۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سید احمد رضا زرارہ

حوزہ/ محرم وہ پلیٹ فارم ہے جس میں دنیا کی ہر قوم موجود ہے بس اسے بصیرت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس رسالت کی ذمہ داری علماء، ذاکرین، نوحہ خواں حضرات کے کاندھوں پر ہے یہ فرش عزا اس اسلحہ کا نام ہے جسکے ذریعہ ہم دشمن کے ہر شعبے کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس علماء ہند شعبہ قم المقدسہ ایران کے صدر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید احمد رضا زرارہ نے محرم الحرم کی آمد پر اپنے پیغام میں کہا کہ ایک بار پھر وہ چاند نمودار ہوا جسکو دیکھنے کے بعد ہر مخلوق خدا غمگین و رنجیدہ ہو جاتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ فطری امرہے۔ دنیا کی اپنے اپکو متمدن کہنے والی قومیں اپنے سال کا آغاز خوشیوں سے کرتی ہیں مگر ہم غلامان آل محمد س اپنے سال کا آغاز گریہ ،سیاہ کپڑے ،فرش عزا ،ماتم و مجلس سے کرتے ہیں اور دنیا والوں کو بتاتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں اور ہمکو اس گریہ پر بڑا ناز ہے اسلیے یہ آنسو جب ہماری آنکھوں سے نکلتے ہیں تو ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومی کا اعلان کرتے ہیں۔

مگر یہ ہدف نہیں ہے مقصد نہیں ہے بلکہ ہدف اور مقصد اس سے کہیں اہم ہے یوں تو واقعہ کربلا کے اہداف و مقاصد بہت ہیں مگر ایک اہم ترین ہدف وحدت ہے آج دشمن جسطرح سے امت واحدہ میں شگاف ڈالنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے محرم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جہاں سے ہم دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں جس کے لیے ہمکو سب سے پہلے دشمن شناسی کرنا ہوگا اور بصیرت کے ساتھ دشمن کے حربوں کو انکی طرف پلٹانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ محرم وہ پلیٹ فارم ہے جس میں دنیا کی ہر قوم موجود ہے بس اسے بصیرت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس رسالت کی ذمہ داری علماء، ذاکرین، نوحہ خواں حضرات کے کاندھوں پر ہے یہ فرش عزا اس اسلحہ کا نام ہے جسکے ذریعہ ہم دشمن کے ہر شعبے کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

مزید کہا کہ یہ وہی فرش عزا ہے جہاں ایک ہی وقت میں شیعہ ،سنی، ھندو، عیسائی غرض کے ہر زندہ اور آزاد فکر قوم جمع ہوتی ہے بس پیغام کربلا کو درست طریقہ سے پہنچانا ہے مگر افسوس......

کربلا میں امام حسین نے مسیحی کو ،عثمانی مذھب کو، گورے کو، کالے کو ،امیر کو ،غریب کو، غلام کو ،آقا کو غرض کہ ہر الگ الگ فکر کے افراد کو ایک فکر میں اس طرح ڈھالا کہ سارے امتیازات ختم کر دئے اگر کوئی امتیاز تھا تو وہی تقوی۔

آج ہماری ذمہ داری بھی یہ ہی ہے کہ جسطرح کل تک ہر قوم ہمارے فرش عزا پر آکر بیٹھتی تھی اور فرش عزا کی برکت سے راہ راست تک پہنچ جاتی تھی اسی طرح آج بھی اسی انداز کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم غیروں کو اپنا بنا لیں اور دشمن کی سازش کو بھی ناکام بنا دیں وہ فرش عزا جو کل تک مرکز وحدت تھا آج کیوں وہ اختلاف کا باعث ہے کل تک غیر بھی آکر استفادہ کرتے تھے آج ہم غیر تو دور کی بات ہے خود آپس میں اختلاف کر بیٹھتے ہیں ادھر محرم قریب آیا انجمن کا اختلاف امام باڑوں کا اختلاف پہلے اور بعد میں جلوس ومجلس کے انعقاد میں اختلاف غرض کہ جو جگہ مرکز اتحاد تھی اسے ہم نے اختلاف کی آماجگاہ بنا دی نتیجہ کیا ہوا؟ ہم مقصد سے دور ہوگئے دشمن اپنی سازش میں کامیاب ہوگیا۔

آئیے مل کر عہد کریں کہ ہم واقعی حسینی بنے گیں سارے اختلافات کو بھلا کر فرش عزا پر امت واحد بن کر آئیں غیروں کو اپنائیں اور درست انداز سے مقصد حسینی دنیا تک پہنچائیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .