تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | بڑی محنت سےسیاہ و سفیدگوسفند کے اون کو آپس میں مخلوط کر کے میں نے ایک دیدہ زیب عربی پیراہن جسے جبہ کہتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے تیار کیا حضور کی خدمت میں پہنچا نہایت ادب و احترام کے ساتھ حضور کی خدمت میں اس پیراہن کو بطور ہدیہ پیش کیا، حضور نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور دیدہ تحسین سے دیکھا ہی نہیں بہت تعریف بھی کی اور پوچھا سہیل: تم نے خود سلائی کیا ہے؟۔ جی سرکار! اپنے ہاتھوں سے آپکے لئے سی کر لایا ہوں سفید و سیاہ رنگ کا حسین امتزاج یوں نہیں ہے بہت محنت کی ہے تاکہ موجودہ شکل میں ڈھل آئے۔۔۔۔
حضور نے اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: بہت ہی اچھا سلا سہیل لا جواب کیا کہنے؟ مجھے پسند آیا یہ کہہ کر حضور (ص) نے ایک طرف رکھا ہی تھا کہ سہل بن سعد کے بقول ایک اعرابی آیا اور حضور (ص) کے ہاتھ میں دیدہ زیب پیرہن دیکھ کر اس نے کہا ؟ یا رسول اللہ بڑا اچھا پیرہن ہے اسے مجھے دے دیجئے، فورا ہی حضور (ص) نے اسکے حوالے کر دیا وہ دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔
ابن مسعود سے نقل ہے، ہم نے بارہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کسی ایسے پیغمبر کی داستان کو بیان کرتے تھے کہ جنکی قوم نے انہیں اذیت دی اور ستایا اور وہ اس حال میں کہ خون اپنے چہرے سے صاف کر رہے ہوتے تھے کہتے تھے '' پروردگار! میری قوم کو بخش دے کہ یہ لوگ جاہل اور ناسمجھ ہیں۔ (1)
جابر بن سمرة اپنے کمسنی کے دور کی ایک روایت بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ کے ساتھ پہلی نماز کو بجا لایا، بعد نماز آپ اپنے گھر والوں کے پاس گئے، میں بھی آپ کے ساتھ ہو لیا، آپکے دونوں نواسوں نے آپکا بڑھ کر استقبال کیا، آپ نے دونوں بچوں کے رخساروں پر جس طرح شفقت سے ہاتھ پھیرا میرے بھی رخساروں پر ویسے ہی ہاتھ پھیرا اور میں نے آنحضرت کے ہاتھوں میں ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ نے ان ہاتھوں کو ابھی کسی عطر کے چرمی تھیلے سے باہر نکالا ہو۔ (2)
"مالک بن الحویرث" نے روایت کی ہے کہ ''ہم چند ہم سن و ہم عمر جوان پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس شب حضور کی خدمت میں رہے آنحضرت کو یہ گمان ہوا کہ ہمیں اپنے گھر والوں کی یاد آ رہی ہے، انہوں نے ہمارے گھر والوں کے بارے میں ہر ایک سے الگ الگ سوال کیا اور ہم میں سے سب نے اپنے گھر والوں کے بارے میں بتایا۔ آپ بہت شفیق و محبت کرنے والے تھے آپ نے فرمایا: اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ اور انہیں اسلامی تعلیمات سکھاؤ اور جس طرح تم نے مجھے نماز کی حالت میں دیکھا ہے ویسے ہی نماز پڑھو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک اذان کے لئے کھڑا ہو جائے پھر جو تم میں سب سے بڑا ہے وہ نماز کی امامت کیلئے اٹھ کھڑا ہو۔(3)
" اسامہ بن زید" نے روایت کی ہے ''پیغمبرِ خدا مجھے ایک زانو پر بٹھاتے تھے اور حسن ابن علی کو دوسرے پر پھر ہم دونوں کو قریب کر کے فرماتے تھے ''پروردگار ان پر اپنی رحمتیں نازل کر میں بھی ان کے ساتھ مہربان ہوں۔ (4)
اصحاب سے نقل ہے، خدا کی قسم جب بھی ہم سفر یا حضر میں پیغمبر (ص) کے ساتھ ہوتے تو آپ ہمارے مریضوں کی عیادت کرتے، اگر کوئی مر جاتا تو تشیع جنازہ میں شرکت کرتے، جنگوں میں ہمارے ساتھ شریک رہتے، ہماری تنگی و وسعت کے ساتھ نبھاتے اور اس میں بھی شریک رہتے، اسی مضمون کے کلمات امام علی علیہ السلام سے بھی منقول ہیں۔ (5)
امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ''محتاج اور بے نوا لوگ راتوں کو مسجد میں ٹہر جاتے تھے ، ایک شب آنحضرت (ص) نے مسجد میں منبر کے نزدیک سب کے ساتھ مخصوص ظرف میں افطار کیا اور تیس لوگوں نے اسکے بعد اسی ظرف میں افطار کیا پھر آپ اس ظرف کو لیکر اپنی زوجات کے پاس چلے گئے اور وہ بھی اسی سے سیر ہوگئیں۔ (6)
ہم خندق کھودنے میں پیغمبر کے ساتھ تھے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا روٹی لیکر حاضر ہوئیں اور اسے پیغمبر کو دیا، آنحضرت نے پوچھا یہ روٹی کس کے لئے ہے، جناب فاطمہ نے جواب دیا ایک روٹی حسن کے لئے دوسری حسین کے لئے پکائی تھی اور یہ آپ کے لئے لائی ہوں پیغمبر (ص) نے جواب دیا اے فاطمہ! تین دن کے بعد یہ پہلی غذا ہے جو تمہارے بابا کے پیٹ میں گئی ہے۔(7)
"ابو قتادہ" کہتے ہیں، حاکم حبشہ نجاشی کی طرف سے ایک وفد آیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اس کے استقبال کے لئے گئے اور خود ہی انکی خدمت کی اصحاب کرام نے کہا، حضور (ص) آپ رہنے دیں ہم انکی ویسی ہی خدمت کریں گے جیسے آپ کہیں گے لیکن آپ بیٹھ جائیں اچھا نہیں لگتا۔ آپ نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نئے نئے مسلمان ہونے والے افراد کی خدمت کی تھی، جنہوں نے حبشہ میں پناہ لی تھی میں چاہتا ہوں بنفس نفیس انکی خدمت کروں تاکہ انکی محبتوں کا کچھ حق ادا کر سکوں۔ (8)
امام صادق علیہ السلام سے روایت کا مضمون کچھ یوں ہے کہ "حضور کی رضاعی بہن کو اسیر کر کے لایا گیا، جیسے ہی حضور نے دیکھا بہت خوش ہوئے، احترام میں کھڑے ہو گئے، اپنے ہاتھوں سے فرش بچھایا اور متبسم انداز میں گفتگو کی"۔ (9)۔
" عمرو بن صائب" سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف فرما تھے آپکی مادر رضاعی آپکی خدمت میں پہنچیں آپ نہ صرف اپنی جگہ سے اٹھے بلکہ آپ نے اپنی ردا انکے لئے بچھا دی اور انہیں اس پر بٹھایا۔
"ابو امامہ" کہتے ہیں، "ہم نے دیکھا رسول اللہ کے ہاتھوں میں ایک عصا ہے اور وہ دھیرے دھیرے ہماری طرف آ رہے ہیں، ہم فورا احتراما کھڑے ہو گئے آپ نے ہمیں منع کیا کہ جیسے عجم اپنے حاکموں کے ڈر سے کھڑے ہوتے تم کھڑے نہ ہو"۔
سفر پر گئے پانی کی تنگی تھی اور پانی کی مشک ابو قتادہ کے ہاتھوں میں تھی حضور نے کہا قتادہ پانی کہاں ہے؟ حضور یہ پانی آپکی خدمت میں ہے، قتادہ کیا تمہیں پیاس نہیں لگی؟ جی حضور لیکن پہلے آپ پی لیں، پھر نہیں قتادہ پہلے تم پیو کیونکہ ساقی قوم وہ ہوتا ہے جو سب کو پلاتا ہے اور آخر خود آخر میں پیتا ہے۔
"انس بن مالک" کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی ۱۰ سال خدمت کی اور اس دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضور نے مجھے خدمت سے متعلق کسی بات پر میری سرزنش کی ہو یا مجھے ڈانٹا ہو، جبکہ ایسا ہوا کہ میری وجہ سے حضور کو مشکل پیش بھی ہوئی، پھر انس ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور کے لئے دودھ ایک شربت بنایا کہ حضور اس سے افطار کریں، بعد از نماز حضور کو لوٹنے میں دیر ہوئی تو میں نے سوچا کہ یقینا آپ اصحاب کے ساتھ افطار کر کے آئیں گے تو یہ سوچ کر شربت خود پی لیا، رات کا ایک حصہ گزرنے کے بعد حضور تشریف لائے اور مجھ سے کچھ کہے بغیر اپنے بستر پر چلے گئے، میں نے اطمینان کے لئے حضور کے ساتھ آنے والوں سے پوچھا کہ کیا حضور نے کچھ تناول کیا تھاَ ان لوگوں نے کہا نہیں حضور نے ہمارے ساتھ کچھ نہیں کھایا، جبکہ دوسرے دن میں نے دیکھا حضور نے پھر صبح اٹھ کر روزہ رکھا ہوا تھا جبکہ نہ مجھ سے شربت کے بارے میں کچھ پوچھا، نہ مجھے کسی بات کا احساس ہونے دیا اور آج تک میرے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا کہ کبھی سوال نہیں کیا کہ تم نے وہ شربت کیا کیا جو میرے لئے بنایا تھا۔؟
یہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کی کچھ جھلکیاں تھیں، جن میں اگر ہم سیکھنا چاہیں تو بہت کچھ ہے اور اگر سیرت پیغمبر (ص) کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا چاہیں تب بھی بہت کچھ ہے۔ سیرت پیغمبر (ص) کے ان انمٹ نقوش کے درمیان یہ حدیث شاید ہماری زندگی کی نہج اور ہماری زندگی کا تصور ہی بدل دے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ پروردگار روز قیامت اسکی مدد کرے اسے چاہیئے کہ دنیا میں خلق خدا کی خدمت کرے، (خدا اسی کے کام آئے گا جو اسکے بندوں کے کام آئے گا۔ (10)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ ابن حنبل ، مسند ،جلد ١ ص ٤٤١ ،و مسلم ، جلد ٣ ، ص ١٩١٧ ،2
2۔ مسلم جلد ٤، ص ١٨١٤ ۔ح٨٠
3۔ مسلم، گذشتہ حوالہ ص ٤٦٥، ح ٤٦٦ و علل الشرائع ، ص ٣٢٦ ،ح ٢
4۔ بخاری، جلد ٥، ص ٢٢٣٦، و شیخ صدوق ، ص ٣٤ ، ح ١٥٣
5۔ ابن حنبل، ج ١، ص ٧٠، و نھج البلاغہ خطبہ ١٠٠
6۔ مجلسی ، ج، ١٦، ص ٢١٩
7۔ مجلسی ، ج،١٦، ص ٢٢٥، طبقات ابن سعد ، جلد ، ٢ ص ١١٤
8۔ سفینۃ البحار ، جلد ۱ ص ۴۱۷
9۔ ایضا
10۔ (مسلم، ج، ٣، ص ١١٩٦، ح، ٣٢ ، ثواب الاعمال، جلد ١ ص ١٧٩ ،ح ١)