب بھی سینیما گھر میں کوئی گمراہ کن فلم چلائی جاتی ہے جس سے لوگوں کو گناہ پر آمادہ کیا جاتا ہے اور وہ گناہ کرتے ہیں تو عذاب دینے والے ملائکہ مجھے عذاب دیتے ہیں۔ انہوں نے تم لوگوں سے عاجزانہ گذارش کی ہے اور التماس کی ہے کہ سینیما گھر ویران کر کے انہیں عذاب سے نجات دے دو۔ یہ سنتے ہی تاجر کے بیٹے سناٹے میں آ گئے اور انتہائی تعجب اور بد دلی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر اپنے میزبان سے بولے کہ ہمیں تھوڑی مہلت دیں تا کہ ہم اس پر غور کریں اور کوئی فیصلہ لے سکیں۔

کئی ہفتے گذرنے کے بعد بھی جب کوئی خبر نہیں ملی تو اس شخص نے دوبارہ تاجر کے بیٹوں کی دعوت کی اور کھانا کھانے کے بعد ان سے پوچھا کہ تم لوگوں نے کیا فیصلہ لیا؟

بڑے بیٹے نے کہا کہ کیا میرے والد نے یہ سینیما گھر خود نہیں بنوایا تھا؟

میزبان نے کہا کیوں نہیں، لیکن اب وہ بہت شرمندہ ہیں اور اس کے سبب بدترین عذاب میں مبتلا ہیں وہ چاہتے ہیں تم لوگ انہیں عذاب الہی سے نجات دے دو۔

بڑے بیٹے نے کہا: میرے والد نے غلطی کی ہے وہی اس کی سزا بھگتیں ہم سینیما گھر بند نہیں کر سکتے۔
یہ جواب سن کر میزبان کو بہت افسوس ہوا اور اپنے مرحوم دوست کے حال پر ترس آیا۔

(ربع قرن مع العلامہ الامینی رہ، صفحہ 57)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .