حوزہ نیوز ایجنسی | حافظ کفایت حسین سنہ 1316 ھ بمطابق 1898 ءمیں سرزمین شکارپور ضلع بلند شہر پر پیدا ہوۓ،آپ کے والد "مولانا عبد اللہ "نے منّت مانی تھی کہ اگر اللہ ان کو فرزند نرینہ عطا فرمائے گا تو اسکو امام حسین ؑ کیلئے وقف کر دیں گے،جب موصوف کے یہاں فرزند کی ولادت ہوئی تو اس بچّہ کا نام "کفایت حسین" رکھا اور آپ کو علم دین کیلئے وقف کر دیا ۔
حافظ کفایت حسین نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن شکار پور کے مدرسہ "احسن المدارس" میں حاصل کی۔آپ نے قرآن مجید کے دس پارے حافظ مہدی حسن کی شاگردی میں حفظ کۓ اور سنہ 1909 عیسوی میں پورا قران مجید حافظ غلام حسین کے ذریعہ حفظ کیا ۔
سنہ 1910 عیسوی میں درس تجوید اور قرائت قرآن مجید کے لئے مدرسہ منصبیہ عربی کالج میرٹھ کا رخ کیا، وہاں پر تین مہینہ کی سکونت کے دوران حافظ فیاض حسین سے قرائت اور تجوید سیکھی اور اپنے وطن واپس آگئے۔
اسی سال اعلیٰ تعلیم کیلئے لکھنؤ کا رخ کیا اور مدرسہ ناظمیہ میں رہ کر جید اساتذہ سے کسب فیض کیا ، سنہ 1918عیسوی میں مدرسہ ناظمیہ سے ممتازالافاضل کی سندحاصل کی اور اسی سال"¬ ہائی اسکول لکھنؤ" میں استاد کی حیثیت سے منتخب کر لیے گئے۔
موصوف نے 1919 عیسوی میں مدرسۃ الواعظین میں داخلہ لیا، وہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے تبلیغ دین کیلۓ پیشاور کا رخ کیا اور وہاں 2 سال تبلیغ دین کے فرائض انجام دیئے۔نجم الملت آیت اللہ نجم الحسن، حافظ کفایت حسین کی خدمات سے بہت متاثر ہوۓاور آپ کو خاص سند سے نوازا-
حافظ صاحب سنہ 1925 عیسوی میں کورم ایجنسی کے قاضی مقرر ہوئے۔اہل پیشاور ا ور اطراف و اکناف کے لوگ آپ سے بہت زیادہ متاثر تھے کیونکہ آپ ان لوگوں کے درمیان انہی کی زبان "¬¬¬¬¬پشتو" میں مجالس پڑھتے تھے-
حافظ کفایت حسین ہمدردی اور انکساری کا مجسمہ تھے آپ اس قدر منکسر المزاج تھے کہ ایک نانوائی نے آپ سے کہا کہ میں ایک مدت سے آپ کو دعوت دے رہا ہوں "آپ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ لے آتے ہیں" آج آپ کو بہانہ کی مہلت نہیں دوں گا " لہذا آپ میری دعوت کو قبول فرمائیے" آپ فوراً ہی تندور کے پاس بیٹھ گئے، نانوائی نے کھانے کیلئےچنے کی دال اور روٹی پیش کی آپ نے وہیں بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا ،لوگ آپ کے اس عمل سےبہت حیرت زدہ ہو ئے۔
کفایت حسین صاحب حافظ قرآن ہونےکے ساتھ ساتھ ایک بڑے خطیب بھی تھے آپ کا بیان فلسفہ اور آیات قرآنی پر مشتمل ہوتا تھا ، یہاں تک کہ علم دوست اہل سنت بھی آپ کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔
اہل سنت اور اہل تشیع علم تجوید،حفظ،قرائت ،تفسیر، اور علوم قرآن میں آپ کی علمی صلاحیت کے قائل تھے،آپ دوران تلاوت سلام کا جواب دے کر تسلسل اور روانی کے ساتھ تلاوت کو آگے بڑھا دیتے تھے تلاوت کی روانی اتنی زیادہ تھی کہ ایک گھنٹے میں پانچ پاروں کی تلاوت کرلیا کرتے تھے ہر روز نصف قرآن اور ماہ رمضان میں پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔آپ نے لکھنؤ،اٹاوہ،شکارپور ،میرٹھ اورحیدرآباد وغیرہ کی قرآنی محفلوں میں شرکت کی اور تمام لوگوں سے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا-
سنہ 1925 عیسوی میں مولانا حافط محمد ابراہیم میرسیالکوٹی اوردوسرے علماء اہل سنت نے بھی دعویٰ کیا کہ اہل تشیع میں حافظ نہیں پاۓ جاتے ، لہذا حافظ کفایت حسین نے ایک محفل میں اس طرح تلاوت کی کہ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی خطیب جامع مسجد اہل حدیث اور مولانا محمد شاہ حنفی یہ تحریر کرنے پر مجبور ہو گۓ کہ ہمارا نظریہ باطل ہو گیا ۔
موصوف کی اس شان و شوکت کو آزاد قبائل برداشت نہیں کر پاۓ اور آپ سے حسد کرنے لگے یہاں تک کہ قتل کا منصوبہ بنالیا، ایک دن حافظ صاحب ایک باغیچہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ایک شخص آپ کو قتل کرنے کیلئے باغیچہ میں داخل ہوا اور سجدہ میں جانے کا انتظار کرنے لگا ، جیسے ہی سجدہ میں گئے اس نے گولی چلانا چاہی لیکن اس کے ہاتھ کانپنے لگے دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا جب مجبور ہو گیا تو اس نے اپنے آپ کو حافظ صاحب کے قدموں میں گرا دیا آپ نے اسکو کھانا اور پیسے دےکر خدا حافظ کردیا –
سنہ 1934 عیسوی میں نجم العلماء کے حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ پارہ چنار سے استعفیٰ دے کرتبلیغ کے لئے شمال سے مغرب کی طرف چلے گئےاور پنجاب میں اوقاف کے نائب متولی منتخب ہو گئے، نجم الملت نے معقولات کی تدریس کے لئے آپ کو دعوت نامہ بھیجا اور " ثالث النیرین "کے لقب سے نوازا، کئ سال کتاب التصریح (ملا حسن شمس بازغہ) شرح تجریداور عماد الاسلام کی تدریس کی جس کے سبب آپ کی صلاحیت کے چرچے ہونے لگے 1964 عیسوی میں نواب رضا علی خان نے ایک کمیٹی بنائی موصوف بھی اس کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور وہاں سے لاہور تشریف لے گئے۔
پاکستان میں ہندوستانی مہاجرین کے لۓ ایک مرکزی شخصیت بن کر ابھرے اور سنہ 1948 عیسوی میں آپ نےادارہ حقوق شیعہ کی بنیاد ڈالی۔
حکومت پاکستان نے سنہ 1957ء میں قوانین اسلامی کے اجرا کے لئے کمیٹی تشکیل دی تو حافظ صاحب کو بھی اسکا رکن بنایا ۔
موصوف سنہ 1964 عیسوی میں حج بیت اللہ کی غرض سے کراچی کا رخ کیا ، جیسے ہی کراچی پہنچے اچانک طبیعت خراب ہو گئی یہاں تک کہ سفر حج ملتوی کرنا پڑا۔ سنہ 1966 عیسوی میں بیماری کے با وجود زیارت کی غرض سے عازم نجف اشرف ہوئے اوروہاں آیت اللہ محسن الحکیم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے خاص طبیب سے آپ کا علاج کرایا۔
سنہ 1968 عیسوی میں آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی، نواب مظفّر علی نے علاج کی بہت کوشش کی لیکن صحت¬یاب نہ ہو سکے، آخر کار یہ علم وعمل کا ماہتاب 1388ھ بمطابق 15 اپریل 1968ء بروز پنجشنبہ غروب ہو گیا اور اگلے روز مجمع کی ہزار آہ وبکا کے ہمراہ لاہور کےقدیمی امامبارگاہ " گامے شاہ "میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص195دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء