۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
امام حسن عسکری

حوزہ/ مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی بروجردی رضوان اللہ تعالی علیہ سے پوچھا گیا کہ روایت میں "ایک گھنٹے کی فکر ہزار برس کی عبادت سے افضل ہے۔" تو یہ فکر کیسی ہو؟ آپ نے فرمایا: "جیسی شب عاشور جناب حر علیہ السلام نے فکر کی تھی۔" 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | جس طرح ایک مہربان باپ اپنی تمام شفقتوں اور محبتوں کو اپنی اولاد پر نچھاور کردیتا ہے تا کہ اسے مستقبل میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اور اسکی یہ محبتیں اور شفقتیں کسی حالت، وقت اور موسم میں نہ فقط متاثر نہیں ہوتیں بلکہ زندگی کے آخری لمحات تک اسے اپنے بچوں کی فکر لاحق ر ہتی ہے۔ لیکن اولاد پر اپنی ہستی مٹا دینے والے باپ کو بھی اولاد سے کچھ توقعات ہوتی ہیں اگرچہ ان توقعات میں خود اولاد ہی کا فائدہ ہوتا ہے جیسے وہ اچھی تعلیم و تربیت حاصل کرلے اور نیک و صالح بن جائے وغیرہ اور جب اولاد اپنے ماں باپ کی توقعات پر کھری اترتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ اولاد صحیح نہ نکلی تو انہیں رنج و غم اور شرمندگی ہوتی ہے۔ 
رحمن و رحیم پروردگار نے جن ذوات مقدسہ کو اپنی مخلوقات پر حجت اور اپنا ولی و خلیفہ بنا کر لوگوں کا امام بنایا ہے انکو اپنے چاہنے والوں اور شیعوں سے والدین سے کہیں زیادہ محبت اور ماں باپ سے کہیں زیادہ انکی فکر ہوتی ہے۔ اور انکو بھی اپنے شیعوں سے کچھ امیدیں اور توقعات ہوتی ہیں۔ جس طرح والدین کی توقعات خود اولاد کے لئے مفید ہوتی ہیں ویسے ہی امام معصوم کی امت سے جو توقعات ہیں وہ خود امت کے لئے مفید ہیں۔ اور جب کوئی  ان توقعات پر کھرا اترتا ہے تو معصومین علیھم السلام مسرور ہوتے ہیں اور اگر کھرا نہیں اترتا غمگین ہوتے ہیں۔ 

ذیل میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ان چند احادیث شریف کو پیش کیا جا رہا ہے جن میں امام عالی مقام نے شیعوں کے صفات بیان فرمائے ہیں جن کے جاننے اور ان پر عمل کرنے کا نتیجہ دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی ہے۔ 

1: شیعة عَلِّىٍ هُمُ الّذین یؤثِرُونَ اِخوانَهم عَلى اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خصاصَةٌ وَ هُمُ الَّذینَ لایَراهُمُ اللّه حَیثُ نَهاهُم وَ لا یَفقَدُهُم حَیثُ اَمرَهُم، وَ شیعَةُ عَلِىٍّ هم الَّذینَ یَقتَدُون بِعَلىٍ فى اکرامِ اِخوانِهُم المُؤمِنین۔ 
حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے شیعہ اپنے برادر دینی کو خود پر فوقیت دیتے ہیں چاہے خود ہی کیوں نہ محتاج ہوں۔ اللہ نے جس سے منع کیا ہے اسے انجام نہیں دیتے اور جس کا حکم دیا ہے اسے ترک نہیں کرتے۔ امام علی علیہ السلام کے شیعہ آپ کی اقتدا میں اپنے برادران دینی کا اکرام و احترام کرتے ہیں۔ 
  (محمدى رى شهرى، میزان الحکمه، ج 5، ص 231.) 

2: علامات المؤمنین خمسٌ صلاة الاحدى و الخمسین و زیارة الاربعین و التختم فى الیمین و تعفیر الجبین و الجهر ببسم اللّه الرحمن الرحیم
مومن کی پانچ علامتیں ہیں۔ 
51 رکعت نماز، زیارت اربعین، داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، خاک پر سجدہ اور بلند آواز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا۔ 
(بحارالانوار، ج 95، ص 348 و مصباح المتهجد، ص 787، روضة الواعظین، ج 1، ص 195.)
3: عَلیکُم بِالفِکرِ فَاِنَّهُ حَیاة قَلب البَصیر وَ مَفاتیحُ اَبوابِ الحِکمَةِ۔ 
تمہیں چاہئیے کہ سوچو اور فکر کرو۔ کیوں کہ اس میں با بصیرت دلوں کی حیات اور ابواب حکمت کی کنجیاں ہیں۔ 
(محمد باقر مجلسى، بحارالانوار، ج 8، ص 115 و الحکم الزاهرة، ج 1، ص 19.)
سوچنے، سمجھنے اور فکر کرنے کو اسلام میں اتنی اہمیت ہے کہ کہ دوسرے مقام پر آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ 
4: لَیست العِبادَةُ کَثرَةَ الصِّیامِ وَ الصَّلوةِ وَ اِنّما العِبادَةُ کَثرَةُ التفکُّرِ فى اَمرِ اللّه
روزہ و نماز کی کثرت عبادت نہیں ہے بلکہ امر پروردگار میں زیادہ سوچنا عبادت ہے۔ 
(بحارالانوار، ج 71، ص 322، وسائل الشیعه، ج 11، ص 153 ؛ اصول کافى، ج 2 ص 55 و تحف العقول، ص 518، حدیث 13.)
جس طرح اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تفکر و تدبر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دی ہے اسی طرح معصومین علیھم السلام نے بھی اسکا حکم دیا ہے۔ اور اسکی اہمیت ، اسباب اور نتائج بھی بیان کئے ہیں۔ اور اس کے ترک کرنے کے برے نتائج بھی بیان فرمائے ہیں۔ جیسا کہ امیر بیان حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا :
التدبير قبل العمل يؤمنك مِن الندم" 
عمل سے پہلے اس کی تدبیر تمہیں شرمندگی سے محفوظ رکھے گی۔ 
(الأخلاق: 2 / 399 ، للعلامة الشيخ محمد تقي الفلسفي ( رحمه الله ))
اسی طرح دوسری روایت میں ارشاد فرمایا:
 وَ الفِکرُ مِرآهٌ صافِیَهٌ؛۔ 
فکر صاف و شفاف آئنہ ہے۔ 
جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی:
 يَا بُنَىَّ اِذَا امتَلأََتِ المَعِدَةُ نَامَتِ الفِكرَةُ وَ خَرِسَتِ الحِكمَةُ وَ قَعَدَتِ الاَعضَاءُ عَنِ العِبادَةِ؛
میرے بیٹے! جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو فکر سو جاتی ہے، حکمت کی سرگرمی رک جاتی ہے اور بدن عبادت معبود میں سستی محسوس کرتا ہے۔ 
(مجموعه ورام، ج 1، ص 102) 
معلم انسانیت مربی بشریت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے تفکر کی اہمیت و فضیلت کے سلسلہ فرمایا:
اَفضَلُ العِبادةُ اِدمانُ التَّفکُّرفی اللهِ و فی قُدرَتهِ؛ 
اللہ اور اس کی قدرت کے سلسلہ میں فکر سب سے برتر و افضل عبادت ہے۔ 
(الکافی،ج2،ص55)
آپ فرماتے ہیں۔ فِکرَةُ ساعَةٍ خَیرٌ مِن عِبادَةِ اَلفِ سَنَةٍ؛
ایک گھنٹے کی فکر ہزار برس کی عبادت سے افضل ہے۔ 
(مصباح الشریعه،ص114)
مذکورہ روایات میں تفکر و تدبر اور سوچنے و سمجھنے کی حقیقت، فضیلت، اہمیت، اسباب و نتائج کو بیان کیا گیا۔ کہ انسان کیا سوچے؟ کیسے سوچے؟ کس قدر فکر کرے؟ اور کس سلسلہ میں فکر کرے؟ 
مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی بروجردی رضوان اللہ تعالی علیہ سے پوچھا گیا کہ روایت میں "ایک گھنٹے کی فکر ہزار برس کی عبادت سے افضل ہے۔" تو یہ فکر کیسی ہو؟ آپ نے فرمایا: "جیسی شب عاشور جناب حر علیہ السلام نے فکر کی تھی۔" 
اگر فکر نیک ہو تو ایک گناہگار کو لمحوں میں نجات مل جاتی ہے، دو جہاں کی سعادت اس کا مقدر ہوتی ہے اور اس کا شمار ان خوش بختوں میں ہوتا ہے جنکی ہمراہی کی تمنا خود امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
 يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَكُمْ فَأَفُوزَ فَوْزاً عَظِيماً. 
اور اگر فکر میں بھلائی کے بجاے برائی ہو تو ہزاروں برس عبادت کر کے صف ملائکہ میں داخل ہو جانے کے بعد بھی شیطان لمحوں میں مردود بارگاہ الہی ہو جاتا ہے اور ابدی لعنت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .