۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
رشوت

حوزہ/ کفار و مشرکین، مسلمانوں کے شہروں پر تسلط اور اسے اپنے اختیار میں لینے میں کوشاں ہیں تاکہ  مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھیں، انہوں نے رشوت خوری کی ترویج کو اس کا مقصد میں کامیابی کا بہترین و بنیادی طریقہ سمجھا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیکفار و مشرکین، مسلمانوں کے شہروں پر تسلط اور اسے اپنے اختیار میں لینے میں کوشاں ہیں تاکہ مسلمانوں کو اپنا غلام بنا کر رکھیں، انہوں نے رشوت خوری کی ترویج کو اس کا مقصد میں کامیابی کا بہترین و بنیادی طریقہ سمجھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اس تسلط کے شر سے بچاو اور نجات کا کوئی راستہ ہے ؟ کیا اس بات کا امکان ہے کہ مسلمان اپنے دشمنوں کی طرف سے دی گئی ہوئی رشوت کی لالچ کے چال میں نہ پھنسیں ؟ رشوت نہ لیں ؟ اس بدترین سماجی اور اخلاقی صفت کے ذریعہ مغلوب نہ ہوں ؟ حالانکہ ان کا یہ عمل اختیاری ہے کہ چاہیں تو اسے قبول کریں اور چاہیں سے قبول نہ کریں۔

ہاں ! سامراج اور الحادی بلکہ یوں کہا جائے کہ شیطانی طاقتوں کا ہمیشہ یہ شیوہ رہا ہے کہ ضیف الایمان مسلمانوں کو رشوت کا جھانسہ دے کر انہیں اپنا غلام بناتے ہیں اور پھر اپنے اہداف و مقاصد کو اسانی کے ساتھ اسلامی معاشرہ، ممالک و سرزمین پر عمل جامہ پہنا دیتے ہیں۔

رشوت کے علاوہ کوئی اور ایسا وسیلہ نہیں جس کے ذریعہ وہ ہمارے اوپر غلبہ پا سکیں، امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب، امام حسن مجتبی اور امام حسین علیہم السلام کی شھادت میں بھی رشوت کا اہم کردار ہے، کیونکہ معاویہ نے عثمان کے بیٹے سے کہا جب بھی تم کو یقین ہو جائے کہ تمہاری کامیابی یقینی ہے تو خراسان تمہارے حوالے کر دیا جائے گا، یا جعدہ بنت اشعث کو یزید سے عقد کی رشوت پیش کی گئی یا واقعہ کربلا میں پسر سعد کو حکومت ری کی رشوت دی تھی۔

نہج البلاغہ میں اشعث بن قیس کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت علی (ع) کے محکمہ عدل میں اپنے مد مقابل پر کامیابی کے لیے رشوت لے کرآیا۔(۱)

ہوا یوں کہ اشعث بن قیس رات کے وقت ایک لذیذ حلو ے سے بھرا ہوا ڈبہ لے کر حضرت علی (ع) کے دروازے پر آیا ۔ وہ اسے ہدیہ کے طور پر پیش کیا تو حضرت (ع) نے غصے کے عالم میں اس سے فرمایا "ھبلتک الھبول اعن دین اللہ اتیتنی لتخذ عنی و اللہ لواعطیت الا قالیم السبعة بما تحت افلاکھا علی ان اعصی اللہ فی نملة اسلبھا جلب شعیرة ما فعلة وا ن دنیا کم عندی لاھون من ورقہ فی فم جرادة تقضمھا ما لعلی و لنعیم یفنی و لذرة لا تبقی" سوگوار تجھ پر روئیں، کیا تو اس لیے آیا ہے کہ مجھے فریب دے اور مجھے دین حق سے باز رکھے، خدا کی قسم اگر سات اقلیم سب چیزوں کے سمیت جو ان کے آسمانوں کے پنجے میں ہیں صرف اس کے بدلے مجھے دے دی جائیں کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا ظلم سے چھین لوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا، میرے نزدیک یہ دنیا ٹڈی کے منہ میں چبائے ہوئے پتے سے بھی زیادہ بے وقعت ہے، علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور جلد گزر جا نے والی لذتوں سے کیا کام۔(۲)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۲: نهج البلاغه، شريف رضى، محمد بن حسين‏، محقق / مصحح: صبحي صالح، هجرت‏، قم‏، ‏1414 قمری، چاپ اول، ص 346، خطبه 224.

۳: الامام علی، جلد ۱، ص۱۵۵، ح ۱۵۶

تبصرہ ارسال

You are replying to: .