۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
مولوی محمد باقر دہلوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولوی محمد باقرؒ ۱۷۸۰ ؁ء میں سر زمین دہلی پر پیدا ہوئے آپ کے والد مولوی محمد اکبر برجستہ عالم دین، بہترین مدرس اور دہلی کے نامور علماء میں شمار ہوتے تھے، مولوی محمد باقر کا خاندان ایران کے معروف شہر ہمدان سے ہجرت کرکے ہندوستان آکر آباد ہوا ۔ آپ کے آباء و اجداد اپنے عہد کے صف اول کے علماء میں شمار ہوتے تھے نیزعلم حدیث،علم تفسیر ،علم فقہ اور علم تاریخ میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔

گھر کے ماحول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی پھراپنے والد ماجد کے مدرسے میں زیر تعلیم رہے ، اس مدرسے میں دہلی اور اطراف دہلی کے طلباء علم حاصل کرتے تھے ۔آپ نے مولوی عبدالرزاق کے حضور بھی زانوئے ادب تہہ کیے جو اس وقت کابلی دروازے میں سکونت پذیر تھے ۔اسی مدرسے میں شیخ ابراہیم ذوقؔ سے ان کے دوستانہ روابط ہوئے جو عمر کے آخر تک برقرار رہے ۔

مولوی عبدالرزاق کے مدرسہ سے فراغت کے بعد ۱۸۲۵ ؁ء میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور ۱۸۲۸؁ءمیں اسی کالج میں بحیثیت مدرس کے عنوان سے پہچانے گئے اور ۱۸۳۶؁ء تک دہلی کالج میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔ جس وقت دہلی کالج انگریزوں کی تبلیغ کا مرکز قرار پایا تو آپ نے کالج کو ترک کردیا اس کے بعد محکمۂ آبیاری میں ملازمت اختیار کرلی پھر ایک مدت تک تحصیلداری کے عہدے پر فائز رہے اورترقی کے بعد محکمے کے سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے۔

آپ نے بے انتہا مصروفیات کے باوجود بہت سی خدمات انجام دیں جن میں سے دہلی میں درگاہ پنجہ شریف کے قریب امام بارگاہ تعمیر کرایا جسے آزاد منزل کے نام سے جانا گیا اور اسی درگاہ کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی جسے ’کھجور والی مسجد ‘ کے نام سے جانا جاتاہے یہ مسجد آج بھی موجود ہے ۔ درگاہ پنجہ کے قریب ایک معروف حوزہ علمیہ تعمیر کرایا جو شیعوں کی علمی و فکری تربیت میں کوشاں تھا۔ اس مدرسہ میں سیکڑوں طلاب عربی، فارسی، فقہ اور اصول کے علاوہ انگریزی زبان کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔

موصوف نے اہم تصانیف بھی چھوڑیں جن میں سے ہادی التواریخ، سیف صارم المعروف بہ شمشیر تیز، ہادی المخارج، سفینۂ نجات،تفسیر آیہ ولایت، رسالہ عید غدیر، کتاب التقلیب، مفیدالعلوم اور رسالہ نکاح وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

مولوی باقر نے دہلی اردواخبار نکالا جس کارسم اجراء جنوری ۱۸۳۸ ؁ء میں کیا اور آپ ہی اس کے ایڈیٹر رہے مگر ادارتی فرائض مختلف افراد نے ادا کیے جن میں آپ کے والد مولوی محمد اکبر اور مولوی محمد حسین آزاد بھی شامل تھے ۔ نیشنل آرکائیوز میں جنوری ۱۸۴۰ ؁ء سے دسمبر ۱۸۴۱ ؁ء تک دہلی اردو اخبار کے پرچے محفوظ ہیں۔

مولوی محمد باقر نے اکتوبر 1843ء میں ’’مظہر الحق ‘‘کے نام سے ماہانہ رسالہ بھی جاری کیا جس میں شیعہ فرقے کے نقطہ نگاہ کی ترجمانی ہوتی تھی، جس کی مدیر امداد حسین کے ذمہ تھی۔ اس رسالےکے مطالعہ کے بعد مولوی محمد باقرکی فکری اور نظریاتی بنیادوں کا صحیح علم ہوتاہے۔ اس رسالہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ غلامی کے خلاف شیعہ نظریہ کی وضاحت کس طرح کی جاتی تھی تاکہ اس وضاحت کے زریعہ انگریزوں کے خلاف شیعہ قوم میں مزید بیداری پیدا ہو۔ ۱۸۵۷؁ء میں ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ نے سامراجی نظام کے خلاف اور مجاہدین آزادی کی حمایت میں کارہائے نمایاں انجام دیے ۔انگریزی سازشوں کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مذہبی و سماجی ہم آہنگی میں پیش رفت کی ۔

جس وقت انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہی سامراج کی مکروہ پالیسیوں کے خلاف متحد ہورہے تھے ماحول میں’’ دہلی اردو اخبار‘‘ نے وہ کردار ادا کیا جس ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مولوی محمد باقر ’’دہلی اردو اخبار ‘‘ میں انگریزوں کی پالیسی کی مذمت کرتے رہے اور انگریزی نظام کے خلاف صف آرا ہونے والے فوجیوں اور ہندوستانیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے انگریزی سازشوں کو بے نقاب کیا۔

۱۹ جولائی ۱۸۵۷ء مطابق ۲۶ ذیعقدہ ۱۲۷۳ ھ ؁ کو دہلی اردو اخبار کا نام بدل کر ’’اخبار الظفر ‘‘ کردیا گیا تاکہ تمام انقلابی ، سامراجی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے افراد بادشاہ کی ذات کو محور مانتے ہوئے ان کے گرد جمع ہوسکیں ۔ کمپنی کی طرف سے جو پروپیگنڈے کیے جارہے تھے ان کا دنداں شکن جواب بھی اخبار میں شائع ہوتا تھا ۔ اس زمانہ میں ہندو مسلم یکجہتی کے فروغ کے لیے نمایاں کارنامےانجام دیے گئے۔ایسے اشتہارات جو فرقہ وارانہ فساد کے شعلے بھڑکانے اور انقلابی جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے کمپنی کی طرف سے چھاپے جارہے تھے ،اس اخبار میں ان کا جواب بھی لکھا گیا ۔

مولوی محمد باقر نےانگریزوں کے خلاف بھرپورمحاذ کھول دیا تھا جس کے نتیجہ میں ۱۸۵۷ ؁ء میں بغاوت کی ناکامی کے بعد مولوی باقر کو انگریزوں نے سزائے موت سنادی انکے گھر کو نذر آتش کردیا گیا جس میں انکی لائبریری، اخبارات کی تمام جلدیں، مال و اسباب اور اہم مخطوطات جل کر راکھ ہوگئے۔ منقولہ و غیر منقولہ املاک پر سرکاری قبضہ ہوگیا اور موصوف کے اکلوتے فرزند مولوی محمد حسین آزاد کی گرفتاری کا نوٹس بھی جاری کردیا گیا۔ باپ کی شہادت کے بعد مولانا محمد حسین آزاد انگریزوں کے عتاب سے چھپتے چھپاتے پھرتے جس کی وجہ سے ذہنی بیمار ہوگئے تھے۔

مولوی محمد باقر کی ادبی و صحافتی خدمات اور قومی سرگرمیاں ناقابل فراموش ہیں، صرف دہلی اردو اخبار کو عرصۂ دراز تک کامیابی کے ساتھ نکالنا ہی ان کا کارنامہ نہیں بلکہ قومی و ملکی خدمات، مذہبی و مسلکی ہم آہنگی اور تحریک آزادی کی جدوجہد میں ان کے بے مثال کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

آخر کارانگریزوں نےمولوی محمد باقر کو ان کی حق بیانی ، مزاحمت اور مجاہدین آزادی کی حمایت کے جرم میں ۱۶ ستمبر ۱۸۵۷ء؁ کو گولی مارکر شہید کردیا، ایک قول کے مطابق انہیں توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا ۔ مولوی محمد باقر اپنے وطن سے عشق میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقيق و تاليف : مولانا سيد غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سيد رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص106، دانشنامۂ اسلام، انٹرنيشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/lkEpiQNcgkM?si=v-AilHVumXv1vkE-

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .