۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ/ہندو دھرم میں بھی دیوتاؤں کے خوشنودی کے لئے جانور کی بلی چڑھانے کا تصوّر ہمیشہ سے رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔ لیکِن ان تمام باتوں سے قطع نظر قربانی ایک علامتی عمل ہے۔ اصل وہ قصد اور تقویٰ ہے جو قربانی کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے اور وہی خدا تک پہنچتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،عید الاضحی کی مناسبت پر مولانا علی حیدر فرشتہ صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن ہندوستان نے پیغام قربان جاری کرتے ہوئے کہا کہ قربانی رمز بقاء کائنات ہے۔

مولانا موصوف نے کہا کہ کائنات کی بقاء کے اسرار و رموز میں سے ایک رمز قربانی ہے۔ اس کائنات کی جملہ مخلوقات میں سے ہر ادنٰی قسم اپنی ما فوق اور اعلیٰ قسم کے لئے قربانی دیتی ہے۔ جمادات اپنے اندر موجود قدرتی عناصر کو قربان کرکے نباتات کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نباتات کے لئے فدا و قربان کرکے در حقیقت اپنی بقاء کو نباتات کی بقاء کے ذیل میں یقینی بناتے ہیں اور اس طرح اپنی منزل کمال کو حاصل کر لیتے ہیں۔
 یہی حال نباتات کا حیوانات کی نسبت اور حیوانات کا انسانوں کی نسبت ہے۔ لیکِن سوال یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو،  اپنی خواہشات کو، اپنے مال و متاع کو، اپنے مال سے تہیہ کی جانے والی اشیاء کو کس کے لئے قربان کرے تاکہ اپنی منزل کمال تک پہنچ جائے؟!

مولانا علی حیدر فرشتہ نے کہا کہ ظاہر ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی اس کا سطح شعور و ادراک دیگر تمام مخلوقات سے بالاتر ہے لہٰذا اس کی بقاء اور کمال، خالق کائنات کے لئے قربانی دینے میں مضمر ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ قربانی کی تاریخ بشریت کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق اللّٰہ کی راہ میں، اس کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کی غرض سے زمین پر پہلی قربانی حضرت آدم ابو البشر کے فرزند جناب ہابیل نے پیش کی۔ 
«اذ قربا قربانا فتقبل من احدهما و لم تقبل من الاخر» (مائده ۲۷)
اسی طرح تاریخ میں ملتا ہے کہ آدم ثانی  شیخ الانبیاء حضرت نوح علیہ السّلام نے بھی طوفان کا سلسلہ رکنے کے بعد بہت سے جانوروں کی قربانی پیش کی۔ 

صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد نے کہا کہ اصل میں قربانی کا تصور اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تصور دیگر ادیان عالم میں بھی موجود ہے۔ مثلاً یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے دور میں بھی دو طرح کی قربانی رائج تھی، ایک حیوان کی قربانی اور ایک غیر حیوان کی قربانی اور حیوان کی قربانی بھی خود تین طرح سے ہوتی تھی، جانور کو نذر آتش کر دینا اور صرف اس کی جلد و پوست کو باقی رکھنا، گناہوں کی بخشش کے لئے جانور کا کچھ حصہ جلا دینا اور باقی حصہ کاہنوں کے لئے چھوڑ دینا اور صحت و تندرستی کے لئے قربانی کرنا جس کا گوشت تناول کیا جاتا تھا۔ 

ہندو دھرم میں بھی دیوتاؤں کے خوشنودی کے لئے جانور کی بلی چڑھانے کا تصوّر ہمیشہ سے رہا ہے اور آج بھی قائم ہے۔ 
لیکِن ان تمام باتوں سے قطع نظر قربانی ایک علامتی عمل ہے۔ اصل وہ قصد اور تقویٰ ہے جو قربانی کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے اور وہی خدا تک پہنچتا ہے، نہ کہ جانور کا گوشت یا خون وغیرہ۔  اس لئے قرآن کریم میں ارشاد رب العزّت ہے: «لَنْ یَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَ لا دِماؤُها وَ لکِنْ یَنالُهُ التَّقْوى‏ مِنْکُمْ کَذلِکَ سَخَّرَها لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللَّهَ عَلى‏ ما هَداکُمْ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنینَ۔
عید قربان در اصل راہ حق میں اپنے نفس کی خواہشات اور مادی دنیا کے مظاہر سے دل لگی کو قربان کرنے کی ایک سالانہ تمرین ہے۔ 

علمبردار توحید بت شکن نبی حضرت ابراہیم علیہ السّلام اپنی زندگی کی سب سے عزیز و محبوب شئے یعنی اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو حکم رب سے زیر خنجر رکھ کر قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے تو ہر سال ان کی اس قربانی کی یاد ہم سے یہ سوال کرتی ہے کہ کیا ہم بھی اپنے اندر کے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر آمادہ ہیں؟ ہمارا اسماعیل ہمارا مال، منال، اولاد، مقام و منصب اور شہرت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آئیے اس آنے والی عید کے موقع پر ہم سب اس حوالہ سے اپنا اپنا جائزہ لیں۔ 

آخر کلام میں مجمع علماء و خطباء حیدر آباد دکن، آپ سب سے اپیل کرتا ہے کہ اس عالمی وبا یعنی کورونا وائرس کے دور میں ہم سب کو چاہیئے کہ حکومتی ارشادات و حفظان صحت سے متعلق اداروں کے دستور العمل کے مطابق قربانی کی سنت کو ہمیشہ کی طرح ادا کریں اور ایک دوسرے کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے،  دوسرے ادیان کے ماننے والوں کے مذہبی عقائد و جذبات کا  بھی مکمل احترام کریں۔  ہماری جانب سے عید الاضحٰی آپ سب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک ہو۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .