حوزہ نیوز ایجنسی | ٢٤ نومبر کی وہ قیامت خیز شب جس نے اپنے سیاہ سیماب میں وہ گوہر آبدار چھپا لیا جس کی صحت و سلامتی کے لیے اہل ولا کے ہاتھ با عنوان دعا نمناک آنکھوں کے ساتھ لبوں پر لفظوں کی گردش میں یہی تمناءیں تھیں کہ حکیم امت قاءد ملت، پاسدار وحدت، علم و عمل کا دوست، محافظ تربیت، داعی انسانیت،روش حیات کی طوالت پر باقیات الصالحات کی نشانی بن کر شام اودھ میں روشنیاں بکھرتا رہے
مگر افسوس کے موت سے کسی کو یارا نہیں یہ اور بات ہیکہ ڈاکٹر ص نے ظاہری حیات کو ٹھوکر مارکر حیات جاودانی کا جام نوش فرمایا اور اہل ولا کو روتا بلکتا چھوڑ کر معبود حقیقی سے جا ملے
انا للہ و انا الیہ راجعون
حکیم امت نے حکمتوں کے چراغوں سے جہالت اور غربت جیسے مہلک امراض کے گھٹاٹوپ اندھیروں کے خاتمہ کی سعی مسلسل فرماءی جسکی زندہ دلیلیں
یونٹی کالج ، ایرا میڈیکل کالج، توحید المسلمین ٹرسٹ ، مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت ہے اس کے علاوہ ایک با عمل ،نیک سیرت، نیک کردار،منکسرالمزاج، خوش اخلاق مسکراہتا ہوا نورانی چہرہ آج بھی ذہن کے گوشوں میں انمٹ یادوں کے ساتھ گھوم رہا ہے ان کی علمدوستی اور تقوی و تقدس کی بے شمار مثالیں جن کا ذکر طوالت کا باعث نہ ہوتا تو رقم کیا جاتا ان کی دلآویز تقریروں میں قوم کا چھلکتا ہوا درد ان کے لفظوں سے مترشح ہوتا تھا اور سامعین و مستمعین کے ذوق سماعت سے ٹکرا کر دل نشین ہو جاتا تھا اسلیے کی
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
انسانیت کی فلاح و صلاح کے لیے ان کے اٹھا ءے ہوے قدمآج بھی اہل شعور کے لیے مشعل راہ ہیں وہ با یک وقت قلم و زبان دونوں کے ماہر تھے انھوں نے تقریر میں لفظی تبلیغ کا رنگ نہیں بھرا بلکہ عملی تصویروں میں خلوص و محبت کے وہ حسین رنگ بھرے جسکی مثال وہ آپ ہیں
پابندی وقت کی تلقین کے ساتھ اس پر مکمل عمل پیراں ہونا اور قوم کو مسلسل اس پیغامسے وقت کی قدرو منزلت کی طرف متوجہ کرنا ان کے عالم باعمل ہونے کا بین ثبوت ہے اہل ولا کی ان سے بے پناہ محبت ان کے جنازہ میں چھلکتا ہو وہ جم غفیر تھا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے آسمان الفت کے جم غفیر میں عماموں کے ستارے ان کی علماء قدری کی زندہ مثال ہے قرب و جوار کے علماء کے علاوہ دہلی، فیض آباد، کانپور،ہردوءی،بارہ بنکی کے سید واڑہ سے اور یوپی کے مختلف اضلاع سے اہل ولا کی شرکت ان کے مقبول الناس ہونے کی بہترین علامت ہے حوزات علمیہ کے طلبہ کا بے پناہ احترام کرتے یہاں تک کہ ہمیشہ طلبہ کی اقتدا میں نماز جماعت ادا کرتے تھے جو ان کے مخلص اور متدین ہو نے کا علامتی نشانہے
دو برس قبل ایک کھٹی میٹھی سے ملاقات نے ان کی عزت اور بڑھا دی ایک مسلہ پر انھوں نے دل کھول کر غیر جانبداری کے ساتھ فیصلہ فرمایا جس کے لیے واقعا جگر چاہیے جو اس مقام ومنزلت پر پہونچنے کے بعد انسان کی رعونت و عجب پسندی وہاں رہنے نہیں دیتی مگر مرحوم و مغفور ڈاٹر کلب صادق اپنے عہد کے وہ مجاہد تھے جن کا فقدان ان کے خاندان اور تمام وہ کنبہ کے جن کے دل میں درد انسانیت ہے سب کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے ایسا خلا ہے جے پر نہیں کیا جا سکتا
عالم کی موت عالم کی موت ہے کا ایک أبرز مصداق مرحوم کی ذات تھی عالمی شہرت یافتہ شخصیت جس کہ دہن کے چشمہ شیریں سے نکلے ہوءے کلمات عطاشی علم کو سیراب کر رہے تھے نہ جانے کتنے خانوادوں کے پالنہار بھی تھے اور علم کی تشنگی رکھنے والوں کے لیے بے مثال معین و مددگار بھی تھے حقیقی خادم قوم ملت اگر کسی کو کہا جاءے تو وہ مرحوم کی ذات عالی وقار تھی جس نے اس پر آشوب دور سیاست میں بھی اپنے ضمیر کو بکنے نہیں دیا کسی کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور نہ کبھی کسی سیاسی شخصیت کے سامنے زانو ادب تہہ کءے بلکہ اپنے مدبرانہ اور حکیمانہ بیان سے سیاست کے بازی گروں کو کبھی کسی مخالفت کا موقع نہیں دیا زمانہ طالب علمی میں ہمیں یاد ہے کہ جب بھی آصفی مسجد میں آپ کی قیادت میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا شرف ملتاتو محسوس ہوتا تھا کہ ایک شیریں سخن مقر کے لیے چیخ و پکار یا الفاظ کی جزالت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک مخلصانہ لہجہ ضروری ہے جو اپنے پیغام کو سننے والو کے دل میں اتار دے اور یہ فن تکلم مرحوم کی ذات میں قدرت کا الہام تھا جس کے وہ اپنے زمانہ میں ایک انوکھے واعظ تھے
ان کی ذات کے ان کی حیات کے کس کس گوشۂ کو صفحہ قرطاس کے حوالہ کروں سمندر کو کوزہ میں سمیٹنے کا ہنر مجھے نہیں آتا
آخر میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں دست دعا ہوں کہ باطفیل آءمہ طاہرین جنت فردوس میں جگہ عنایت فرماءے
ہم سبھی پسماندگان وابستگان خویشان و دانشوران، اور خاندان اجتھاد کےافراد کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں اور اہل ایمان سے سورہ فاتحہ مع اخلاص پڑھنے کی گزارش ہے
شریکِ غم
خطیب شعور
گلزار جعفری
News ID: 363980
25 نومبر 2020 - 22:00
- پرنٹ
حوزہ/ عالم کی موت عالم کی موت ہے کا ایک أبرز مصداق مرحوم کی ذات تھی عالمی شہرت یافتہ شخصیت جس کہ دہن کے چشمہ شیریں سے نکلے ہوءے کلمات عطاشی علم کو سیراب کر رہے تھے نہ جانے کتنے خانوادوں کے پالنہار بھی تھے اور علم کی تشنگی رکھنے والوں کے لیے بے مثال معین و مددگار بھی تھے۔