بدھ 2 جولائی 2025 - 14:57
امام حسینؑ نے اپنی شہادت کا علم ہوتے ہوئے کربلا کا راستہ کیوں چُنا؟

حوزہ/ حوزہ/ کربلا میں امام حسینؑ کا قیام محض ایک تاریخی معرکہ نہیں، بلکہ ایک ایسا عظیم الشان تاریخی معرکہ ہے جس نے آپؑ کی مظلومانہ شہادت کے ذریعے بنی‌امیہ کے نفاق اور ظلم کا چہرہ بے نقاب کیا اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا ابدی درس تاریخ میں ثبت کر دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؑ نے اپنی شہادت کا علم ہونے کے باوجود یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟ اس تقدیر ساز انتخاب کا تجزیہ ہمیں خداوندی ذمہ داری، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دین کے دشمنوں کی رسوائی جیسے گہرے نکات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I یہ وہ گہرا سوال ہے جو صدیوں سے انسانیت کے ضمیر کو سوچنے پر مجبور کرتا رہا ہے: امام حسین علیہ السلام نے جب اپنی شہادت کا مکمل علم رکھتے تھے، پھر بھی کربلا جانے کا فیصلہ کیوں فرمایا؟ یہ فیصلہ صرف ایک تاریخی جنگ نہیں بلکہ حق، شجاعت اور ذمہ داری کا ایک ابدی سبق ہے۔

اس اہم مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے، حجت الاسلام و المسلمین محمدعلی مروجی طبسی، رکن علمی جامعہ حضرت معصومہ (س)، اس الٰہی موقف کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہیں:

نہی از منکر: ایک ایسا فریضہ جو جان کی بازی پر بھی مقدم ہے

امام حسین علیہ السلام نے اپنے مشہور وصیت نامے میں، جو محمد بن حنفیہ کے نام ہے، اور ابن عباس کو دیے گئے زبانی جواب میں، اپنے مدینہ سے عراق کے سفر اور قیام کی ایک بڑی وجہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" یعنی نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا بیان فرمائی۔

آپؑ نے عملاً یہ واضح کیا کہ اگر کسی مقام پر دین کی یہ اہم فریضہ خطرے میں ہو تو مال، جان اور حتیٰ کہ اولاد کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ اس وقت نقصان یا ضرر کی پرواہ نہیں کی جاتی۔

اگر کوئی معروف (نیکی) یا منکر (برائی) ایسا ہو جو دین اسلام کے بنیادی اصولوں سے جڑا ہو، جیسے مسلمانوں کی عزت کی پامالی، دین میں بدعتوں اور تحریفات کا رواج، دینی شعائر کا مٹ جانا یا اسلام کی بنیادوں کو خطرہ لاحق ہونا، تو ایسے وقت میں جانی و مالی نقصان امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے معاف نہیں کرتا۔ خاص طور پر جب علماء کا خاموش رہنا، اسلام کی توہین اور عوام کے عقائد کو کمزور کرنے کا سبب بنے۔

امام حسینؑ، جو نبی اکرم ص کے نواسے اور جانشین تھے، اور جن کا قول، فعل، سکوت اور موقف پورے عالم اسلام کی توجہ کا مرکز تھا، انہوں نے نہی از منکر کو اپنا شرعی فریضہ سمجھا، کیونکہ یزید اور اس کی اموی جماعت صرف ایک سیاسی قوت نہیں بلکہ دین دشمن، بدعت پرست، اور فاسد و فاسدگر ٹولہ تھی۔ امام حسینؑ کی خاموشی گویا اس فاسد نظام کی تائید تصور ہوتی۔

پس امام حسینؑ نے یہ سبق دیا کہ اگر دین کی بنیادیں مٹنے کے خطرے میں ہوں، تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے، خواہ اس کے نتیجے میں اسے جان، مال یا عزت کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ دین کی بقا کے سامنے ہر طرح کا نقصان ہیچ ہے۔

امام حسینؑ کی شہادت: بنی‌امیہ کی دائمی رسوائی کا ناقابل انکار ثبوت

امام حسینؑ کی سرخ تحریک کا سب سے اہم نتیجہ بنی‌امیہ کی رسوائی اور ان کے چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹنا تھا نہ صرف اسلامی دنیا میں بلکہ پوری انسانیت کی نظر میں۔

بنی‌امیہ محض ایک قبیلہ نہیں بلکہ وہ سب سے طاقتور سیاسی پارٹی تھی، جو شروع ہی سے سلطنت پرستی، دین کی اساسات سے انکار، فریب کاری اور فسق و فجور کا علمبردار تھی۔ فتح مکہ کے بعد، مجبوری میں اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے اس گروہ کا اصلی چہرہ صرف اسی وقت بے نقاب ہو سکتا تھا جب وہ کوئی ایسی ظلم و بربریت کی مثال قائم کرتے جس پر دنیا خاموش نہ رہ سکے۔

کربلا کے میدان میں جو مظالم ڈھائے گئے بچوں کا قتل، عورتوں کو ڈرانا، پانی و غذا کا روک دینا یہ سب بنی‌امیہ کے نفاق، سفاکی اور دین دشمنی کو دنیا کے سامنے لانے کا ذریعہ بنے۔ امام حسینؑ کی تدبیر اور قیادت میں کربلا کی قربانی اور اہلِ بیتؑ کی اسیری نے اس فتنہ‌انگیز گروہ کو ہمیشہ کے لیے بے نقاب کر دیا۔

پس امام حسینؑ کا قیام، حق کے اظہار، باطل کی رسوائی اور دین کی حفاظت کے لیے تھا، چاہے اس کی قیمت شہادت ہی کیوں نہ ہو۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha