جناب ابراھيم (ع) نے خواب ديكھا كہ وہ اپنے فرزند اسماعيل كو ذبح كر رہے ہيں ۔ جس كا مطلب يہ تھا كہ خداوند عالم چاہتا ہے كہ ابراھيم اپنے فرزند كو ذبح كريں ۔
جناب ابراھيم (ع) اپنے اس خواب كو پورا كرنے كے لئے مكہ تشريف لائے اور جناب اسماعيل(ع) كو خداوند عالم كا يہ حكم سنايا : فَلَما بَلَغَ مَعَهُ السَعىَ قالَ يابُنَىَّ اِنّى اءَرى فِى المَنامِ اءَنّى اَذبَحُكَ فَانظُرماذاتَرى ، قالَ يا اَبَتِ افعَل ماتُؤ مَرُ سَتَجِدُنى اِن شاءَ اللهُ مِنَ الصابِرينَ (سورۂ صافات ،آيت / ۱۰۲) جناب اسماعيل (ع) نے اپنے رب كے حكم كے آگے سر تسليم خم كر ديا اور فرمايا : بابا جان! مجھے ذبح كرنے سے پہلے میرے ہاتھ پاؤں مضبوطي سے باندھ ديں ، خدا كا حكم بجالانے ميں سستي نہ كريں تاكہ اجر ميں كمي نہ واقع ہو ، میرا پيراہن خون آلود نہ ہونے پائے اس لئے كہ ميری ماں شايد ميرا خون آلود پيراہن ديكھ كر صبر نہ كرسكے ۔ بابا جان! چاقو تيز كر ليں تاكہ ذبح ہوتے وقت مجھے زيادہ تكليف نہ ہو ۔ بابا جان! میرا پيراہن لے جاكر ماں كے حوالے كرديں تاكہ انھيں تسلي ہو جائے ۔ مجھے منھ كے بل لٹا ديں اور آنكھوں پر پٹی باندھ ديں تاكہ میری آنكھ ديكھ كر آپ پر شفقت نہ طاري ہونے پائے كہ شايد شفقت پدری حكم الٰہي كے نافذ ہونے ميں مانع ہو جائے ۔
جناب ابراھيم (ع) نے اسماعيل (ع) كي تمام تدبيروں كو نظر ميں ركھتے ہوئے اسماعيل کے گلے پر خنجر چلايا ليكن گلا نہ كٹ سكا ۔ حضرت ابراہيم (ع) نے دوبارہ كوشش كي ليكن كامياب نہ ہوئے يہاں تك كہ جب آنکھوں سے پٹی ہٹائی تو دیکھا کہ حضرت اسماعیل کی جگہ ایک دنبہ موجود ہے خداوند عالم نے ابراھيم عليہ السلام پر يہ وحي نازل كی " يا اِبراهيمُ قَد صَدَّقتَ الرُّءيا اِناكَذلِكَ نَجزِى المُحسِنينَ " اے ابراھيم تم نے اپنا خواب سچ كر دكھايا ، ہم محسنين كو ايسي ہي جزا عطا كرتے ہيں ۔
يہي وہ واقعہ ہے جس كي ياد ميں ہم عيد قربان مناتے ہيں اور قربانی كرتے ہيں گويا يہ عيد بكرا،گائے ،دنبہ یا اونٹ قربانی كرنے كے لئے نہيں بلكہ اپني عزيزترين چيزوں كو قربان كرنے كي عيد ہے ۔
اس ميں انسان اپني خواہشات كي قرباني كرے ، نفس امارہ كي قرباني كرے ۔ فرزند سے زيادہ كوئي چيز عزيز نہيں ہوتي ہے ہم اپنے فرزند كي نہيں تو كم سے كم جناب اسماعيل(ع) كي قرباني كي ياد ميں اپني عزيز ترين آرزؤوں كو تو قربان كرسكتے ہيں تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پرعمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے. عربی زبان میں قربانی کو ”اضیحہ“ کہتے ہیں لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس میں قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانورکو کہتے ہیں جس کو عیدالاضحی (بقرعید کے روز) بارہویں یاتیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یانحر کرتے ہیں-