حوزہ نیوز ایجنسی। چونکہ اسلامی احکام کا قانون ساز اور شارع، خداوند حکیم ہے، اس لئے اسلام کے تمام قوانین اور احکام { مخلوقات کےحق میں} کافی دقت سے اورفائدہ بخش صورت میں وضع کئے گئے ہیں ، اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان کے بارے میں بہت سے اسباب اور حکمتوں سے آگاہ نہ ہوں۔ اسلام کے قوانین اور احکام میں سے یہ بھی ہے کہ جو افراد حج تمتع اور حج قران بجالاتے ہیں، ان پر واجب ہے کہ عید قربان کے دن سر زمین منی پر قربانی کریں۔ عالم اسلام کےعلماء نے آیات و روا یات سے استفادہ کرکے حج کی قربانی کے متعدد فلسفے اور حکمتیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے:
۱-قربانی نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی علامت ہے
حجاج کا عید قربان کے دن قربانی کرنا، حقیقت میں اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے- جس طرح حضرت ابراھیم {ع}کے لیے خداوند متعال کی طرف سے حضرت اسماعیل{ع} کو ذبح کرنے کا حکم اس لئے تھا کہ حضرت ابراھیم {ع} اس عمل کی روشنی میں اپنے نفسانی تعلقات کے انتہائی اہم ترین عامل ، یعنی بیٹے کی محبت کے ساتھ مبارزہ کر کے خدا کی اطاعت کریں اورنفسانی خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں- اس بنا پر جس طرح اس حکم کی اطاعت نے، حضرت ابراھیم{ع} اورحضرت اسماعیل {ع} کے نفس امارہ کے زندان سے رہا ئی پانے میں ایک اہم تربیتی رول ادا کیا اور ان کے مقام و منزلت کو خدا کے پاس عظمت و بلندی بخشی، اسی بنا پر حجاج کے لئے قربانی بھی حقیقت میں ، دنیوی تعلقات اور مادی وابستگی سے آزاد کرانے میں ایک قسم کا جہاد نفس ہے۔
۲-خداوند متعال کا تقرب
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ہے :" خدا تک نہ ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون – اس کی بارگاہ میں صرف تمھارا تقوی جاتا ہے - - -"بنیادی طور پر خداوند متعال قربانی کے گوشت کا محتاج نہیں ہے، کیونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ محتاج، بلکہ وہ ایک مکمل اور ہر جہت سے بے انتہا وجود ہے۔
بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ آپ تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ پر گامزن ہو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ہوتے جائیں۔
۳-حاجتمندوں کی مدد
قرآن مجید کی آیات سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے گوشت سے صحیح استفادہ کیا جائے، قربانی کرنے والا بھی اس سےفائدہ اٹھائے اور فقیروں و محتاجوں تک بھی پہنچا یا جائے۔
اس مقصد کی بنا پر، مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ قربانی کے گوشت کو منی میں زمین پر چھوڑ دیں اور یہ گوشت سڑ جائے یا اسے زمین میں دفن کیا جائے، بلکہ منی کی مقدس سر زمین پر قربانی کے گوشت کو پہلے درجہ میں اسی سر زمین کے حاجتمندوں تک پہنچانا چاہئیے اور اگر اس دن اس سر زمین پرکوئی حاجتمند اور فقیر نہ ملے تو اسے دوسرے علاقوں میں بھیج کر محتاجوں اور فقیروں تک پہنچانا چاہئیے، حتی کہ اس فلسفہ کی بنا پر اگر یہ گوشت بر وقت حاجتمندوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے سڑ بھی جائے، تو کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ پس قربانی کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہئیے کہ جدید علمی طریقوں کو بروئے کار لا کراور اس عظیم سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچا کر جلد از جلد حاجتمندوں تک پہنچا دیں، خوش قسمتی سے حالیہ برسوں کے دوران، مکہ کے ذبح خانوں میں بہت سے اچھے امکانات فراہم کئے گئے ہیں اور گوشت کو منجمد کرکے حاجتمندوں تک پہنچا کر اسراف کی کافی حد تک روک تھام کی جاتی ہے۔
اگر چہ اس سلسلہ میں ابھی سو فیصدی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے، پھر بھی حاصل شدہ کامیابیوں کے پیش نظر وہ دن دور نہیں ہے جب اس سلسلہ میں سو فیصدی کامیابی حاصل ہوگی