۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ماہ رمضان المبارک کے اٹھارھویں دن کی دعا

حوزہ/منتخب پیغام: امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ جبرئيلؑ سےپيغمبرﷺنے کہا: «اے جبرئيل! مجھے موعظه كیجیئے» جبرئيلؑ نےعرض كیا: «اے محمد! چاہے جیسے چاہو زندگی گزارو؛ لیکن یاد رکھو کہ ایک دن موت آنی ہی ہے،چاہے جسے چاہو دوست بناؤ؛مگر یاد رکھو کہ آخر کار جدائی مقدر ہے،چاہے جیسے عمل کرو؛لیکن جان لو کہ تمہارے کیے کی جزا ضرور ملے گی!جان لو اور ذہن نشین کرلو کہ ہر شخص کا شرف اسکی سحر خیزی اور اسکا لوگوں سے بے نیاز ہونے میں پوشیدہ ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

ماہ رمضان المبارک کے اٹھارھویں دن کی دعا

ماہ رمضان المبارک کے اٹھارھویں دن کی دعا/دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

أَللّـهُمَّ نَبِّهْنى فيهِ لِبَرَكاتِ أَسْحارِهِ وَ نَـوِّرْ فـيهِ قَـلْبى بِضيـآءِ أَنْـوارِهِ وَ خُذْ بِكُلِّ أَعْضآئى اِلَى اتِّباعِ آثارِهِ بِنُورِكَ يا مُنَـوِّرَ قُـلُوبِ الْعارِفينَ [1]۔

ترجمہ:خدايا آج كے دن مجھے سحر كي بركتوں كے لئے بيدار ركھنا اور ميرے دل كو اس كے انوار سے منور كردينا اور ميرے تمام اعضاء كو اس كے آثار كے اتباع پر آمادہ كردينا اپنے نور كے ذريعہ اے عارفوں كے دلوں كو منور كرنے والے۔

اہم نکات

۱)شب زندہ داروں کی روشن نگاہیں؛۲)دل کی روشنی؛۳)جسم ،جان و روح کی خدمت میں۔

دعائیہ فِقرات کی مختصر تشریح

۱– أَللّـهُمَّ نَبِّهْنى فيهِ لِبَرَكاتِ أَسْحارِهِ:

اس دنیائے امکان کا بہ نظر غائر اگر مطالعہ کیا جائے تو اس کی ہر چیز چاہے عرض ہو یا جو ہر حضرت حق کے فضل وکرم کی محتاج نظر آتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سواٰ کسی چیز کے و جود میں استقلال قابل تصور نہیں ہے لہٰذا ذات باری کے علاوہ تمام موجودات فقر ذاتی کا مجموعہ ہیں اسی لئے ہمیں ہر گھڑی ہر آن اس موجود لم یزل سے دعا ؤں کے ذریعہ رابطہ بنائے رکھنا چاہیئے؛بہر کیف،بیت المسلم ( مسلم گھرانے ) کے ہر طبقے میں صبح کی بیداری کچھ الگ الگ انداز کی ہوتی ہے ، عام طور پر صبح بیداری کی آج جو کیفیت پائی جاتی ہے وہ صبح سات بجے کی ہے ، تو ہم کس طرح سحر کی برکتیں حاصل کرپائینگے خدا ہی جانے، اکثر مائیں اپنے شوہر اور بچوں کو اسکول یا آفس روانہ کرنے کیلئے اٹھتی ہیں ،انہیں نہ نماز کی فکر اور نہ تلاوت قرآن کی نہ اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس اسی طرح گھر کے ہر فرد کا عمومی طور پر یہی حال ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج یہ ماحول بیت المسلمین بن گیا ہے ، صبح جب اللہ کے ذکر سے نہ ہوگی تو پھر اس گھر میں خیر و برکت کیسے آئے گی ۔ اکثر بیت المسلم ( مسلم گھرانوں ) میں یہ عام ہوگیا ہے کہ رات دیر گئے جاگنا اور دعوتوں میں یا سیریلس دیکھنے میں یا پھر لایعنی گفتگو و انٹرنیٹ و موبائل پر ایس ایم ایس میں اپنے آپ کو مشغول رکھا جاتا ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مغرب و عشاء کی نماز بھی چھوٹ جاتی اور فجر میں اٹھاہی نہیں جاتا ، یہ بہت ملال انگیز صورت حال ہے کہ مساجد میں فجر کے وقت بہت کم لوگ آتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر جھکی ہوئی کمر والے، بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، نوجوان خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔اگر ہمارے قلوب ایمان کی حلاوت سے آشنا ہوں تو جس طرح لوگ گناہوں کی لذت کی خاطر رات بھی جاگ کر گزار دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم اطاعتِ خدا وندی کی لذت کی خاطر رات کی آخری گھڑیوں میں نیند سے بیدار ہو کر اللہ کی عبادت کر سکتے ہیں،آج کل یہ بیماری بڑی عام ہے کہ لوگ رات گئے جاگتے ہیں اور نصف شب کے بعد سوتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ انسان اگلے دن کی مصروفیات میں بدنظمی کا شکار رہتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سونے کے بعد بھی جسم سکون و طمانیت کی نعمت سے محروم رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم کے نظاموں پر مصنوعی روشنی کافی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ رات کو دیر سے سونا خصوصًا جب ٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین سے نکلنے والی مصنوعی روشنیوں کے سامنے بیٹھا جائے اور صبح دیر سے اٹھنا انسان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد انسان کے جسم کے اندر اللہ تعالٰی کی لگائی فطری گھڑی (Circadian Rhythm) جسم کو یہ پیغام دیتی ہے کہ جسم سے خارج ہونے والے دباؤ (Stress) کے ہارمون یعنی (Cortisol) کی مقدار کم ہو جائے اور اس کے مقابلے میں رات کے اندھیرے میں خارج ہونے والے ہارمون (Melatonin) کی مقدار خون سے زیادہ ہو۔ (Cortisol) ہارمون کے جہاں فوائد ہیں وہاں اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو بوڑھا جلدی کرتا ہے۔ اس کے برعکس (Melatonin) ہارمون جو دماغ کے پائینیل غدود (Glands Pineal ) وغیرہ کے عمل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ (The Merck Indes مطبوعہ امریکہ 2003ء)

جب انسان تیز مصنوعی روشنیوں کے سامنے رات کو بیٹھا رہے اور پھر سورج نکل آنے کے بعد بھی سوتا رہے تو جسم کے اندر ہارمونز کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور جسم کے دباؤ Tissues کی مرمت وغیرہ کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور انسان کی صحت پر وقت گزرنے کے ساتھ برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

امام ہادی Aفرماتے ہیں: اَلسَّهَرُ أَلَذُّ لِلْمَنَامِ، وَ اَلْجُوعُ يَزِيدُ فِي طِيبِ اَلطَّعَامِ؛اگر کوئی چاہتا ہے کہ نیند کی لذت کو محسوس کرے تو اسے چاہیئے کہ شب زندہ داری کرے بلکل اسی طرح کہ اگر غذا کی لذت محسوس کرنا چاہتے ہو تو بھوک کو محسوس کرو[2]۔

۲–وَ نَـوِّرْ فـيهِ قَـلْبى بِضيـآءِ أَنْـوارِهِ:

قلب؛ ظاہری طور پرایک بلڈ پمپنگ مشین ہے جو پورے بدن میں خون کی صفائی و سپلائی کی ذمہ دار ہے۔۔اسے مسلز کا ایک لوتھڑا سمجھ لیں، جو اُس وقت سے تھرتھراہٹ میں ہے جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے۔۔ جس دن اسکی کپکپاہٹ رک گئی، تو سمجھیں وہ ہماری زندگی کی آخری سانس ہوگی۔۔خون ایک ناپاک چیز ہے، اگر جسم سے نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک۔۔ لیکن عجیب بات ہے کہ قرآن مجید کا نزول قلب پر ہوا ۔۔ نزلہُ على قلبك بإذن الله۔۔اور قرآن کو قبول بھی قلب ہی کرتا ہے۔۔إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم۔۔ جب مومن اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو انکے قلوب دھل جاتے ہیں۔۔اسطرح کی درجنوں آیات ہیں جن میں قلب کی بات کی گئی ہے۔۔ کیا یہ یہی فزیکل ہارٹ ہے جسکا آئی سی یو میں اپریشن کیا جاتا ہے؟اللہ کی ذات کی وسعت اتنی ہے کہ وہ ساری کائنات میں نہیں سما سکتا، مگر قلبِ مومن میں سما جاتا ہیں۔۔ یہ کونسا قلب ہے؟۔۔ وہ حدیث مبارکہ تو آپ نے سنی ہوگی جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: "انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا، اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑا، سنو، وہ قلب ہے"۔۔جس طرح میڈیکل سائنس نے دھڑکنے والے دل کی مختلف بیماریاں بتائی ہیں، اسی طرح قرآن مجید میں اللہ نے باطنی قلب کی بیماریاں بھی بتائی ہیں اور خصوصیات بھی۔۔ قرآن میں قلب کی ٹائپس بیان ہوئی ہیں، وہ کون کونسی ہیں ؟۔"سخت قلب ، متکبر قلب ، مہر لگا ہوا قلب ، مجرم قلب ، ٹیڑھا قلب،نہ سوچنے والا قلب، زنگ آلود قلب، گناہ آلود قلب، اندھا قلب، بے ایمان قلب۔۔ یہ 10 بیمار قلوب تھے، اور 5 صحت مند قلوب یہ ہیں۔۔ دانش مند قلب، لرز اٹھنے والا قلب، ایمان والا قلب، مطمئن قلب اور قلبِ سلیم"۔۔ ،یہ ان دلوں کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق باطن سے ہے۔۔ ظاہر میں تو مومن و کافر کے دل ایک جیسا فنکشن پرفارم کرتے ہیں، لیکن ان کی باطنی حالت مختلف ہوتی ہے۔۔ قلب ایک لطیفۂ ربانی ہے، ۔۔ اب انکی بیماریاں کون کونسی ہیں؟ قرآن و حدیث میں قلب و روح کی یہ بیماریاں ذکر ہوئی ہیں: شرک، تکبر، حسد، کینہ، بغض، جھوٹ، ریا کاری، ناجائزنفسانی خواہشات ، اللہ سے بے خوفی، یقین کی کمی، بد نیتی، بے چینی، انجانا خوف، بے حسی، نفاق، چغلی ،غفلت، وغیرہ"۔۔ بیمار قلب کو صحت مند کرنا، مردہ دل کو زندہ کرنا، تاریک دلوں میں نور پھونکنا، بے حس دل کو با ضمیر بنانا، اندھے دل کو بینا کرنا، بے ایمان قلب کو متقی بنا دینا ،،اور اس اصلاحِ قلب کے نتیجے میں غلط عقائد کا صحیح ہو جانا، اعمالِ بد کا صالح ہو جانا، تزکیہ کہلاتا ہے۔۔ ۔۔ تصدیقِ قلبی اور تزکیہ نہ ہو تو بندہ مردم شماری میں تو مسلمان ہوتا ہے لیکن اللہ کی کتاب کے مطابق نہیں ۔۔ خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل، دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔ قلب صرف ایک چیز کا مقام ہے اسمیں دو متضاد اور الگ الگ چیزیں نہیں سما سکتیں،ممکن ہی نہیں کہ قلب ایک ہی وقت میں عرش رحمان بھی ہو اور خانۂ شیطان بھی،ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں اللہ کے دوست کو اسکے دشمن کو بھی اپنے اندر جگہ دے، ارشاد ربانی ہے: مٰا جَعَلَ اَللّٰهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ؛ خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے[3]۔اس آیت کے ضمن میں ایک روایت ہے جسمیں امیر المؤمنین Aارشاد فرماتے ہیں: لاَ يَجْتَمِعُ حُبُّنَا وَ حُبُّ عَدُوِّنَا فِي جَوْفِ إِنْسَانٍ إِنَّ اَللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ مٰا جَعَلَ اَللّٰهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ؛ پروردگار ہماری دوستی اور دشمنی کو ایک دل میں قرار نہیں دیتا[4]۔

۳–وَ خُذْ بِكُلِّ أَعْضآئى اِلَى اتِّباعِ آثارِهِ:

میرے اعضاء و جوارح کو اپنی اطاعت و بندگی کے لئے آمادہ رکھنے میں میری مدد فرمااور میرے اعضاء و جوارح کی طاقت کو اپنے احکام بجا لانے میں ایک لمحہ کی بھی غفلت میں نہ پڑنے دے ولا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابداً۔۔۔

۴–بِنُورِكَ يا مُنَـوِّرَ قُـلُوبِ الْعارِفينَ:

اپنے نور كے ذريعہ، اے عارفوں كے دلوں كو منور كرنے والے۔۔۔۔

نتائج

دعا کا پیغام:1- سحر کی برکات سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے؛2-دل کی روشنی خدا کے نور سے؛3- اعضا و جوارح خدا کی تسخير میں ہیں؛4–خدا کا نور عرفاء کے دلوں کی روشنی۔

منتخب پیغام: امام صادقAفرماتے ہیں کہ جبرئيلAسےپيغمبر1نے کہا: «اے جبرئيل! مجھے موعظه كیجیئے» جبرئيل Aنےعرض كیا: «اے محمد! چاہے جیسے چاہو زندگی گزارو؛ لیکن یاد رکھو کہ ایک دن موت آنی ہی ہے،چاہے جسے چاہو دوست بناؤ؛مگر یاد رکھو کہ آخر کار جدائی مقدر ہے،چاہے جیسے عمل کرو؛لیکن جان لو کہ تمہارے کیے کی جزا ضرور ملے گی!جان لو اور ذہن نشین کرلو کہ ہر شخص کا شرف اسکی سحر خیزی اور اسکا لوگوں سے بے نیاز ہونے میں پوشیدہ ہے[5]۔


[1]بحارالأنوار ج : 95 ص : 50

[2] – الدرة الباهرة, ج 1 , ص 44

[3] – الأحزاب‏، 4

[4] – بحار الأنوار, ج 24 , ص 318

[5]– حر عاملی، وسائل الشيعه، ج 5، ص 269

تبصرہ ارسال

You are replying to: .