۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا انتظار حسین نقوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسیمولانا انتظار حسین نقوی سنہ 1344ھ میں عثمانپور ضلع امروہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد "افتخار حسین نقوی " تھے۔

مولانا کے مورث اعلیٰ "سیدچاندبن نور" ہیں جن کا سلسلۂ نسب بارہ واسطوں سے امام علی نقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے اور مولانا موصوف چھبیسویں پشت میں امام علی نقی علیہ السلام سے مل جاتے ہیں۔

علامہ نےابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی پھر فروغِ تعلیم کے لئےمدرسہ باب العلم نوگانواں سادات کا رخ کیا، وہاں رہ کر آیۃ اللہ سیدآقاحیدر، آیۃ اللہ سید محمد تقوی باسٹوی اورعلامہ جواداصغر ناطق جیسے جیّد علمائے اعلام کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے۔(تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: انوار فلک، ج1، ص30)

تعلیم سے فراغت کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت دین کی خاطر متعدد سفرکئے جن میں سے سنہ 1954ء میں تنزانیہ، سنہ 1958ء میں ٹانگا، سنہ 1961ء میں ٹبورہ اور ماڈاگاسکرکے سفر یادگار ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موصوف اپنے زمانہ میں بہترین مبلغ، مؤلف،مترجم،متکلم اور عالم کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔ جب آپ افریقہ سے ہندوستان واپس آئے تو سنہ 1986ء میں امامیہ ہال (دہلی) میں امام جمعہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد بریلی میں بھی امام جمعہ کے عنوان سے پہچانے گئے۔

اسکےعلاوہ بنگال اورگجرات کے متعدد علاقوں میں تبلیغ دین کےفرائض انجام دیئے جن میں سے بنگال میں مرشدآباداور گجرات میں کانودرسرفہرست ہیں۔

مولانا انتظار حسین نےمستقل چودہ سال تک محرم الحرام میں عشرۂ مجالس میمن سادات ضلع بجنور میں خطاب فرمایا۔ آپ اپنے زمانہ کے بہترین مناظر تھے۔ مولانا نے متعدد مناظرے کئے جن میں سے مولانا غلام رسول فاروقی(امام جمعہ منگوپورہ) اور ڈاکٹر حافظ رئیس احمد(بہار) کے ساتھ مناظرے یادگار ہیں۔آپ کی کوششوں کے سبب پورینہ (بہار) کے علاقہ میں ایک بڑی تعداد نے مذہب شیعہ قبول کیا۔

مولانا کو کچھ لوگوں نے تعصب کے پیش نظر، کچھ لوگوں نے معلومات میں اضافہ کی خاطر اور اکثر لوگوں نے راہ ہدایت کی تلاش میں متعدد خطوط لکھے جن کے آپ نے مدلل جواب دیئے اور اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگوں نے مذہب اثنا عشری کو قبول کیا۔

حاضرجوابی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ سنہ 1985عیسوی میں سیدواڑہ پورینہ(بہار) میں عشرۂ مجالس خطاب کرنے گئے جہاں آپ کا بیس روز قیام رہا، جب آپ اپنے وطن واپس آنے کو تیار ہوئے تو مؤمنین کی جانب سے ایک کیسٹ دی گئی جس میں مذہبی سوالات کئے گئے تھے۔ علامہ نے وطن پہنچ کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کیسٹ کو سنا اور سوالوں کے جوابات لکھنا شروع کیا، سوالات کی تعداد اتنی تھی کہ ان کے جوابات اکیس صفحات پر مشتمل کتابچہ کی صورت میں تیارہوئے۔

آپ نے کافی مقدار میں علمی سرمایہ چھوڑا ہے جس میں سے ستون صداقت(تین جلدوں پر مشتمل)، تلاش حق، آئینہ کے دو رخ، اظہارحقیقت، عزاداری سیدالشہداء پرایک نظر، درددل اور ہے راز دل اور وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

مولانا موصوف کو خداوندعالم کی جانب سے تین بیٹے عطا ہوئے جن کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: (1)سیدمحمد (2)سیدمحمد اصغر (3)سید بضاعت علی۔ تین نعمتوں کے علاوہ آپ کو ایک رحمت الٰہی بھی عطا ہوئی۔ ان کے خاندان میں سے ان کے پوتے "مولانا منظورعلی عرف محسن نقوی" قم المقدسہ میں مشغول تعلیم ہیں۔

انتظار صاحب نہایت منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے اور آپ کا ارادہ کوہ مستحکم کی مانند اٹل رہا کرتا تھا۔ خودنمائی کو بالکل پسند نہیں فرماتے تھے۔ روحانیت اس معراج پر تھی کہ زمانہ کے لہو ولعب اپنی طرف مائل نہیں کرپاتے تھے۔

یہ علم و عمل کا آفتاب24/ذیقعدہ سنہ 1418ھ میں سرزمین دہلی پرغروب ہوگیا اور چاہنے والوں کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ امروہہ میں سپردِ لحد کیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص49، 2019
دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی،

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • نور علی نقوی عثما ہوری امروہہ IN 13:11 - 2022/03/25
    0 0
    جزاک اللہ خیرا لجزاء بہت ہی عمدہ قدم ہے حوزہ نیوز اور انٹرنیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی کا والسلام نور علی نقوی عثما ہوری امروہہ