حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بنگلورو/ ایسا لگ رہا ہے کہ کرناٹک نفرت کی نئی تجربہ گاہ کے طورپر ابھر رہا ہے اور وہاں ایک کے بعد دوسرے اشتعال انگیز مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں ۔ پہلے حجاب،پھر مندر کے احاطے میں مسلم دکان داروں پر پابندی اور مذہبی مقامات پر لاؤڈ سپیکر کے استعمال جیسے تنازعات چل ہی رہے تھے کہ اب کرناٹک میں دائیں بازو کا ایک ہندوگروپ حلال گوشت کی خریداری کے خلاف مہم شروع کرنے جا رہاہے۔
ہندو جنجا گرتی سمیتی نے پیر کو کہا ہے کہ اسلامی طریقوں کے تحت کاٹا جانے والا گوشت دوسرے دیوتاؤں کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
تنظیم کے ترجمان موہن گوڑا نے کہا کہ اوگادی کے دوران گوشت کی بہت زیادہ خرید و فروخت ہوتی ہے اور ہم حلال گوشت کے خلاف مہم شروع کر رہے ہیں، اسلام کے مطابق حلال گوشت پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے نہ کہ ہندو دیوتاؤں کا۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب کرناٹک میں حجاب پر پابندی کو لے کر پہلے ہی تنازعہ چل رہا ہے۔ بسواراج بومئی کی قیادت والی بی جے پی حکومت پر جنوبی ریاست میں پولرائزیشن کو فروغ دینے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
گوڑا نے کہاہے کہ جب بھی مسلمان کسی جانور کو کاٹتے ہیں تو اس کا چہرہ مکہ کی طرف موڑ کر دعا پڑھی جاتی ہے۔ وہی گوشت ہندو دیوتاؤں کو نہیں چڑھایا جا سکتا۔ ہندو مذہب میں ہم جانور کو اذیت دینے میں یقین نہیں رکھتے،اسی وجہ سے یکلخت اس کا سر دھڑ سے الگ کردیا جاتا ہے۔