۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا سید مشاہد عالم رضوی

حوزہ/ نہ لڑائی سے مطلب نہ جھگڑے سے نہ کسی سےخارچشمی بس ایک دھن قوم کے جوان لڑکے اور لڑکیاں عملی میدان میں دور حاضر کی برق رفتار ترقیوں سے فائدہ اٹھا ئیں اور ہندوستان سے جہالت کا خاتمہ ہو۔

از قلم: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید مشاہد عالم رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی | علم دوست ہمدر قوم وملت اتحاد ویکجہتی کی راہ پر گامزن انسانیت کا درد رکھنے والے بااخلاق محبتی وسیع النظر اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والے مولانا ڈاکٹر کلب صادق صاحب تھے جو اپنی وفات سے پورے ملک ہندوستان اور دنیا ے شیعیت کو غم زدہ ورنجیدہ کرکے داربقاء کی طرف کوچ کرگئے۔

حق مغفرت کرے بڑا آزاد مرد تھا

مولانا علم ودانش کے علمبردار ہی نہیں بلکہ آپ نے اس راہ میں اپنی عزت وآبرو تک داؤ پر لگا دی لکھنؤ جیسے مہذب شہر کو اپنی انتھک کوششوں سے تعلیم وترقی کی سمت وسو بڑے بڑے ادارے کھولکر راہ دکھا گۓ۔

موصوف کے ذاتی صفات وکمالات

نہ لڑائی سے مطلب نہ جھگڑے سے نہ کسی سےخارچشمی بس ایک دھن قوم کے جوان لڑکے اور لڑکیاں عملی میدان میں دور حاضر کی برق رفتار ترقیوں سے فائدہ اٹھا ئیں اور ہندوستان سے جہالت کا خاتمہ ہو۔

انداز بیاں اور بین الاقوامی حیثیت

آیات وروایات ائمہ اہلبیت علیہم السلام سے استفادہ کرکے تجربات زندگی سے لبریز دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں اور علماء کے کارناموں کو نہایت سادہ زبان میں قوم کے سامنے مختلف اسٹیج منبر اور محراب مسجد آصفی سے پیش کرتے رہے یہاں تکہ انہوں نے علم وسائنس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا ملک وبیرون ملک جس قریہ وگاوں وقصبہ  تبلیغ کے لیے گے پابندی وقت کاخیال رہا اور ترقی کی باتوں اصلاح قوم اور محبت و وحدت کے علاوہ کبھی نہ کچھ کہا نہ اپنی کہی ہوئی بات کے خلاف قدم اٹھایا ہردل عزیزی میں وہ سبقت لے گۓ جوانوں کے آئیڈیل بن گئے ھندو مسلمان ہر قوم ودھرم کے پڑھے لکھے حضرات انکی بےلوث سادہ وبےتکلف شخصیت سے متاثر ہونے بغیر نہیں رہےدنیامیں جہاں بھی گئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا انکی مسکراہٹ سب کے لئے تھی انسانیت اور محبت انکی آواز تھی وہ متعصب نہیں بڑے دل کے مالک تھے وہ ہر صاحب فن وھنر کی عزت کرتے تھے ہر عالم باعمل سے محبت فرماتے تھے طلبہ کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش تھے قابل ولایق افراد کی سرمنبر نام بنام تعریفیں کرنے میں کبھی تنگی نفس کا شکار نہ ہونے دوسروں کے کام سے خوش ہوتے داد وتحسین دیتے کوئی ہمدر قوم ملتا تو کھل کر اس کی ہمت افزائی کرتے نڈر ہو کر لکھنؤ میں تقریریں فرماتے مقصد ذات نہیں قوم ہوتی خاندان سے بڑھ کر ملت اور امت مسلمہ تھی وہ خشک وناسمجھ ملائیت کے حماقت آمیز کارناموں کے خلاف تھے اور اسلام کے نام پر مارکیٹنگ کرنے والوں سے کوسوں دور تھےاہل حرف نہیں أہل عمل تھے انھیں ملک میں پھیلی ہوئی انارکی اور سیاسی اتھل پتھل ناپسند تھی وہ یونٹی کے خوگر تھے انھیں گنگا جمنی تہذیب دل سے عزیز تھی وہ قوم وملت کے ہر جوان کو پڑھا لکھا برسر روزگار دیکھنا چاہتے تھے اور ہندوستان کی ترقی ان کا خواب تھا وہ پورے ملک کو یورپی طرز پر بانداز مثبت ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے انکے انتقال سے ایک خلأ پیدا ہوگیا علم و عمل دوستی ومحبت اخوت وبرادری رواداری ومروت کی دنیا میں سناٹا چھا گیا امت مسلمہ ایک عقلمند ہمدرد ودلسوزقائد سے محروم ہو گی ایک آزاد مرد حریت پسند منصف مزاج متقی و پرہیزگار عالم ہمارے درمیان سے چل گیا۔

جانے والے تجھے روۓگازمانہ برسوں

لیکن انکی بلندنگاہی کے نقوش انکے چلے جانے کے بعد بھی اہل لکھنؤ اور تمام باشندگان ہند کو علم وعمل یونٹی وترقی کی راہ پر چلنے کی دعوت دیتے رہیں گے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللہ تعالیٰ بحق محمد وآل محمد مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور داغدیدہ قوم وملت اور ان کے معزز پسماندگان کو صبرِ واجر عنایت کرے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .