حوزہ نیوز ایجنسیl
ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی
ماہ رمضان المبارک کے بائیسویں دن کی دعا
أَللّـهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ أَبْوابَ فَضْلِكَ وَ أَنْـزِلْ عَـلَىَّ فـيـهِ بَـرَكاتِـكَ وَ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوجِباتِ مَرْضاتِكَ وَ أَسْكِنّى فيهِ بُحْبُوحاتِ جَنّاتِكَ يا مُجيبَ دَعْـوَةِ الْمُضْـطَرّينَ۔
ترجمہ:اے معبود! آج کے دن میرے لئے اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دے، اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل فرما، اور اس میں مجھے اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اس کے دوران مجھے اپنے بہشتوں کے درمیان بسا دے، اے بےبسوں کی دعا قبول کرنے والے۔
اہم نکات ۱)پروردگار کے عظیم آستانے پر؛۲)خدا کی برکتیں؛۳)توفیق اور ہمیشہ توفیق کی درخواست؛۴)عاقبت بخیر ہونا اور نتیجتاً بہشت کا میسر آنا۔ |
۱–أَللّـهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ أَبْوابَ فَضْلِكَ:
اس جملہ سے سمجھ میں آتا ہے کہ خدا کے فضل کا راستہ ایک ہی نہیں ہے بلکہ اس کے عنایات و فضل و کرم کے دروازے الگ الگ اور مختلف ہیں اس تک پہنچنے کے راستے انسانوں کی آنے جانے ولی لمحہ بہ لمحہ سانسوں سے بھی زیادہ ہیں، اپنے پروردگار کے لطف و کرم اور فضل و عنایات تک پہنچنے کے متعدد راستے تو موجود ہیں لیکن اسکی شرط یہ ہی کہ یہ راستے ''صراط مستقیم'' ہوں اور شارٹ کٹ کے چکر میں نہ پھنسیں ورنہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا؛خدا کے فضل و عنایت کے دروازے ایک طرح سے علتوں اور مختلف اسباب کی بنا پر انسان کے روبرو کھلتے ہیں ،اور جب اسکی نظر کرم کسی پر پڑتی ہےتو ایسا انسان ہمیشہ کے لئے اسکی توجہات کا مرکز بنتا چلا جاتا ہے، اسی لئے استمرار عنایت کی بھی دعا کرتے رہنا چاہیئے کیونکہ یہ خود بذاتہ ایک دوسرا تفضّل ہے ،اسی بنا پر وہ لوگ جو ہدایت یافتہ ہیں وہ بھی کم از کم روزانہ دس بار دہراتے رہتے ہیں ''اھدنا الصراط المستقیم''اگر انسان پر خدا کے فضل و کرم کا دروازہ کھل جائے تو انسان کی حالت لمحہ میں بدل سکتی ہے۔۔۔۔
خدا کے فضل کا ایک دروازہ ان بہترین افراد کی خلقت اور انہیں ہم لوگوں کے درمیان بھیجنا ہے ،چودہ معصومینEکی ذات والا صفات تمام موجودات کی خلقت کا سبب ہے اور یہ وہ نفوس مطہرہ ہیں جو انسان کامل ہیں ،باغ کا باغباں کوشش کرتا ہے کہ اپنے باغ کے سب سے بہترین اور اچھے پھلوں کا انتخاب کرے رب العزت نے بھی ان نفوس طاہرہ کا انتخاب کرکے ہم پر اپنے فضل کا ایک دروازہ کھول دیا اب جو ان سے متمسک ہوگا وہ کامیاب یقیناً رہے گا کیونکہ اگر آئمہ معصومین Eنے تھوڑی سی بھی نظر عنایت ہم پر ڈال دی تو نصیبا بدل سکتا ہے۔۔۔
رسولخدا صلی 1اور آئمۂ طاہرین Eواسطۂ فیض ذوالجلال اور اسکے فضل کے ضمانت شدہ اسباب ہیں اسمیں کوئی شک نہیں، اگر انکی نظر کرم ہم پر پڑگئی تو یہ ذرہ کو بھی آفتاب بنا سکتے ہیں؎
به ذرہ گر نظر لطف بوتراب کند به آسمان رود،وکار آفتاب کند
۲–وَ أَنْـزِلْ عَـلَىَّ فـيـهِ بَـرَكاتِـكَ:
اس دوسرے فقرہ میں ہم اس مہینے کی برکتوں کے طلبگار ہیں ، صرف ایک برکت کے خواہشمند نہیں بلکہ ہمیں ساری برکتیں چاہیئے اور درست بھی ہے اس عظیم سے عظیم اور بڑی ہی چیز مانگنی چاہیئے اسکے باوجود وہ ہماری نظر میں عظیم ہوگی اُسکے لئے تو ہماری بڑی مانگ بھی چٹکیوں میں حل کی جاسکتی ہے۔۔۔اور سلیقہ بھی اسی نے سکھا دیا کیسے بھرپور طریقہ سے مانگو: وَ مِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنٰا آتِنٰا فِي اَلدُّنْيٰا حَسَنَةً وَ فِي اَلْآخِرَةِ حَسَنَةً وَ قِنٰا عَذٰابَ اَلنّٰارِ؛ اور بعض کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اورآخرت میں بھی اور ہم کو عذاب جہّنم سے محفوظ فرما [1]۔
برکات کے متعدد مصادیق ہیں جیسے عمر میں برکت ،مال و دولت میں برکت،زندگی میں برکت، نسل و ذرّیت میں برکت،مگر افسوس کچھ ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں جنکے پاس مال و دولت اور اولاد ہونے کے باوجود ان چیزوں کے ذریعہ خیر وبرکت حاصل نہیں کرپاتے ، شہروں میں موجود اولڈ ہؤس چیخ چیخ کر کچھ کہانی بیان کرتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرہ کا عجیب اور ہولناک منظر پیش کرتے ہیں۔۔۔۔ کچھ اچھے لوگ اپنے مال و دولت سے ایسا کام کرتے رہتے ہیں جو انکی خیرات و برکات کا سبب بنا رہتا ہے ،مسجد، امامباڑہ،مدرسہ، ہاسپیٹل،دواخانہ بناتے ہیں اور اچھے اچھے کام کرتے رہتے ہیں ،جو کوئی اپنے مال کا ایک چھوٹا ساحصہ بطور خمس یا بطور زکات جو کہ واجب بھی ہے اسکے مال و دولت میں خدا برکتیں ڈال دیتا ہے اور اسکے کاروبار اسکی تجارت میں روز افزوں ترقی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
بہر حال ہمیں ہر حال میں خدا سے اپنے لئے برکت طلب کرتے رہنا چاہیئے،نسل میں میں علم میں عمر میں ، بعض لوگ نوّے سال جیتے ہیں لیکن ان کے توسط کوئی بھی قابل ذکر چیز باقی نہیں پائی جاتی مگر بعض دوسرے افراد ،عمر کم ہونے کے باوجود اپنے پیچھے ایسے آثار چھوڑ جاتے ہیں جنکی پوری دنیا آج تک مقروض نظرآتی ہے اسے کہتے ہیں عمر میں برکت، لمبا جینے کا نام عمرمیں برکت نہیں ہے بلکہ جتنا جئیں، انسانیت کے کام آئیں یہ عمر کی برکت ہے۔۔۔
۳–وَ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوجِباتِ مَرْضاتِكَ:
آپ نے مسجد میں نماز کے بعد بہت سے لوگوں کو دعا کرتے دیکھا ہوگا اکثر لوگ ایک دعا ضرور کرتے ہیں : یا اللہ تو راضی ہوجا! اگر بندے سے اللہ راضی ہوجائے تو پھر اسے اور کیا چاہیئے یہ بہت بڑی نعمت ہے جو توفیق الہٰی سے ہی حاصل ہوتی ہے یہی اللہ کی خوشنودی ہے جو نصیب والوں کو ملتی ہے اللہ کی خوشنودی کی طرف جس راستے سے پہنچاجاتا ہے اسے رزق حلال کہتے ہیں حلال کی تاثیر یہ ہے کہ دل نرم پڑ جاتا ہے زرا سی غلطی ہوجائے تو دل خوف خدا سے کانپ اٹھتا ہے اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق عطا ہوجاتی ہے دوسروں سے زیادہ اپنی غلطیوں پر نظر رہتی ہے اپنی اصلاح کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی ہے۔۔۔۔۔
اللہ کی رضایت کا حصول اللہ کے بندوں کو خوش کرنے میں ہے، اللہ کے ان بندوں کا احترام کیا جائے جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔۔۔ اور ہم جیسے کم فہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے بہتر ہیں یہی تو وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے اللہ ہمیں فراواں رزق عطا کرتا ہے ہم ان کی خدمت کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔۔۔
اس واقعہ پر توجہ فرمائیں: گاہک نے دکان میں داخل ہو کر دکاندار سے پوچھا: سیب کا دام کیا ہے؟ دکاندار نے جواب دیا: بارہ درہم۔ اتنے میں ایک خاتون بھی دکان میں داخل ہوئی اور کہا : مجھے ایک کیلو سیب چاہیئے کیا قیمت ہے ؟ دکاندار نے کہا سیب تین درہم فی کیلو ۔دکان میں پہلے سے موجود گاہک نے کھا جانے والی غضبناک نظروں سے دکاندار کو دیکھا، دکاندار نے اشارے سے گاہک کو تھوڑا انتظار کرنے کو کہا، عورت خریداری کرکے خوشی خوشی دکان سے نکلتے ہوئے بڑ بڑائی: اللہ تیرا شکر ہے میرے بچے انہیں کھا کر خوش ہوں گے۔ عورت کے جانے کے بعد دکاندار نے گاہک سے مخاطب ہوکر کہا اللہ گواہ ہے میں نے تجھے کوئی دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی یہ عورت چار یتیم بچوں کی ماں ہے کسی سے بھی کسی قسم کی مدد لینے کو تیار نہیں ہے اب مجھے یہ طریقہ سوجھا ہے کہ جب کبھی آئے تو اسے کم سے کم دام لگا کر پھل دیدوںمیں چاہتا ہوں کہ اس کا بھرم قائم رہے اور اسے کسی کی محتاجی کا احساس بھی نہ ہو میں یہ تجارت اللہ کے ساتھ کرتا ہوں اور اس کی رضا اور خوشنودی کا طالب ہوں۔ گاہک کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس نے آگے بڑھ کر دکاندار کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے کہا : بخدا لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں جو لذت ملتی ہے اسے وہی جان سکتا ہے جو اس تجربے سے گزرا ہو!۔
۴–وَ أَسْكِنّى فيهِ بُحْبُوحاتِ جَنّاتِكَ:
اس دعا میں جنت کے بیچوں بیچ، وسط میں سکونت کی فرمائش ہے؛'' بُحْبُوحاتِ'' کے معنیٰ وسط کے ہیں ؛ جس طرح ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی میں شہر کے بالائی حصہ شہر کے نچلے حصہ، پاش علاقہ اور یونہی سے علاقے سے روبرو ہوتے ہیں اسی بنا پر ہر حصہ کی الگ الگ قیمت ہوتی ہے، اسی طرح بہشت کی زمینوں اور حصوں کے بھی مراتب ہیں اور ہر جگہ ایک ہی طرح کی نہیں ہے اور ہر کوئی ہر جگہ آجا نہیں سکتا۔۔۔
حضرت جعفر طیار اور مولاعباس Hکے سلسلہ میں موجود ہے کہ بہشت میں انکے پاس دو پَر ہونگے جنکے ذریعہ وہ جہاں چاہیں گے آجاسکیں گے:قَالَ عَلِيُّ بْنُ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ : رَحِمَ اَللَّهُ اَلْعَبَّاسَ يَعْنِي اِبْنَ عَلِيٍّ فَلَقَدْ آثَرَ وَ أَبْلَى وَ فَدَى أَخَاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى قُطِعَتْ يَدَاهُ فَأَبْدَلَهُ اَللَّهُ بِهِمَا جَنَاحَيْنِ يَطِيرُ بِهِمَا مَعَ اَلْمَلاَئِكَةِ فِي اَلْجَنَّةِ كَمَا جَعَلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ۔۔۔ َآپ دونوں بزرگوار جہاں چاہیں جاسکتے ہیں نہ کہ ہر کوئی۔۔۔اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بہشت کا مرکزی اور بیچ کا حصہ بہشت کے دوسرے حصوں کی بہ نسبت زیادہ برتر ہےاور شاید یہ اس وجہ سے ہو کہ بہشت کا مرکزی حصہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام کی جائے سکونت ہو۔۔اسی لئے ہم بھی اس دعا کے ذریعہ اس جگہ کی تمنا ظاہر کرتے ہیں۔
۵–يا مُجيبَ دَعْـوَةِ الْمُضْـطَرّينَ:
انسانِ مضطر کی پناہ گاہ سوائے ذات باری کے کون ہوسکتا ہے، بیچ دریا میں کشتی غرق ہونے لگے تو خدا کا احساس جاگتا ہے ،ہوئی جہاز گرنے لگے تو خدا کی طاقت محسوس ہوتی ہے، چاروں طرف سے مشکلات گھیر لیں تو خدا یاد آتا ہے۔۔۔۔۔اور پھر بے ساختہ لبوں سے یہی جملہ نکلتا ہے۔۔ اے بےبسوں کی دعا قبول کرنے والے۔
نتائجدعا کا پیغام:1- خدا کے فضل و کرم کی وسعت؛2- ماه رمضان میں برکاتِ الٰہی کی طلب؛3- رضائے الٰہی کو حاصل کرنے میں کامیابی؛4- بہشت میں سکونت کی استدعا؛5-دعائے مضطر کی اجابت کی درخواست۔ منتخب پیغام:️امام جوادAفرماتے ہیں: «اَلْمُؤمِنُ يَحْتَاجُ إلَی تَوْفِيقٍ مِنَ اللهِ۔۔۔ ؛ مؤمن۔۔۔ توفيقِ الٰہی کا محتاج ہے[2]۔ |