۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
تصاویر/ تجمع اعتراضی طلاب و روحانیون هندی در پی اهانت به ساحت مقدس پیامبر اسلام

حوزہ/ ایک زمانہ تھا جب دنیا میں ہندوستان کی مذہبی یگانگت و باہمی رواداری کی مثال دی جاتی تھی ، اور یہاں کے لوگوں کو ایک خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا  لیکن افسوس گزشتہ چند سالوں میں اتنی زیادہ شدت پسندانہ فکر کی ترویج کی گئی کہ اسکے اثرات اب ہر سو نظر آ رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ عالم دین و محقق و تجزیہ نگار مولانا نجیب الحسن زیدی ملک ہندوستان کی حالیہ صورت حال پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ایک زمانہ تھا جب دنیا میں ہندوستان کی مذہبی یگانگت و باہمی رواداری کی مثال دی جاتی تھی ، اور یہاں کے لوگوں کو ایک خاص احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن افسوس گزشتہ چند سالوں میں اتنی زیادہ شدت پسندانہ فکر کی ترویج کی گئی کہ اسکے اثرات اب ہر سو نظر آ رہے ہیں ، یہ شدت پسندانہ سوچ کسی ایک جگہ نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو ملک میں ہر اس جگہ کارفرما ہے جہاں کہیں بھی کوئی اسلامی تشخص ہے یا جہاں پر بھی مسلمان اپنی پہچان کے ساتھ جی رہے ہیں ،ایک خاص طرز فکر جان بوجھ کر پورے ملک سے اسلامی شناخت کو مٹانے کے درپے ہے۔ اور اب یہ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تجارت و لین دین کے معاملات میں بھی بعض لوگوں نے مذہب کا بھوت گھسا دیا ہے ظاہرا ایک سال قبل سرکاری ایجنسی اگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(اےپی ای ڈی یعنی ایپیڈا)نے فیصلہ کیا تھا کہ اب گوشت ’ریڈ میٹ’ کے پیکٹوں پر ‘حلال’لفظ نہیں لکھا جائےگا۔اس کے ساتھ ہی اس کے ایکسپورٹ گائیڈ سے بھی’حلال’لفظ نکال دیا جائےگا اورایکسپورٹ کیے جانے والے گوشت کو اب حلال ہونے کے سنددینے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔یاد رہے کہ اب تک ایکسپورٹ کیے جانے والے گوشت پر اس گائیڈ کے تحت لکھا جاتا رہا ہے کہ ـ’’وہ جس جانور کاگوشت ہے، اس کو تسلیم شدہ اسلامی تنظیم کی دیکھ ریکھ میں شریعت کے مطابق ذبح کیاگیا ہے اور حلال ہونے کی سند تسلیم شدہ اسلامی تنظیم نے دی ہے‘‘۔ لیکن بعض افراد کو اس میں بھی مذہبی تشخص نظر آنے لگا جبکہ یہ حلال کا لیبل محض کاروباری بنیاد پر تھا تاکہ ان ممالک میں گوشت کے ارسال کو آسان بنایا جا سکے جہاں لوگ حلال گوشت کو تلاش کرتے ہیں اور غیر حلال کو استعمال نہیں کرتے ہیں اسی بنیاد پر مشرق وسطی میں ہندوستان کے گوشت کی بڑی مارکیٹ تھی، حلال گوشت کے لیبل کی ہندوتوا تنظیموں نے یوں تو شروع ہی سے مخالفت کی اور وقتا فوقتا وہ اسکی مخالفت پر کمر بستہ ہوتے رہے لیکن جس طرح حکومت نے انکی بات کو تسلیم کیا وہ تعجب بر انگیز ہے گرچہ حکومت کی جانب سے ابتدا میں یہی کہا جا تا رہا کہ ایسا خاص طور پر کسی مذہب کی بنیاد پر نہیں کیا گیا ہے لیکن ہندوستان کے حالات و شرائط کو دیکھتے ہوئے واضح ہے کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ، ایک طرف شہروں کے اسلامی ناموں کو ہٹا کر ایک خاص فکر کی طرف سے واضح اشارہ دیا جا رہا ہے کہ ہماری سوچ کس قدر پست ہے تو دوسری طرف لو جہاد و طلاق کے بہانے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے میں اگر حلال گوشت کے سرٹیفکٹ کو ختم کیا جاتا ہے تو واضح ہے اس کے پیچھے کیا چل رہا ہے ۔اس طرح کے کئی نمونے ہیں جہاں کہیں مسلمانوں کے لباس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے کہیں مذہبی مقامات کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تو کہیں مختلف بہانوں سے زمین و جائداد کے معاملوں میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔
چاہے معاملہ کاروبار کا ہو یا مسلمانوں کے ذریعہ مکانات کی تعمیر یا کسی بلڈنگ میں فلیٹ کے خریدنے کا شدت پسندانہ طرز فکر کو ہر جگہ کارفرما دیکھا جا سکتا ہے ، گزشتہ برس مغربی اتر پردیش کے بلندشہر ضلع کے ایک مسلم دکاندار کو ایک شدت پسند تنظیم کی اس شکایت کے بعد حراست میں لے لیا گیا کہ وہ ایسے جوتے بیچ رہا تھا، جن کے سول پر ‘ٹھاکر’نام لکھاہوا ہے، جو ایک کاسٹ کا نام ہے۔
سچ یہ ہے کہ ٹھاکر فٹ ویر نام کی کئی دہائی پرانی کمپنی کے ان جوتوں پرلکھا ـ’’ٹھاکر‘‘ کمیونٹی کا نہیں کمپنی کا نام ہے۔ ایسی کمپنی کا جو سرکاری ضابطوں کے تحت چلائی جا رہی ہے۔ایسے میں اگر ایکشن ہی لینا تھا تو کمپنی کے مالکان کے خلاف لینا چاہیے تھا ایک غریب انسان کو اٹھا کر جیل میں بند کر دینا کیا معنی رکھتا ہے ؟ بالکل واضح ہے کہ اس طرح کے کاموں سے انتطامیہ یہ میسج دینا چاہتی ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تو کسی بھی بہانے سے تمہیں جیل میں ڈالا جا سکتا ہے کوئی بھی دفع تم پر ٹھوکی جا سکتی ہے ، اس لئے تمہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ملک تبدیل ہو رہا ہے تمہیں بھی اپنے رجحانات کو تبدیل کرنا ہوگا اور اس طرح سوچنا ہوگا جیسے ہم چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلسل ملک میں فرقہ وارانہ عداوتوں کو ہوا دی جا رہی ہے ، تاکہ مسلمانوں کے درمیان ایک ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کیا جا سکے ۔اور اس بات کو معاشرہ کے فرد فرد کے کانوں میں گھول کر پلانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ تم اپنا حق بنام پاکستان لے چکے ہو اب اگر تمہیں ہندوستان میں رہنا ہے تو ہماری شرطوں پر رہنا ہوگا اگر آپ ہم سے متفق ہیں تو دیش بھکت ہیں، نہیں تو جہادی،نکسلوادی ہیں یا غدار ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے پلیس کی لاٹھی ہے اور جیل کی کوٹھری ۔
ملک میں جس طرح سے ہردن فرقہ وارانہ عداوتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، اس سے اس بات کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ عنقریب کہیں ایسا نہ ہو کہ ہندوستان میں ایک بار پھر گجرات کی تاریخ کو دہرا دیا جائے ایک بار پھر حیوانیت قہقے لگاتی نظر آئے ، انسانیت ایک بار پھر سسکیاں لیتی نظر آئے فریادی نظر آئے اس لئے کہ جس سماج کی نبضوں میں جہاں بھائی چارے اور محبت کی جگہ وہاں اب نفرت دوڑ نے لگے وہاں پر حیوانیت کس قدر برہنہ ناچ دکھا سکتی ہے اسکا اندازہ نہیں کیا جا سکتا ہے آج جو مسلمانوں کی صورت حال وہ آپ خود ملاحظہ کر لیں کہ کس طرح چو طرفہ مسلمانوں کا استحصال ہو رہا ہے آندھرا پردیش میں رام مندر کے چندے کے معاملے کو آپ دیکھ لیں کس طرح مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے کس طرح انکی عبادت گاہوں اور گھروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر انہیں کو ملزم بنا کر پلیس انہیں کے گھر سے انہیں اٹھا کر لے جاتی ہے اور سرکارکی جانب سے غیر قانونی قرار دیکر انہیں کے گھروں کو زمیں بوس کر دیا جاتا ہے حال ہی میں ہونے والی دھرم سنسند کی دو سبھاووں میں جو کچھ ہوا وہ کس پر پوشیدہ ہے جس نے بیرونی دنیا میں ہندوستانی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا پھر میں ان لوگوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا جو کھلم کھلا اپنے ملک کی اقلیت کو مارنے کاٹنے کی بات کر رہے تھے یہ سب کچھ دیکھ کر کون ہے جو اس نتیجہ تک نہیں پہنچتا کہ مکمل طور پر مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی ایک منصوبہ بند کوشش کی جا رہی ہے اور اب تو مسلمانوں کا نوکریوں میں کم اور جیلوں میں زیادہ پایا جانا، انہیں حاشیے پر لایا جانا یا ان کا سماجی بائیکاٹ وغیرہ پرانی، باتیں ہو گئیں ہیں ۔اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ رہائش کے لئے جگہ یا کاروبار کے لیے کرایہ پر جگہ دینے میں بھی مذہب و دھرم کو دیکھا جا رہا ہے حتی ان کے پھل سبزی والوں کو تک کو بعض کالونیوں میں گھسنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ دکانداروں تک کو دھمکایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی دوکانیں ہٹا لیں ۔
ان حالات میں ہم سب کو متحد ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کب تک چلتا رہے گا، کب تک ہمیں ہمارے ہی ملک میں ایک مجرم و ملزم کی نظرسے دیکھا جاتا رہے گا کب تک ہمیں ہر ایک شک کی نظرسے دیکھے گا ، کب تک مختلف پارٹیاں ووٹوں کی خاطر ہمارا استحصال کرتی رہیں گی ، کب تک بعض ضمیر فروش لیڈر ہماری بولیاں لگواتے رہیں گئے ، کیا اب وقت نہیں آ گیا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر سر جوڑ کر بیٹھیں اور محاسبہ کریں کہ ہم نے کیا پایا کیا کھویا ، کیا وقت نہیں آ گیا ہے کہ ہم بدلتے حالات کی ڈگر کو پہچانیں اور ضمیر فروش نام نہاد قائدین و رہبروں سے برحذر رہیں کہ وہ سستی شہرت کی خاطر چند ٹکے کی خاطر سب کچھ داوں پر لگانے کو تلے ہیں ، ایسے میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ایک مستقل حکمت عملی بنائیں ایک منصوبہ بندی کریں کہ آگے ہمیں کیا کرنا ہے اپنے آئینی حق کو کس طرح استعمال کرنا ہے ، اپنے ووٹ کی طاقت کو متحدہ طور پر کہاں استعمال کرنا ہے ، کس طرح علم و دانش کے میدان میں آگے بڑھ کر اہم و کلیدی مناصب پر پہنچنا ہے تاکہ غریبوں و ناداروں کا ہاتھ تھام کر انہیں اوپر کیا جا سکے اور ان لوگوں کے حق کے لئے لڑا جا سکے جن پر مسلسل ظلم ہو رہا ہے اور اب ظلم کے خلاف آواز اٹھانا تو کیا ظلم سہنا انکی عادت بن چکی ہے ۔امید ہے کہ ہم اپنی مصروفیتوں سے وقت نکال کر کچھ اپنے سماج اور قوم کے بارے میں بھی سوچیں گے انشاء اللہ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .