۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 363792
17 نومبر 2020 - 14:53
عظیم القدر صحافی، علی ظہیر نقوی

حوزه/ مرحوم علی ظہیر نقوی میدان صحافت کے  معروف شہسوار تھے اور ہندوستان کے اخبار و جرائد میں آپ کے مضامین دیکھے جاتے رہے ہیں۔ روزنامہ میرا وطن اور روزنامہ صحافت وغیرہ کے نام علی ظہیر صاحب کے نام سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی، مدیر ساغر علم فاؤنڈیشن دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | یوں تو عرصۂ حیات میں نہ جانے کتنے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے اور پھر وہ طاق نسیاں کی زینت بن جاتے ہیں لیکن انہی کے درمیان کچھ شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بھلائے نہیں بھولتیں۔ ان میں سے ایک نام جناب سید علی ظہیر نقوی صاحب ابن محمدظہیرالحسن صاحب کا ہے۔ آپ کا تعلق امروہہ سے تھا اور آپ کا مستقل قیام ذاکر نگر اوکھلا نئی دہلی میں رہا۔ موصوف منکسرالمزاج اور خوش اخلاقی جیسے اوصاف سے مزین تھے۔ آپ کئی برس تک ایران کلچر ہاؤس میں خدمات انجام دیتے رہے اور ریٹائرمینٹ کے کچھ عرصہ بعد نورمائکروفلم سینٹر میں مصروف کار ہوگئے پھر زیادہ مشغولیات کے پیش نظر انٹرنیشنل نورمایکروفلم سینٹر کو ترک کرکے دوسرے امور کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے۔ پھر وفات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل دوبارہ اس سینٹر میں آکر مشغول ہوگئے۔ آپ اپنی عمر کے آخری حصہ تک محنت و مشقت سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ ١٥نومبر ٢٠٢٠.ء بروز اتوار میں خدا کو پیارے ہوگئے حالانکہ ١٣نومبر ٢٠٢٠.ء بروز جمعہ دفتر انٹر نیشنل نور مایکروفلم میں ہمارے ساتھ بنحو احسن اپنا فرض نبھا رہے تھے اور تعطیل کے وقت باقاعدہ خوش و خرم خداحافظی کرکے نکلے۔

اتوار کی صبح میں اچانک میں نے واٹسپ گروپ پر موصوف کی تصویر دیکھی تو دل دہلا دینے والی خبر دکھائی دی۔ پہلے تو میری آنکھوں کو یقین نہیں آیا اور پھر دل ماننے کو تیار نہیں ہوا لیکن قضا سے وہ پیغام کسی اور کا نہیں بلکہ ایک امروہہ کے باشندہ کا ہی تھا جس کی وجہ سے یقین کرنا ضروری تھا اس کے باوجود دل میں ایک ایسا اضطراب تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے !، ابھی تو دو دن بھی مکمل نہیں ہوئے بالکل صحیح سالم خدا حافظی کرکے آیا تھا!، شاید یہ خبر غلط ہو!!۔ پھر میرے پاس ایک دوست نے وہی تصویر بھیجی تو میں نے فون کرکے پوچھا کہ کیا اس خبر میں ذرّہ برابر سچائی ہے؟ انہوں نے ایسا جواب دیا کہ دل ٹوٹ گیا اور پیروں تلے زمین نکل گئی۔ انہوں نے کہا: یہ خبر سو فیصد صحیح ہے کیونکہ مجھے امروہہ سے خبر ملی ہے۔ مرحوم کا جنازہ دہلی سے امروہہ لے جایا جارہا ہے۔

یقین مانئے کہ اتوار کے روز صبح سے شام تک دل میں ایسا اضطراب برپا تھا کہ لمحہ بھر سکون نہیں مل پارہا تھا۔ کیونکہ ہر لمحہ موصوف کی ملاقاتیں یاد آرہی تھیں۔ آفس میں ہم لوگ کھانا بھی ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے۔ تقریباً چار سال سے زیادہ مدت سے ہمارے اور ان کے درمیان دوستانہ روابط قائم و دائم تھے اور دوستی کے پختہ ہونے کاایک اہم سبب یہ رہا کہ موصوف نے ایک رسالہ ''پیام علم و دانش'' شروع کیا تو اس رسالہ کی ساری ذمہ داری ناچیز کے کاندھوں پر ہی تھی۔ اس رسالہ کی ابتدا محرم ١٤٤١.ھ سے ہوئی، پھر رجب المرجب کا خصوصی شمارہ نکالا اس کے بعد اگلے محرم یعنی محرم ١٤٤٢.ھ کا خصوصی شمارہ بھی شائع کیا۔ پھر اگلے رسالہ کی تیاری شروع کرنے سے پہلے آپ نے نورمائکروفلم سینٹر میں بات چیت کی تو یہ طے ہوا کہ ہم اس مرکز سے رسالہ شائع کریں گے۔ مرحوم ہمارے آفس میں آکر رسالہ کے مقدمات فراہم کرنے لگے لیکن فرشتۂ اجل نے اتنی مہلت نہیں دی کہ رسالہ شائع کرسکیں ۔

آپ میدان صحافت کے  معروف شہسوار تھے اور ہندوستان کے اخبار و جرائد میں آپ کے مضامین دیکھے جاتے رہے ہیں۔ روزنامہ میرا وطن اور روزنامہ صحافت وغیرہ کے نام علی ظہیر صاحب کے نام سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔

مرحوم کی خوش اخلاقی نے دفتر کے تمام کارکنان کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتہ کا عرصہ اہل دفتر کے لئے ایک عرصۂ دراز ہوگیا اور ہر شخص کی آنکھیں بھر بھر کر آرہی ہیں کہ ہمارے درمیان سے ایک خوش اخلاق انسان چلا گیا۔ ہم سب لوگ جیسا ہنسی مذاق ان سے کرتے تھے شاید کسی اور سے نہ کرپائیں۔ کیونکہ پر آشوب دور میں ہر انسان اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانا چاہتا ہے، مذاق تو سبھی کرلیتے ہیں لیکن مذاق سہنے کی طاقت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ مرحوم میں یہ صفت بنحو احسن پائی جاتی تھی کہ آپ میں برداشت کا مادّہ بہت زیادہ تھا۔ اگر آپ مذاق کرتے تھے تو مذاق برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
اب ہم نے ایسے انسان کو کھو دیا ہے۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کی یادیں افسوس کی صورت میں باقی بچی ہیں۔ خداوند عالم ان کی مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے نیز ہمیں اتنی توفیق دے کہ ہم توشۂ آخرت فراہم کرنے میں مصروف ہوجائیں۔ آمین یا رب العالمین۔''والسلام علی من اتبع الہدیٰ''

تبصرہ ارسال

You are replying to: .