تحریر: سید جمال موسوی مقیم قم المقدس ایران۔منجی ،سورو
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
إِنَّمَا یخْشَی اللّه مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاء(فطر آیہ۲۸)
بیشک علماء ہی ہے جو خدا وند متعال سے ڈرتے ہیں
حوزہ نیوز ایجنسی | ابھی کچھ ہی دن گزر گئے ہیں ایک باہمت اور باوقار اور بابصیرت علم بہ زمان رکھنے والے شخصیت جناب حجت السلام اولمسلین سید جمال الدین موسوی (منجی) صاحب جو کرگل کے قوم اور ملت کے لئے ایک سرمایہ تھے اب اس دنیا میں نہیں رہے، تو شاید آپ سب نے میڈیا اور حضوری طور پر ان کی رحلت کے بعد ان کی شخصیت کے بارے میں ملاحظہ کیا ہوگا۔ ان شخصیتوں کو سننے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک عالم دین کے لئے سیاسی افکار کا ہونا کتنا لازمی ہے لیکن وہ سیاست جو قوم اور ملت کی حق وحقوق کے لئے ہو اور خدا کے لیۓ ہو، اپنے مطلب اور مقصد ذاتی کو کنارے رکھ کر قوم اور ملت کی حق و حقوق کے لئے لڑتا ہو، اگر چہ ایسے شخص کا اس کی زندگی میں اس کی نہ کوئی تعریف ہوتی ہے اور نہ مدح و ثنا، لیکن اس کی موت کے بعد ضرور اس کو یاد کرکے لوگ تعریف کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ سب نے سید جمال الدین موسوی صاحب کے رحلت پر ملاحظہ کیا۔
سید جمال الدین موسوی طاب ثراہ ایک عالم دین ہی نہیں بلکہ ایک سیاست مدار بھی تھے اس جملہ سے ہمیں بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک عالم دین کا سیاست مدار ہونا کتنا لازمی ہے اگر چہ اس شخصیت نے ملکی طور پر ہی دینی اور سیاسی خدمات انجام دئے ہیں در حقیقت ہمارے دین بھی تدبیر اور سیاست پر چل رہا ہے اور چلتا آیا ہے اور چلتا ہی رہے گا۔ لیکن میرا اس مقالہ کو لکھنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں ملی طور پر سیاست دینی کو توضیح دوں میرا لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک عالم دین کو صیحح راستہ پرچلنے سے کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر چہ اسکی شخصیت کو دنیا والے تضعیف کرنا چاہتے ہیں لیکن اسکے باوجود بھی وہ اپنے موقف پر ثابت رہتے ہیں اور اس ہدف و مقصد حقیقی کے لئے قیام کرتے ہیں، اگر چہ ایسی شخصیت ہم ملی اعتبار سے اور ہم ملکی اعتبار سے بہت ہی کم ہی نظر آتے ہیں اور جیسا کہ آپ امام راحل (رح)کی زندگی کو ملاحظہ کریں گے تو آپ کو ایک جہاانی،دینی و سیاسی شخصیات نظر آئیں گی، جس کی مثال ابھی تک ہمیں نہیں ملتی ہے اسی طرح سیاسی و دینی فعالیت انجام دینے والے ایک ایسی شخصیت جو ملت اور شہری کے سطح پر کارنامہ انجام دیتا ہو اس کی وفات کے بعد ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسی شخصیات کی ہمارے معاشرے میں کتنی کمی ہے۔
یہاں پر بہتر ہے کہ آپ لوگوں کو سید صاحب کی زندگی کے آخری مراحل کے کچھ جریان کو بیان کروں جو کرگل کے ہر اس با شعور اور بصریت رکھنے والوں کے لئے ایک درس ہے سید جمال صاحب نے اگر چہ اپنے اول جوانی کو ایک پارٹی کے لئے صرف کیا ہو لیکن اتحاد اور اتفاق و یکجھتی کے لئے اپنے ہر چیز کو قربان کیا تھا اگر چہ بعض مقامات پر ان کی توہین کی گئ و ان کو پھر سے میدان میں آنے نہیں دیا گیا۔ لیکن حالات کے تقاضہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مقام معظم رہبری مدضلہ کے نمایندہ کے ساتھ ہمکاری کرتے ہوئے کرگل کے اتحاد اور اتفاق کے لئے قیام کیا اور اپنے عمر کی آخری لمحہ تک اسی اتحاد کو بقاء رکھنے کی کوشش کی اور اس دنیا سے رخصت کر گئے اور آج سارے دینی و سیاسی شخصیات نے ان کی زندگی پر اپنے اپنے حساب سے روشنی ڈال رہے ہیں۔
میں ان سب دینی اور سیاسی شخصیتوں سے گزارش کرتا ہوں آپ سب اتحاد،اتفاق ویکجھتی کو اہمیت دیں اور کرگل کے قوم اور ملت کو ہر ایک مشکلات سے بچنانے کی کوشش کریں۔والسلام