از قلم: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی
حوزہ نیوز ایجنسی | جو آج وفات پا گیا ، وہ کوئی عام انسان نہیں تھا ۔ ڈاکٹر کلبِ صادق جدید تعلیم ، سائنسی مزاج ، مذہبی ہم آہنگی کا امتزاج شخصیت تھے ۔ سکولز ، کالجز ، ٹیکنیکل انسٹیوٹس، یونیورسٹیاں ، خیراتی ہسپتال سمیت چودہ باقاعدہ ادارے ان کی زیرِ نگرانی چل رہے تھے ۔ میں نے ایک زمانے میں ڈاکٹر کلب صادق کو بہت پڑھا اور سنا ۔ ایک بات بار بار کہتے تھے : دو چیزیں قوموں کو بگاڑ یا سنوار سکتی ہیں : غربت اور جہالت ۔ ان دو کے خلاف کام کرو ۔ جس معاشرے میں یہ دو چیزیں ہونگی ، وہاں سے دینداری کی توقع بھی رکھنا بیکار ہے ۔ مولا علی ع کا یہ سچا پیروکار اپنے کہے پر عمل بھی کرتا تھا ، آج انڈیا میں مسلمانوں میں اگر ناخواندگی ، غربت اور افلاس کی شرح کچھ کم ہے تو وہ بلاشبہ ڈاکٹر کلب صادق کی بدولت ہے ۔
ان کی گفتگو کا دوسرا اہم پہلو مذہبی ہم آہنگی کے بارے ہوتا تھا ۔ کمال یہ تھا کہ ہم آہنگی کی بات کرتے بھی وہ کسی عقیدے میں جہالت کی ملاوٹ پر پردہ نہیں ڈالتے تھے بلکہ کھل کر ایسے عقائد ، جو خلافِ عقل ہوں، پر تنقید کرتے تھے ۔
ان کی حسِ مزاح بھی خوب تھی ، برجستہ سادہ جملوں میں سامعین کو آخری لمحے تک گرفت میں رکھنا ۔ شاید حسِ مزاح ، ذہانت کے ساتھ تحفے میں آتی ہے ۔
ظاہر ہے ، مولا علی ع کے فضائل سے ان کی گفتگو خالی نہیں تھی ، کم و بیش ہر مجلس میں کسی نہ کسی طرح مولا ع کا ذکر کرتے ، جس انداز میں انہوں نے مرزا غالب کے شیعہ عقیدے ، خطوط و شاعری میں اسکے اظہار پر بات کی ہے ، وہ میں نے کہیں اور نہیں سنی ۔
آج خدا کا یہ خالص بندہ ، خدا سے جا ملا ۔ وہ خود ہی کہتے تھے ، انسان اپنے باطن کو حسد ، بغض اور دیگر باطنی بیماریوں سے پاک رکھے تو طویل عمر پائے ۔ کہتے تھے یہی وجہ ہے کہ آئمہ و معصومین ع میں سے کوئی طبعی طور سے نہیں فوت ہوئے ، بلکہ وقت سے پہلے شہید کر دیئے گئے ، کوئی تلوار کے ذریعے تو کوئی زہر کے ذریعے ۔ ڈاکٹر کلب صادق نے بھی شاندار زندگی پائی ، طول عمر پائی ۔ خدا ان کے درجات بلند سے بلند کرے ۔
آخر میں یہ ضرور کہوں گی کہ اس خدا کا شکر جس نے ہمیں ایسے مکتب میں پیدا کیا جہاں ڈاکٹر کلبِ صادق جیسے افراد ہوتے ہیں ، خادم رضوی جیسے نہیں ۔ ڈاکٹر کلب صادق وہ تھے کہ جب تک زندہ رہے ، ان سے ملنے کا اشتیاق رہا ، اور اب نہیں ہیں تو نہ صرف انسان بلکہ زبان ، تہذیب ، رکھ رکھاؤ ، علم سب ان پر گریہ کرتے رہیں گے ۔
التماس الفاتحہ