۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 363342
24 اکتوبر 2020 - 14:29
تیسری آنکھ اور عالمی جال

حوزہ/ انٹرنیٹ آتے ہی پوری دنیا بدل گئی۔ صدی کی سب سے بڑی ایجاد ،انٹرنیٹ۔ لوگ اس سے استفادہ کرنے لگے جب لوگوں کا اس پر اعتماد بڑھ گیا تو اپنا سب کچھ اسی کے حوالہ کرنا شروع کردیا اور یقین کربیٹھے کہ اب ہمارے کندھے سے ذمہ داری کا بوجھ ہلکا ہوگیا ۔ جی ہاں! اس سے بڑے بڑے کام آسان اور تیز رفتاری سے انجام پاتے ہیں مگر اب یہی ہمارے لیے وبال جان بھی بناجارہا ہے۔

تحریر: عظمت علی، مبارک پور اعظم گڑھ

حوزہ نیوز ایجنسی | آج کل ہم پوری دنیا سے جڑکر بہت خوش ہیں ۔ ہر انسان کے ہاتھ میں چھوٹا سا آلہ مواصلات ہے جس سے وہ ہر لمحہ، دنیا کو اپنی نگاہوں میں بسائے رہتا ہے۔ کہیں ذرا کچھ کم و زیادتی ہوئی ، اسے علم ہوجاتا ہے۔ یہ کتنا اچھا نظام ہے کہ ہم ہر لمحہ اپنے عزیزوں سے رابطہ میں ہیں مگر یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اس نظام رابطہ سے ہم دور والوں سے نزدیک توہوگئے ہیں مگر نزدیک والوں سے بہت دور بھی جاچکے ہیں۔ جب اس موبائل نے ترقی کی تو انٹر نیٹ کوبھی اپنے ہمراہ لے لیا۔ انٹرنیٹ آتے ہی پوری دنیا بدل گئی۔ صدی کی سب سے بڑی ایجاد ،انٹرنیٹ۔ لوگ اس سے استفادہ کرنے لگے جب لوگوں کا اس پر اعتماد بڑھ گیا تو اپنا سب کچھ اسی کے حوالہ کرنا شروع کردیا اور یقین کربیٹھے کہ اب ہمارے کندھے سے ذمہ داری کا بوجھ ہلکا ہوگیا ۔ جی ہاں! اس سے بڑے بڑے کام آسان اور تیز رفتاری سے انجام پاتے ہیں مگر اب یہی ہمارے لیے وبال جان بھی بناجارہا ہے۔ ہم اس کے جال میں پھنسے جارہے ہیں۔ کسی بھی ویب سائٹ کو کھولنے کے لیے ہم (www)کا استعمال کرتے ہیں جس کا فول فارم (Worldwide Web)ہے۔اس کا مطلب’عالمی جال ‘ہوتا ہے۔ہم نے اسے جانا مگر پہچانا نہیں ۔ اب جان کر بھی انجام بننے کے سواکوئی چارہ کار بھی نہیں کیوں کہ اب تو ہم اس کے جال میں پھنس چکے ہیں ۔ نکلنا چاہیں توبھی نہیں نکل سکتے۔ اب اس کا وجود ہماری کمزوری ثابت ہورہا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتوہماری زندگی سونی سونی ہوجاتی ہے۔لطف حیات کِرکِراہوجاتا ہے۔انسان کی کمزوری ہوجانا دراصل اسے غلامی کی طرف کھینچ لے جانا ہے۔

اب آپ ملاحظہ فرمائیں ہم کہاں تک پھنس چکے ہیں ۔ ہمارے سارے کاغذات انٹرنیٹ کے حوالہ ہیں۔ یہ ہم سے ایسا کرواگیا ہے۔ ہم نے اپنی دولت ، بینک کے حوالہ کردی ۔ اب جب بینک جاؤتو وہاں کا ایک ہی شکوہ ، سرور(Server) نہیں ہے۔ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ مطلب دونوں لاچار ۔ نہ تو بینک والا کچھ کرسکتا ہے اور نہ ہی ہم ۔ ہماری ساری باتیں تو انٹرنیٹ پر ہیں مگر کیا ہم کو یہ معلوم ہے کہ ہم روزانہ جانے انجانے میں اپنی ذاتی معلومات ایسے ایجنٹ کو دیتے رہتے ہیں جو ہمیں زندگی سے لاچار کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ بڑی پلاننگ کے ساتھ کیا جار ہا ہے۔ ہماری تمام تر معلومات ایک جگہ محفوظ ہیں۔ بس ایک کلک پر پوری زندگی کھل کرسامنےآسکتی ہے۔ ہیکر ز کیا کرتے ہیں ؟ہماری ذاتی معلومات کو ہیک کرتے ہیں اور پھریوں ہمیں کنگال بنادیتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی باتیں صرف آپ کو اور دوسری جانب والے کو معلوم ہے… ؟اس گمان میں بھی مت رہئے ۔ ہر جگہ ایک تیسری آنکھ کارفرما ہے۔ہم جو کچھ بھی انٹرنیٹ پر سرچ کرتے اور استعمال میں لاتے ہیں، تیسری آنکھ والے کو سب کوکچھ معلوم ہےبلکہ ہم تو بھول بھی جاتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں بھولتا۔ اس لیے ایسی جگہوں پر پھوک پھوک کر قدم رکھئے۔ ابھی  اس تیسری آنکھ اپنے ایجنڈے پر مکمل طور پر نہیں اتری ہےمگر خدشہ ظاہر کیا جارہا ہےکہ انٹرنیٹ کاجال’ عالمی ایجنڈا ‘کا ایک اہم حصہ ہے۔عالمی ایجنڈا یعنی دنیا سے تمام حکومتوں کا خاتمہ اور صرف ایک نظام کانفاذ؛ دجال کا نظام ۔ یہ لوگ ’ایک عالمی حکومت‘ کے قیام کے درپے ہیںجسے ’نیوورلڈ آرڈر ‘کے نام سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ دجال کی آمد کا زمینہ ہے جسے انہیں بہرحال نافذ العمل بنانا ہے۔ ایجنڈا۔۲۱اور ایجنڈا۔ ۲۰۳۰ اسی کی ایک شاخ ہیں جس کی رو سے تیسری آنکھ ہمیشہ ہمیں اور آپ کو اپنی جال میں پھنسارہی ہے۔ ان کی تابعداری کرنا ہماری مجبوری بن جائے گی۔ آپ ان کی مخالفت کرنا چاہیں گے تو بھی نہیں کرپائیں گے۔ آپ کی ساری معلومات ان کے پاس ہے۔ جیسے ہی آپ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ، سب بند اور آپ زندہ ہوتے ہوئے مردہ ہوجائیں گے۔ یہ نہایت آسان اور سادہ طریقہ ہے کہ پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا۔ ابھی آج ہی اگر وہ چاہیں تو کائنات کے تسلسل کو روک سکتے ہیں۔ بس نیٹ ورک بند ہوا اور دنیا بند۔ بالکل اسی طرح جیسے کورونا میں پوری دنیا بندہوگئی تھی۔

اس لیے ہر کس و ناکس کو اپنی ذاتی معلومات فراہم کرنے سے پرہیز کریں اور خاص طورسے کسی چھوٹے فائدے کی طمع میں کچھ بڑا نقصان نہ کر بیٹھیں اور یہ بات تو یقینی ہے کہ دجال آئے گا اور اس کی راہیں ہموار ہوں گی ، اس لیے ہر وقت دعا سہارا اور اللہ سے لو لگائے رہیں کیوں کہ شیطان مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتا۔

ای میل:rascov205@gmail.com

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .