۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
کشف الغمہ

حوزہ/ کشف الغمہ فی معرفة الائمہ؛ عربی زبان میں شیعہ مورخ، ادیب اور شاعر "علی بن عیسی اربلی" کی مشہور تصنیف ہے ۔ 

تحریر: مولانا رضوان علی 

حوزہ نیوز ایجنسی کشف الغمہ فی معرفة الائمہ؛ عربی زبان میں شیعہ مورخ، ادیب اور شاعر "علی بن عیسی اربلی" کی مشہور تصنیف ہے ۔  علی بن عیسیٰ کا پورا نام "بہاء الدین  علی بن عیسی اربلی" ہے، آ پکا شمار ساتویں صدی ہجری کے مایہ ناز مورخوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی ولادت ایک معروف گھرانہ میں ہوئی، چونکہ آپ عالم جوانی سے ہی ہوشیار اورباصلاحیت تھے نیز آپ کے والد اس زمانے کی ایک معروف شخصیت کے حامل تھےاس لئے آپ مغلوں کے حملے سے پہلے اربیل کے حاکم کے یہاں دیوان کے عہدہ پر فائز رہے۔

علی بن عیسیٰ علم و ادب کے دلدادہ تھے اور آپکی دوستی بھی اس زمانے کی معروف اورعلمی شخصیات سے تھی۔ خواجہ نصیرالدین اور سید ابن طاؤس آپکے مخلص دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ کشف الغمہ فی معرفة الائمہ آپکی مایہ ناز تصانیف میں شمار ہوتی ہے آپ نے اس کتاب میں چودہ معصومین کی زندگی، ان کے فضائل اور کرامات ذکر کئے ہیں۔

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ جوسن ٦٧٨ھ میں لکھا  اس میں صرف نبی اکرم(ص) اور حضرت علی علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔ دوسرا حصہ سن٦٨٧ھ میں مکمل کیا اس میں جناب سیدہ اور بقیہ گیارہ اماموں کے حالات زندگی بیان کئے ہیں۔

آپ اس کتاب کی تصنیف کی ضرورت کو یوں بیان کرتے ہیں: امت مسلمہ نبی کے بعد اماموں کو کم جانتی ہے اور اکثر و بیشتر لوگوں کو ان کے اسماء بھی معلوم نہیں ہیں اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک ایسی کتاب تالیف کی جائے جس میں مکمل طریقہ سے معصومین کے حالات بیان کئے جائیں۔

آپ کے اس کتاب کی تصنیف میں انہی احادیث کا سہارا لیا ہے جو فریقین کے درمیان معروف اور متفق علیہ ہیں۔

آپ نے اس کتاب میں اختلافی مسائل کو بیان کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ آپ کا ماننا یہ تھا کہ خاندان نبوت کے افراد کی صحیح معلومات لوگوں تک پہنچائی جائے۔

آپ نے اس کتاب کی تالیف میں ابواب قائم کئے بغیر اپنا مقدمہ تحریر کیاہے۔ پھر چودہ معصومین کی زندگی بالترتیب قید تحریر میں لائے ہیں ۔سب سے پہلے خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ کی زندگی بیان کی اس کے بعد مولائے کائنات علی بن ابیطالب علیہماالسلام  کا ذکر کیاہے۔ پھر جناب سیدہ اور اس کے بعد امام حسن علیہ السلام سے لیکرامام زمانہ عج تک بالترتیب زندگی تحریر کی ہے۔

ہر معصوم کی زندگی تحریر کرنے کے بعد آخر میں معصوم کی شان میں ایک قصیدہ بھی رقم کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب شروع سے آج تک محققین کے نزدیک قابل مطالعہ و تحقیق قرار پائی اور ہر زمانے کے مشہور محققین نے اس کتاب کی تعریف و تمجید بھی کی ہے مثلاً علامہ مجلسی صاحب بحار الانوار وغیرہ نے اپنی تصانیف میں اس کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے۔

مرکز میکرو فیلم نور میں اس کتاب کے تین مخطوطہ موجود ہیں: (1)۔کتابخانہ ناصریہ لکھنؤ۔ شمارہ کتاب: ١٩٥۔ جس کا آغاز یہ ہے: الحمد‎للہ اللذی الزمنا کلمۃ التقوی و وقفنا للتمسک با لسبب القوی۔ جس کی کتابت محمد بن حسین الطویل الحلّی الصفانے کی ہے۔

(2)۔کتابخانہ ادارۂ ادبیات اردو۔شمارہ کتاب: ٦٢٥۔ یہ کشف الغمہ کا فارسی ترجمہ ہے۔مترجم  ناشناس ہے ۔بعض حوالوں میں علی بن حسن انوری ذکر ہوا ہے۔ آغاز : بگشا بشنای حق زبان را ۔   شیرین کن ازآن شکر دھان را۔

(3)۔ طبع ہو بہو۔ آغاز : الحمد‎للہ اللذی الزمنا کلمۃ التقوی و وقفنا للتمسک بالسبب القوی۔ مکمل کتاب ایک جلد میں ہے جو مؤلف کے شاگرد  "مجدالدین ابی جعفر بن فضل بن یحیی بن مظفر" کی کتاب سے نسخہ برداری  ہوئی۔یہ کتاب٦٨٠ صفحات پر مشتمل ہے اور ہر صفحہ پر ٢٥ سطر تحریر ہیں۔

عناوین :  شنگرف صفحہ اوّل و دوّم تذہیب ہوئی ہے۔ سید ابراہیم کے حکم سے محمد بن رمضان نے روخوانی اور اصل کتاب سے مقابلہ کیاہے۔

کتاب "کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ" کا اجمالی تعارف
تحریر: مولانا رضوان علی 

    "والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ"

تبصرہ ارسال

You are replying to: .