۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
شہید رابع میرزا محمد کامل

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | شہید رابع آیت اللہ حکیم محمد کامل سن 1150ہجری میں سرزمین دہلی پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا عنایت اللہ احمد خاں کشمیری کا شمار اپنے وقت کے بزرگ علماء میں ہوتا تھا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وقت کے ماہر اساتذہ سے حاصل کی علم نحو، صرف، منطق، فلسفہ اور علم لسانیات و ادبیات کی تعلیم کی تکمیل کے بعد طب کی تعلیم علامہ زماں حکیم شریف خان سے حاصل کی ۔ شہید رابع نے فقہ و اصول کی تکمیل استاد بزرگ سید جلیل القدر مولانا سید رحم علی کی خدمت میں رہ کر حاصل کی۔

آپ نے فقہ و اصول میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ درجہ اجتہاد پر فائز ہوگئے۔ صاحب شذورالعقیان مولانا اعجاز حسین موسوی تحریر فرماتے ہیں کہ میں نےاکثر احباب کے پاس علامہ میرزا محمد کامل کے دستخط شدہ مسائل فقہیہ کے جوابات دیکھے ہیں۔ فروع دین کے مسائل میں اجتہاد فرماتے تھے اور کسی کے مقلّد نہیں تھے۔ علم و عمل میں اس قدر کامل تھے کہ تمام ہم عصر ان کی قدر و جلالت کا اعتراف کرتے تھے۔

شہید رابع اپنے اساتذہ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے مکان کا ملکیت نامہ مہر و دستخط کے لئے آپ کے پاس بھیجا آپ نے وہ اپنے شاگرد کو دیا کہ وہ مہر لگا دے، شاگرد نے مہر لگانے کے بعد آپ کا نام تعظیمی الفاظ میں لکھ دیا؛ جب شہید نے دیکھا تو بہت ناراض ہوئے اور عبارت کاٹ کر اپنے قلم سے یہ لکھا: تصدیق کنندہ: غلامِ خاصِ مولوی رحم علی" مرزامحمد کامل"۔

آپ کو کتب بینی کا بہت شوق تھا، ہمیشہ مطالعہ فرماتے رہتے تھے۔ ایک روز حکیم شریف خان نے ایک ضخیم کتاب حاضرین کے سامنے پیش کی اور پوچھا کہ اس کتاب کا مطالعہ آپ حضرات کتنے وقت میں کرسکتے ہیں؟ ہر شخص نے اپنی ہمت کے مطابق جواب دیا، آخر میں ایک شخص نے بہت کم مدّت دو ماہ مقرر کی۔ حکیم شریف خاں نے شہید رابع کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس علم کے دریا نے 16 دن میں اس کتاب کا مطالعہ اس طرح کیا کہ اس میں موجود تمام انتخابات و فوائد اپنے پاس لکھ لئے۔ آپ عربی و فارسی کے بہترین شاعر تھے اور کاؔمل تخلص فرماتے تھے۔ آپ کی تحریریں عظیم ادیب ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

شہید رابع نے اپنی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کو بہت اہمیت دی اور بہت سی کتابیں لکھیں جن میں نزہہ اثنا عشریہ بجواب تحفہ اثنا عشریہ ہے جس نے ملت اسلامیہ کی بنیاد کو مستحکم کیا ۔ غرۃ الراشدین، معین الصادقین، تاریخ العلماء برعلم رجال، رسالہ در علم بدیع، رسالہ صرف در فارسی، شرح نھایۃ ، شرح وجیزہ شیخ بھائی، تنبہ اہل الکمال، الانصاف علی اختلاف رجال اھل الخلاف۔ رسالہ در فلسفہ، تتمہ نزہتہ، منتخب فیض القدیر شرح جامع الصغیر، منتخب انساب سمعانی، منتخب کنزالعمال، رسالہ بداء، رسالہ در مئلہ رؤیت باری تعالیٰ وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔

آپ اپنے عصر کے علماء سے ہمیشہ رابطہ میں رہتے اور ان سے خط و کتابت کا سلسلہ رکھتےآپ کی اکثر مفتی محمد قلی خان سے خط و کتابت ہوا کرتی تھی، کبھی کبھی مؤمنین کی سفارش بھی مفتی صاحب سے کیا کرتے تھے۔ آیت اللہ سید دلدار علی نقوی سے بھی آپ کے روابط رہتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے آیت اللہ غفرانمآب کو خط لکھا اور اس میں اپنے احوال کے ساتھ کتابوں کی تالیف میں کمبودی معیشت کا تذکرہ فرمایا کیونکہ آپ کو صرف پندرہ روپے ماہانہ حکومت کی طرف سے ملتے تھے اور اسی میں اپنے تمام اخراجات بمشکل تمام پورے کرتے تھے۔ شہید رابع کی اولاد میں فقط ایک بیٹے "سید ذوالفقار حسین" کا نام ملتا ہے۔

آپ ایک عارف، متقی، پرہیز گار اور لوگوں کے ہمدرد تھے پھر بھی ایسے ہمدرد انسان سے لوگ عناد اور دشمنی رکھتے تھے۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے آپ کے قتل کی سازش کی اور باہم قسم کھا کر اپنے ارادہ پر کمر باندھ لی۔ ان کے مکانات آپ کے گھر کے قریب ہی تھے، وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ رات کو مطالعہ ، تحریر اور عبادت کے بعد تنہا سوتے ہیں۔ یہ لوگ رات کی تاریکی میں جمع ہوکر شہید کے کمرہ میں داخل ہوئے اور تلواروں سے بستر پر حملہ کردیا وہ سمجھے کہ آپ کو قتل کردیا لیکن اتفاق سے اس رات شہید مطالعہ کتب اور عبادت الہی میں دوسری جگہ مصروف تھے اور ان کے بستر پر ان کے بھانجےمرزا علی لیٹے تھے، جب تلوارویں ان پر لگیں اور مرزا علی کی آواز و فریاد شہید کے کانوں تک پہنچی تو آپ اپنے حجرہ سے باہر آئے اور لوگوں کا جگایا جس کی وجہ سے مرزا علی کی جان بچی۔

مگر شہید رابع کی دشمنی اسی طرح باقی رہی اور دشمن موقع کی تلاش میں رہے، نواح دہلی میں ایک شخص امیر و کبیر بادشاہ وقت سے خاص قرابت رکھتا تھا، اس شخص نے شہید رابع کو مخفی طریقوں سے ضرر پہنچانے کی کوششیں کیں مگر کامیابی نہ ملی۔ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کیا اور بادشاہ دہلی کو ایک عرضی اس مضمون سے بھیجی کہ حضور والا میرے علاج کے واسطے کسی ماہر طبیب کو مامور فرمادیں، دو دن بعد پھر ایک خط لکھا کہ اگر بادشاہ سلامت کو یہ منظور ہے کہ فریادی کچھ دن اور زندہ رہے تو سلطان العلماء علامہ مرزا محمد کامل کو میرے علاج کے واسطے حکم فرما دیں یا جناب والا میری زندگی سے دست بردار ہوجائیں۔

بادشاہ اس راز سے بے خبر تھا کہ حکیم محمد کامل کے ساتھ سازش کی جا رہی ہے، اس نے شہید رابع سے ایک فرمان کے ذریعہ کہا کہ اب آپ فلاں شخص کے علاج کے لئے جائیں۔ شہید رابع اس شخص کے ارادہ سے واقف تھے، اتمام حجت کی خاطر انکار کیا مگر حکومت کی طرف سے بے حد اصرار ہوا تو ناچار رضا بقضائہ تسلیما لامرہ آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سفر کے لئے آمادہ ہوئے اور رخصت کے وقت سب سے فرمایا کہ غالبا داعی اجل نے اس سفر میں مجھے دعوت دی ہے۔ لہذا اس رخصت کو وداع آخر سمجھنا چاہیے، میں ہر شخص کے حقوق سے بری الذمہ ہونا چاہتا ہوں ۔

آخر کار سنہ 1225 ہجری کو وہی ہوا جو شہید نے کہا تھا۔ اس مکار نے علامہ محمد کامل کو زہر دغا سے شہید کردیا۔ آپ کے جنازے کو دہلی لایا گیا اور مؤمنین کی موجودگی میں پنجہ شریف پرانی دہلی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ کا مقبرہ خلائق کی زیارتگاہ بنا ہوا ہے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص 171دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020

ویڈیو دیکھیں:

htt

ps://youtu.be/QMRMdiaKXNQ?si=qls5VDMKSbYKZxo4

تبصرہ ارسال

You are replying to: .