۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
علامہ غلام حسنین کنتوری طاب ثراہ

حوزہ/ علامہ غلام حسنین کنتوری:آپ کو علامہ کنتوری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،علامہ ۱۷/ربیع الاول ۱۲۴۷ھ میں سرزمین کنتور پر پیدا ہوئے. آٹھ سال کی عمر میں قرآن شریف کی تعلیم مکمل کی. اس کے علاوہ چونسٹھ علوم میں ماہر تھے جن میں سے فقہ، اصول، کلام، کیمیا، جفر اور موسیقی قابل ذکر ہیں۔

تحقیق و تالیف: سید غافر رضوی و سید رضی زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سید غلام حسنین کنتوری؛ آپ کو علامہ کنتوری کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، آپ  17ربیع الاوّل سنہ 1247ھ میں سرزمین کنتور پر پیدا ہوئے۔
سنہ 1254ھ میں عازم لکھنؤ ہوئے، مدرسہ شاہی میں ابتدائی کتب پڑھیں، آپ نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن کریم کی تعلیم مکمل کی۔ آپ مفتی محمدقلی خان صاحب قبلہ کے داماد تھے، آپ کی شادی 1262ھ میں ہوئی۔ کچھ وجوہات کی بناپر پڑھائی ترک کرکے اپنے وطن واپس آئے اور وہاں علم موسیقی میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ فن موسیقی کے ماہرین بھی احساس کمتری کے شکار ہوگئے۔
آپ نے بزرگ علماء کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے جن میں سے آیۃ اللہ سید حسین (علیین مکان) ابن آیۃ اللہ سید دلدار علی(غفرانمآب)، آیۃ اللہ سید محمدتقی (ممتاز العلماء) بن آیۃ اللہ سیدحسین صاحب، مولانا سید احمدعلی صاحب محمدآبادی۔ آپ کو آیۃ اللہ سید حسین صاحب نے اجازہ اجتہاد بھی عطا فرمایا اسی طرح آپ نے سلطان العلماء آیۃ اللہ سید محمد صاحب سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا۔  
تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد مدرسہ سلطانیہ کے داروغہ قرار پائے اور سنہ 1861ء میں لکھنؤ چوک کے رجسٹرار متعین ہوئے، اس ذمہ داری کو آپ نے بہت اچھی طرح نبھایا جس کے نتیجہ میں آپ کو انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا۔
آپ کو سنہ 1862ء میں فالج کا اثرہوگیا جس کےسبب چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے، آپ نے ایک رات خواب دیکھا کہ دو عیسائی خواتین آئی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم تمہیں شفا دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے پہلے تمہیں عیسائی بننا پڑے گا، آپ کو عالم خواب اس قدر غصہ آیا کہ تمام اعضاء بدن حرکت میں آگئے اور جب بیدار ہوئے تو فالج کا اثر ختم ہوچکا تھا۔
آپ تنگدستی کے باوجود نماز جماعت کی اجرت لینا پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ کی ذہانت قابل داد تھی۔ آپ خراب ہوئی گھڑی کو خود ہی ٹھیک کرلیا کرتے تھے۔ آپ علم جفر میں بھی ماہر تھے۔ 
آپ نے لکھنؤ میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی ، یہ مدرسہ پہلے تو ممتاز العلماء کے امامبارگاہ میں رہا اور پھر علامہ کی کوششوں سے کافی ترقی ہوئی جس کی مولانا احمد علی صاحب محمدآبادی نے تعریف و تمجید بھی کی، تفصیل کے لئے نجوم الہدایہ جلد اوّل ص185 کی جانب رجوع کرسکتے ہیں۔
جب آپ نے مدرسہ کو تنزلی کے عالم میں دیکھا تو گھڑی اور صابون کا کارخانہ کھولا اور اس مدرسہ میں درس بھی دیتے رہے۔ اسی دوران آپ نے ممتاز العلماءکی تفسیر بھی چھپوائی، آپ نے جودھپور، بھرتپور، آگرہ، گوالیئر، کشمیر، میرٹھ اور مظفر نگر کے اطراف و جوانب میں مطب کھولے۔ آپ نے پرانے سےپرانے امراض کا علاج کرکے انہیں جڑ سے ختم کردیا۔
آپ چونسٹھ علوم میں ماہر تھے۔ جن میں سے فقہ، طب، فلسفہ، جفر، کیمیا، منطق اور کلام سر فہرست ہیں۔ 
آپ نے بہت زیادہ علمی میراث چھوڑی ہے جس میں سے نمونہ کے طور پر چند کتابیں یہ ہیں: شرح کبیر کا حاشیہ، مغنی اللبیب کا حاشیہ، شرح اعجاز خسروی، رسالہ شیخ نواب، جواب رسالہ شواہد، رسالہ نور العینین، شرح زیارت ناحیہ، الفیہ بزبان اردو، حسینیہ قرآنیہ اور جوابات غیر مسلمین۔
آپ نے اہلسنت حضرات سے مناظرے بھی کئے جن میں سے سنہ 1894ء کا مناظرہ یادگار ہے جو بہڑہ  سادات مظفر نگر میں انجام پایا تھا، آپ دیگر مناظروں کی طرح اس مناظرہ میں بھی کامیاب رہے، اس مناظرہ سے آپ نے تمام علمائے اہلسنت کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔
یہ علوم وفنون کا مرکز و محور 13/ربیع الاوّل سنہ 1327ھ میں شہر فیض آبادمیں اپنی ابدی اور حقیقی دنیا کی طرف چل بسا اور تشنگان علم کو روتا بلکتا چھوڑگیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .