حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مبارکپور،اعظم گڑھ/ہندوستان کے مشرقی علاقے میں واقع ریاست تریپورہ میں مسلمانوں پر ہو رہے تشدد کے واقعات حد درجہ تشویشناک و افسوسناک و درد ناک ہیں۔حکومت ہندوستان کو چاہیئے کہ تریپورہ میں مسلمانوں پر ہو رہے ظلم و تشدد کے سلسلہ کو فوراً بند کرے۔تریپورہ جل رہا ہے۔ان فسادات میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی ہندو تنظیموں کا ہاتھ ہونے کی بات سامنے آ رہی ہے ۔جس طرح افغانستان کے قندھار و قندوز میں شیعہ مسجدوں کے اندر نماز جمعہ میں شریک نمازیوں پر ہوئے خود کش حملے ناقابل برداشت ہیں تو تریپورہ کی مسجدوں کو شہید کئے جانے کے واقعات اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی نہایت رنج و تشویش کے باعث ہیں۔
ان خیالات کا اظہار پروانچل کے ایک علماء گروپ مولانا ابن حسن املوی واعظ بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر املو مبارکپور، مولانا مظاہر حسین محمدی پرنسپل مدرسہ باب العلم،مولانا عرفان عباس امام جمعہ شیعہ جامع مسجد شاہ محمد پور، مولانا غلام پنجتن مبارکپوری ،مولانا سید سلطان حسین پرنسپل جامعہ امام مہدی اعظم گڑھ، مولانا ناظم علی واعظ سربراہ جامعہ حیدریہ خیر آباد، مولانا شمشیر علی مختاری پرنسپل مدرسہ جعفریہ کوپا گنج کی جانب سے جاری ایک احتجاجی مشترکہ بیان میں کیا گیا ہے۔ اور تریپوری میں ہوئے مسلمانوں کے خلاف فسادات کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور حکومت ہند سے مطابہ کیا گیا ہے کہ جو مسجدیں جلا کر یا گرا کر شہید کی گئی ہیں ان کی تعمیر نو کی جائے۔متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔اور فسادات میں ملوث قصورواروں اور خطاکاروں کو گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قریب ایک ہفتہ سے تریپورہ میں نام نہاد ہندو تنظیموں کے اشاروں پر وہاں کے مسلمانوں کو اندھا دھند اور خوفناک ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہندوستان کی مرکزی و ریاستی حکومتیں گویا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔اور حد درجہ شرمناک بات یہ ہے کہ مسلم اداروں اور تنظیموں کے ذمہ داران بھی گویا چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔اور دنیا کی نام نہاد بڑی بڑی مسلم حکومتوں کا تو کچھ شکوہ کرنا ہی بے کار ہے کیونکہ اگر ان بڑی بڑی مسلم حکومتوں میں اسلامی غیرت و حمیت کا احساس ہوتا تو شاید دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کی حفاطت و سالمیت کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے ’’ جو صبح کرے اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے ہمت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے‘‘ (اصول کافی ج ۲ ص۱۶۳)اور ایک نصیحت آمیز حکایت مشہور ہے کہ ایک عارف جو مسلسل تیس سال سے استغفار کی تسبیح پڑھ رہا تھا ۔
ایک آدمی جو اس کا چاہنے والا تھا عارف سے سوال کیا : کیوں اتنا استغفار کر رہے ہو ۔ہم نے تو آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ؛ اس عارف نے جواب دیا : تیس سال سے استغفار اس بے جا الحمد للہ کہنے کی وجہ سے پڑھ رہا ہوں !ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ بصرہ (عراق ) کے بازار میں آگ لگی ہے۔میں نے پوچھا کہ میری دکان تو نہیں جلی ؟مجھے کہا گیا کہ آپ کا مال نہیں جلا ہے ۔۔۔میں نے کہا الحمد للہ ۔۔۔پس میں راضی ہوا کہ دوسرے کسی کی دکان جل جائے اور میری دکان بچ جائے۔اور بعد میں میں نے اپنے آپ سے کہا ’’ تمہیں مسلمانوں کا کوئی احساس نہیں ہے ؟‘‘اور میں تیس سال سے اس الحمد للہ کہنے کی وجہ سے استغفار پڑھ رہا ہوں‘‘۔
لہٰذا اس تکلیف دہ صورت حال میں ہم تریپورہ کے بے قصور و مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔مظلوموں کی کامیابی اور ظالموں کی نابودی کی دعا کرتے ہیں۔اور حکومت ہندوستان سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ تریپورہ میں مسلمانوں پر جاری تشدد کا سلسلہ بند کیا جائےاور بلا تفریق مذہب و ملت ہر ھندوستانی شہری کے جان و مال و عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کے مشرقی حصے سے متصل انڈیا کی ریاست تریپورہ ایک ہفتے سے تشدد کی لپیٹ میں ہے جہاں بسنے والے مسلمانوں کے گھروں، کاروباروں اور مساجد پر حملے اور توڑ پھوڑ کے متعدد شواہد سامنے آرہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس اور مقامی لوگوں کے مطابق کم از کم ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا انھیں جلایا گیا ہے اور متعدد مقامات پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار پر حملے کیے گئے ہیں۔ ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔
تریپورہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جن میں سے ایک قابل ذکر تعداد بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کی ہے۔ مقامی لوگ تریپورہ میں حالیہ تشدد کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات کے ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے ضلع کومیلا میں ایک پوجا پنڈال میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی اطلاعات کے بعد ملک بھر میں ہندوؤں کے خلاف کئی پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔