۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
شهادت امام حسن عسکری (ع)

حوزہ/ امام حسن عسکری علیہ السلام کی علمی برتری و افضلیت جہاں واضح ہوتی ہے وہیں یہ بھی آشکار ہوتاہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اہل بیت و قرآن کو ایک دوسرے سے وابستہ و منسلک کیوں قرار دیا تھا۔

تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری، مدیر شعور ولایت فاونڈیشن

تمہید :
حوزہ نیوز ایجنسی |
الٰہی نمائندوں کا اولین فریضہ اور پہلا ہدف لوگوں کی ہدایت و تبلیغ ہے ، خداوندعالم نے ان کے کاندھوں پر تبلیغ کی ذمہ داری دے کر لوگوں کی ہدایت کا فریضہ عائد کیاہے ۔اسی لئے آپ حضرات نے اس اہم ترین فریضہ ٔ الہی کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں بے پناہ مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کیں۔چنانچہ آدم سے لے کر حضرت خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ تک اور حضرت خاتم سے کر آج تک کے ہادیان برحق کی زندگی و بندگی کا سرسری جائزہ بھی لیاجائے تو یہ بات نصف النہار کے سورج کی طرح واضح و آشکار ہوجاتی ہے کہ آپ حضرات نے ہدایت و تبلیغ کے سامنے اپنی ذات کو کبھی اہمیت نہیں دی ،مصائب و متاعب کے پہاڑ توڑے گئے ،بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اورمشکلات و صعوبات کے دہانے کھولے گئے لیکن ان تمام صورت حال میں آپ حضرات کا مطمع نظر صرف یہ تھا کہ کچھ بھی ہو ہدایت و تبلیغ کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہئے اور بس۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی اس سے مختلف نہ تھی بلکہ آپ پر کچھ زیادہ ہی مصائب و آلام روا رکھے گئے اور آپ کی زندگی عجیب و غریب مصیبت کا نشانہ بنی جس کی مثال دوسرے معصومین اور انبیاء کی زندگیوں میں بھی نہیں ملتی ہے ۔ اس کا اہم ترین سبب یہ ہے کہ عالم اسلام نے رسول خدا(ص)سے یہ بات سن رکھی تھی کہ میرا بارہواں وارث وہ حجت خدا ہوگا جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے معمور کردے گا اور دنیا کے ہر نظام ظلم کا تختہ الٹ دے گا ۔ اسی لئے حکام وقت ہر دور میں اس نکتہ کی طرف متوجہ رہے کہ وہ مہدی دوراں منظر عام پر نہ آنے پائے ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور تک یہ اطمینان تھا کہ مہدی اولاد حسین کا نواں ہوگا اور ابھی اولاد حسین کے آٹھ افراد پورے نہیں ہوئے ہیں لیکن امام عسکری کا دور آنے تک ہر صاحب علم و خبر کو یہ اندازہ ہوگیا کہ اب وجود مہدی (عج)کا دور قریب آگیاہے اور وہ انہیں کی اولاد میں ہوگا ۔ چنانچہ امام عسکری علیہ السلام کی خصوصی نگرانی شروع ہوگئی اور آپ کے گھر کے ساتھ وہی سلوک طے کرلیاگیا جو فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ روا رکھاتھا ۔ صرف اس خوف سے کہ وہ فرزند دنیا میں نہ آنے پائے جو فرعون کے تخت و تاج کو تباہ و برباد کردے گا۔
حکام زمانہ کا اب تک یہ طریقۂ کارتھا کہ ائمہ طاہرین کو قید خانوں میں رکھتے تھے اور اگر قوم میں بغاوت کا خطرہ پیدا ہوگیایا پھرنگران قید خانہ کردار معصوم سے متاثر ہوکر منحرف ہونے لگا تو امام کو گھر میں نظر بند کردیالیکن امام عسکری کے ساتھ برتائو میں حکام کی پریشانی یہ بھی تھی کہ قید خانہ میں رکھیں تو وہی حشر ہوگا کہ تمام نگران زنداں امام کے کردار سے متاثر ہوجائیںگے ، دوسری طرف اگر گھر میں نظر بند کرنا چاہیں تو یہ خوف پیدا ہوتاہے کہ اس طرح وہ آخری حجت پروردگار منظر عام پر آجائے گا جس سے اپنے تخت و تاج کو خطرہ ہے ۔ چنانچہ ابتداء میں آپ کو قید خانے میں رکھاگیا اور داروغہ زنداں کو خصوصی ہدایت دی گئی کہ امام علیہ السلام کو زیادہ سے زیادہ اذیت دے لیکن جب دیکھ لیا کہ اس تاکید کا کوئی اثر نہیں ہورہاہے تو اپنے قصر کے ایک گوشہ میں نظر بند کردیا تاکہ اپنی نگرانی میں رہیں اور لوگوں میں کوئی حیثیت نہ پیدا کرنے پائیں لیکن جب یہ احساس ہوا کہ اس طرح قصر کے نگراں سپاہیوں کے بھی گرویدہ ہوجانے کا خطرہ ہے تو مجبور ہوکر حضرت کو ان کے گھر میں نظر بند کردیا گیا اور اس طرح خدائے موسی نے حضرت موسی علیہ السلام کی طرح فخر موسی کی ولادت باسعادت کا انتظام کردیا۔
متذکرہ پئے در پئے واقعات سے امام حسن عسکری علیہ السلام کے اوپر ڈھائے گئے مصائب و مظالم کا تھوڑا بہت اندازہ لگایاجاسکتاہے ، آپ کی پوری زندگی قید و بند میں گزری لیکن اس کے باوجود بھی آپ نے ہدایت و تبلیغ کا اہم ترین الہی فریضہ فراموش نہیں کیا اور زندگی میں جب بھی موقع ملالوگوں کو چشمۂ ہدایت و تبلیغ سے سیراب کرتے رہے ۔لیجئے امام علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ہدایت و تبلیغ کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیے :

١۔ نازش آفریں طفولیت اور مقصد ِتخلیق کا شعور
مورخین لکھتے ہیں کہ شہر سامراء میں بہلول نامی بزرگ ایک محلے سے عبور کررہے تھے ، انہوںنے وہاں کچھ بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا ، وہیں آپ کی نظر ایک بچے''امام حسن عسکری علیہ السلام'' پر پڑی جو کچھ دور پر کھڑے ہوئے گریہ و زاری کررہے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ امام اس لئے گریہ کررہے ہیں کہ دوسرے بچوں کے پاس کھیلنے کا سامان ہے اور ان کے پاس نہیں ہے۔انہوں نے امام علیہ السلام سے کہا: کیا میں آپ کے لئے کھیل کود کے اسباب فراہم کروں ...؟
امام نے فرمایا :آپ ہم سے ایسا سوال کیوں کررہے ہیں ،کیا ہم انسان کھیل کود کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ؟
انہوں نے پوچھا : پھر آپ کی تخلیق کس لئے ہوئی ہے ؟
فرمایا :ہم علم و معرفت کی تعلیم اور پھر خداوندعالم کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔
انہوں نے پوچھا: آپ نے یہ بات کہاں سے سیکھی ہے اور اس کی دلیل کیاہے؟
فرمایا :ہم نے خداوندعالم سے یہ بات سیکھی ہے ، اسی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :" کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیاہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤگے ''۔(١)
جب بہلول نے بچہ کا یہ شعور و ادراک ملاحظہ کیاتو اپنی بزرگی بھول بیٹھے اور امام سے گزارش کی کہ مجھے موعظہ و نصیحت فرمائیں۔ امام نے پہلے بعض حکمت آمیز اشعار سنائے پھر فرمایا:
'' اے بہلو ل ! میں ایک دن اپنی والدہ کے پاس موجود تھا ، وہ کھانا پکانے کے لئے چولہے کے نیچے بعض بڑی اور ضخیم لکڑیاں ڈالے انہیں روشن کرنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن ضخامت کی وجہ سے وہ روشن نہیں ہورہی تھیں اسی لئے انہوں نے پہلے بعض نازک اور چھوٹی لکڑیاں جلائیں تاکہ آسانی سے تمام لکڑیوں میں آگ لگ سکے ۔اے بہلول ! میرے گریہ و زاری کا سبب یہی ہے ، میں ڈرتاہوں کہ آخرت میں آتش جہنم کے لئے ہم چھوٹی اور نازک لکڑیوں کے مانند نہ ہوجائیں''۔(٢)

٢۔ واقعہ استسقاء میں آپ کی بصیرت
صاحب احقاق الحق کے علاوہ اہل سنت کے جید عالم ابن صباغ مالکی نے ابو ہاشم جعفری سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ شہر سامراء میں سخت قحط پڑا ، خلیفہ وقت معتمد نے لوگوں کو حکم دیا کہ نماز استسقاء پڑھیں ۔ لوگ صحراء میں جاکر تین دن تک مسلسل نماز استسقاء پڑھتے رہے لیکن بارش نہیں ہوئی۔ چوتھے روز عیسائیوں کا راہنما '' جاثلیق '' راہبوں کے ساتھ صحرا پہونچا ، ایک راہب نے جب دعا کے لئے ہاتھ بلند کیا تو فوراً بارش ہونے لگی ۔ دوسرے دن بھی اس نے ایسا ہی کیا ، اتنی بارش ہوئی کہ لوگوں کو پانی کی ضرورت نہ رہی ۔ اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ابھرنے لگے اور وہ مسیحیت کی طرف راغب ہونے لگے ۔ یہ بات خلیفہ وقت کو ناگوار گزری اس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس آدمی بھیج کر قید خانے سے بلوایا ۔
خلیفہ نے امام سے کہا: یہ آپ کے جد کی امت ہے ، وہ گمراہ ہو رہی ہے اور آپ ہی گمراہی سے بچا سکتے ہیں ۔
امام علیہ السلام سے فرمایا : جاثلیق اور اس کے راہبوں سے کہو کہ منگل کے روز پھر صحراء آئیں۔
چنانچہ خلیفہ کے حکم سے منگل کے دن سب لوگ جمع ہوئے ۔ امام عسکری علیہ السلام بھی مسلمانوں کے ہمراہ وہاں تشریف لائے ۔ عیسائیوں اور راہبوں نے طلب بارش کے لئے ہاتھ اٹھایا اور آسمان ابر آلود ہوگیا اور بارش ہونے لگی ۔
امام نے حکم دیا کہ فلاں راہب کے ہاتھ میں جو چیز ہے اسے لے لو۔ راہب کے ہاتھ میں کسی انسان کی سیاہ فام ہڈی تھی ۔ امام نے وہ ہڈی لے لی اور ایک کپڑے میں لپیٹ دی اور راہب سے فرمایا : اب بارش کے لئے دعا کرو۔ راہب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا لیکن آسمان پر موجود بادل بھی چھٹ گئے ، آسمان صاف ہوگیا اور سورج نظر آنے لگا۔ لوگ حیرت سے امام کو دیکھ رہے تھے ۔
خلیفہ نے امام سے دریافت کیا : یہ ہڈی کیسی ہے ؟
امام نے فرمایا :یہ ایک پیغمبر خدا کے جسم کا ٹکڑا ہے جس کو انہوںنے انبیاء کی قبروں سے حاصل کیاہے جب یہ ہڈی زیر آسمان آتی ہے تو فوراً بارش ہونے لگتی ہے ۔
پھر امام آگے آئے اور آپ نے بارگاہ خداوندی میں دست دعا بلند کئے ، ابھی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آسمان سے رحمت خدا کی بارش ہونے لگی ۔اس طرح لوگوں نے ہدایت پائی اور گمراہی سے محفوظ رہے ۔(٣)

٣۔ ایک گمراہ فلسفی کی ہدایت و تبلیغ
عراق کے مشہور فلسفی '' اسحاق کندی '' نے تناقضات القرآن لکھنا شروع کیا اور آیات کو یکجا کر کے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ قرآن مجید کے بیانات میں تضاد پایاجاتاہے اور وہ ایک مقام پر ایک بیان دیتاہے اور دوسرے مقام پر اس کے بالکل برعکس بولتاہے حالانکہ یہ بات قرآن کریم کی شان تنزیل کے قطعی برخلاف ہے ۔
ایک دن اس کا ایک شاگرد امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ، امام نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے درمیان کوئی معقول شخص ہے جو تمہارے استاد کو اس بے مقصد اور عبث کام سے منع کرے۔
اس نے کہا: ہم ان کے شاگرد ہیں ، ہم کس طرح ان پر اعتراض کرسکتے ہیں ؟
امام نے فرمایا : اچھا یہ بتاؤ جو باتیں میں تمہیں بتائوں کیا تم اس تک پہونچا دوگے۔
اس نے کہا: ہاں ۔
فرمایا : اس کے پاس جائو اور اس سے بہت زیادہ نزدیکی بڑھائو ، جو کام وہ کہے اس میں اس کی مدد کرو ، جب بہت زیادہ قربت اور اعتماد حاصل کرلو تو اس سے کہو : ایک سوال میرے ذہن میں ہے اگر آپ اجازت دیں تو آپ کی خدمت میں عرض کرو ں؟تمہیں سوال کی اجازت دے گا ، اس وقت اس سے کہو کہ اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے تو کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ سے اس نے وہ مفہوم مراد نہیں لیاہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
وہ کہے گا : ہاں ! اس بات کا احتما ل تو پایاجاتاہے ۔ چونکہ اسحاق کندی ہر بات کو غور سے سنتا اور درک کرتاہے اسی لئے جب وہ تمہارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس وقت کہو: آپ کو یہ یقین کس طرح حاصل ہوگیا کہ قرآنی الفاظ سے وہی معنی مراد لئے گئے ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں ، ہوسکتاہے قرآن کا مفہوم کچھ اور ہو اور جس تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی ہو آپ قرآنی الفاظ و عبارت کو دوسرے معانی و مفاہیم کے سانچے میں ڈھال رہے ہوں۔
امام کی تمام باتیں غور سے سننے کے بعد وہ شخص اسحاق کندی کے پاس پہونچا اور جس طرح امام نے فرمایا تھا اسی طرح پیش آیا ۔ آخر ایک دن اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کیا ۔ اسحاق نے اس سے سوال دہرانے کو کہا۔ پھر اس نے ہر جہت سے غور و فکر کرنے کے بعد اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا:یہ سوال تمہارے ذہن میں کس نے ایجاد کیاہے ...؟
شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی میرے ذہن میں یہ سوال آگیا ۔
اس نے کہا: یہ سوال تمہارے ذہن کی پیداوار نہیں ہوسکتی ، تمہارے جیسے افراد کے ذہنوں میں اس طرح کے سوال نہیں آسکتے ، بتائو یہ سوال تمہیں کس نے تعلیم دئیے ۔
اس نے تمام حقیقت بیان کی تو اسحاق کندی نے برجستہ کہا:اس طرح کی گفتگو اس گھرانے کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ۔ اور یہ کہہ کر اس نے اپنے سارے نوشتہ جات کو نذر آتش کردیا۔(٤)
متذکرہ واقعہ سے جہاں امام حسن عسکری علیہ السلام کی علمی برتری و افضلیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بھی آشکار ہوتاہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اہل بیت و قرآن کو ایک دوسرے سے وابستہ و منسلک کیوں قرار دیاتھا ۔ آنحضرت نے اتنی بڑی امت مسلمہ اور اتنی کثیر صحابہ کرام کی جماعت کے باوجود عترت و اہل بیت سے تمسک کا حکم اسی لئے دیاتھا کہ امت کے پاس تعلیم و تعلم کا علم ہے اور اس کا علم استاد اور مدرسہ کا مرہون منت ہے اور استاد و مدرسہ کا علم بہر حال ظاہری معانی تک ہی محدود رہتاہے ۔ اہل بیت طاہرین وہ افراد ہیں جنہیں خداوندعالم نے الہام و القاء کے ذریعہ حقائق و معارف سے آگاہ کیاہے اور وہ مراد الہی سے باخبر ہیں لہذا ان کے بیان کردہ معانی میں تضاد اور اختلاف کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی قید و بند سے مملو زندگی میں ہدایت و تبلیغ کے دوسرے اوربھی بہت سے نمونے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ، آپ نے کبھی سوال و جواب ، کبھی خط و کتابت اور کبھی اپنے زریں اقوال کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کا سامان فراہم کیاہے ؛ آخر میں حسن ختام کے بطور صرف ایک حدیث ہدیۂ قارئین کی جارہی ہے :
امام فرماتے ہیں :لیس من الادب اظھار الفرح عند المحزون '' کسی غم رسیدہ کے سامنے خوشی کا اظہار کرنا ادب و تہذیب کے خلاف ہے''۔(٥)
متذکرہ جملہ میں جہاں ایک انتہائی اہم ترین اخلاقی نکتہ کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہیں ایک درد دل کا بھی اظہار کیاگیاہے جس کا احساس اسی انسان کو ہوسکتاہے جو ایسے حالات سے گزررہاہو جہاں اس پر مصائب کا ہجوم ہو اور دنیا اس کے غم میں ہمدردی کرنے کے بجائے تفریحات میں مشغول ہو۔
آخر میں خداسے دعا ہے کہ معبود ! ہمیں صحیح معنوں میں معصومین کے اقوال پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرما؛آمین یا رب العالمین

حوالہ جات
١۔ مومنون ١١٥
٢۔ احقا ق الحق ج١٢ ص ٤٧٣
٣۔ احقاق الحق ج١٢ ص ٤٦٤؛ الفصول المہمہ
٤۔ مناقب ابن شہر آشوب ج٣ ص ٣٢٥
٥۔ انوار البہیہ ، مطبوعہ مشہد ص ا١٦٠

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .